تازہ ترین پوسٹس

زیارت آل یاسین_خلافت کا الٰہی معنیٰ اور کون الٰہی خلفاء ہیں؟

زیارت آل یاسین
درس 9
خلافت کا الٰہی معنیٰ اور کون الٰہی خلفاء ہیں؟

استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب

موضوع سخن زیارت مبارکہ زیارت آل یاسین ہےہم سلسلہ گفتگو میں اس سلام تک پہنچے ہیں
السلام علیک یا خلیفتہ اللہ ناصر حقہ

سلام ہو آپ پر اے اللہ کے خلیفہ اور اس کے حق کے مددگار

یہاں ہم چند نکات پر گفتگو کریں گے

پہلا نکتہ یہ ہے کہ خلیفتہ اللہ سے مراداللہ تعالیٰ کا زمین پر جانشین ؟
لفظہ خلافت یا لفظ استخلاف جانشین کے لیے استعمال ہوتا ہے
پروردگار نے سب سے پہلے زمین پر حضرت آدم علیہ السلام کواپنا جانشین قرار دیا اس حوالے سے قرآن مجید میں آیات موجود ہیں جیسے بعنوان مثال
سورہ بقرہ آیت نمبر 30 میں پروردگار فرما رہا ہے کہ
اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ-قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ-وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ-قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(30)
اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا: میں زمین میں ایک خلیفہ (نائب) بنانے والاہوں،فرشتوں نے کہا:کیاتوزمین ایسے کو خلیفہ بنائے گا جواس میں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرےگا؟جبکہ ہم تیری ثنا کی تسبیح اور تیری پاکیزگی کا ورد کرتے رہتے ہیں،(اللّٰہ نے) فرمایا:(اسرارخلقت بشرکےبارے میں)میں وہ جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے ۔

اسی طرح اللّٰہ نے اور انبیاء کو بھی زمین پر خلیفہ کا عنوان دیا جیسے سورہ ص آیت نمبر 26میں پروردگار فرما رہا ہے کہ
يَا دَاوُوْدُ اِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيْفَةً فِى الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِــعِ الْـهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ ۚ اِنَّ الَّـذِيْنَ يَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ لَـهُـمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ بِمَا نَسُوْا يَوْمَ الْحِسَابِ (26)

اے داؤد ہم نے آپ کو زمین میں خلیفہ بنایا ہے لہذا لوگوں میں حق کے ساتھ فیصلہ کریں اور خواہش کی پیروی نہ کریں ،وہ آپ کو اللہ کی راہ سے ہٹادے گی،جواللہ کی راہ سے بھٹکتے ہیں انکے لیے یوم حساب فراموش کرنے پر یقیناً سخت عذاب ہوگا ۔

اس سے پتہ چل رہا ہے کہ خلافت الٰہی خاص مقام اور منصب ہےجس اللّٰہ نے حضرت آدم ع اور بعض انبیاء کواور اسی طرح کچھ اولیاء کو اس منصب سے نوازا ہے
پس اس سے ثابت ہوا کہ یہ ایک الٰہی مقام ہے اور یہ اللّٰہ کا بنایا ہوا منصب ہے

!اگر لوگ کسی کو خلیفہ بنائے تو وہ لوگوں کا بنایا ہوا حاکم تو ہو سکتاہے لیکن وہ اللّٰہ کا بنایا ہوا خلیفہ یا خلیفہ پیغمبر نہیں ہوسکتا۔

ایک مناظرہ ہوا تھا مامون عباسی کے دور میں اور اس کا ذکر امام رضاع سے متعلق عیون اخبار الرضا میں یہ واقعہ موجود ہے
اس مناظرے میں سنی فقہا سے جو مناظرہ ہوااس میں مامون عباسی ہارون الرشید کا بیٹا امام رضاع کے علم و استدلال سے متاثر ہوا اور اس نے خود اہلسنت کے فقہا سے گفتگو کی کہ
مجھے یہ بتائیں اس شخص کے بارے میں جس کو لوگوں نے خود خلیفہ کا عنوان دیا آیا جائز ہے کہ اس کو خلیفہ نبی یا خلیفہ خدا کہا جائے حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہِ وآلہ وسلم نے اس کو اپنا جانشین قرار نہیں دیا تھا
اگر آپ کہتے ہیں جائز ہے تو پھر آپ کی بات درست نہیں ہے
اگر آپ کہیں نہیں تو پھر اسکا نتیجہ یہ ہے کہ جناب ابوبکر خلیفہ پیغمبر ص یا خلیفہ خدا نہیں ہو سکتے آگر آپ آنہیں خلیفہ پیغمبر کہیں گے تو گویا آپ نے رسول ص پر جھوٹ باندھا اور ان لوگوں کے زمرے میں قرار پائیں گے جن کو پیغمبر نے جہنم کا وعدہ دیا ہے
مجھے یہ بتائیں کہ آپ کی کونسی سی بات صحیح ہے جو آپ کہتے ہیں کہ پیغمبر جب دنیا سے گے تو انہوں نے کسی کو اپنا جانشین یا خلیفہ قرار نہیں دیا یہ ٹھیک ہے ؟
یا یہ ٹھیک ہے کہ جو آپ ابوبکر کو کہتے ہیں کہ وہ خلیفہ رسول خدا تھے؟
آگر دونوں ٹھیک ہوں تو یہ ناممکن ہے
کیونکہ دونوں میں تناقض اور تضاد ہے آگر ایک ٹھیک ہے تو دوسرا یقیناً باطل ہے ۔
تو پس تقوی پیدا کرے اور تقلید کو چھوڑ دیں کہ جو بزرگوں نے کہا ہے یا پہلوں نےاس پر ہی چلنا ہے شبہات سے دوری اختیار کریں خدا کی قسم اللّٰہ تعالیٰ صرف ان لوگوں کہ عمل کو قبول کرے گا جو غور وفکر کے ساتھ انجام دیں اور ایسے کام میں داخل نہ ہوں جہاں آپ کو حق کا یقین نہ ہوجہاں شک وترید ہووہ انسان کو کفر کی طرف لے کر جاتا ہےاور کافر کی جگہ جہنم ہے

تو یہاں مامون بادشاہ نے خود ہی اپنے مذہب کے فقہاء کو لاجواب کر دیا ۔
دوسری طرف ہم دیکھ رہے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ آلہ وسلم سے جو متواتر احادیث ہم تک پہنچی ہیں اس میں واضح ہوا ہے کہ بارہ آئمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین پر الٰہی خلفاء ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان موجود ہے کہ
فرماتے ہیں کہ
یہ بارہ آئمہ میرے جانشین ہیں اور میرے وصی ہیں اور میرے بعد لوگوں پر اللّٰہ تعالیٰ کی حجت ہیں اور میری امت کے بزرگ لوگ یعنی بڑے لوگ ہیں۔

امام رضاع کا فرمان ہے کہ
یہ آئمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے زمین پر خلفاء ہیں ۔
یہ جو ہم کہتے ہیں کہ
السلام علیک یا خلیفۃ اللہ
اے وہ ہستی جس کو زمین پر اللہ نے اپنا خلیفہ قرار دیا آپ پر ہمارا سلام ہو
اور یہ بات تو اہلسنت کی کتابوں میں بھی موجود ہےجیسے نعم بن حمادکی کتاب ہے الفتن اس میں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ
میری امت میں ایک خلیفہ آۓ گا جو لوگوں کو مشت مشت یعنی مٹھی بھر بھر کے مال دے گااس شمار نہیں کرے گا۔

اسی طرح صحیح مسلم میں جناب جابرابن سمرہ سے نقل ہوا ہے کہ میں ایک دفعہ میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچا اور سنا کہ وہ فرما رہے تھے کہ
یہ اسلام کا امر لوگوں کے لیے ختم نہیں ہو گا کہ بارہ خلفاء لوگوں کے لیے آہیں اور اس طرح کی روایت مسند احمد میں بھی ہے۔

تو پس یہاں ہم جس چیز کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ یہ جو مولا امام زمانہ عجل کے لیے خلافت کا منصب ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ صرف جب ظاہری طور پر حکومت کریں گے یا ظہور کریں گے تو وہ خلیفۃ اللہ ہیں نہیں بلکہ جب سے امام ع پیدا ہوئے ہیں اس وقت سے ہی خلیفۃ اللہ ہیں اور زمانہ غیبت میں بھی بعنوان خلیفۃ اللہ لوگوں کے امور کو انجام دے رہے ہیں
اس زمانے میں حضرت خضر علیہ السلام اور ابدال(جو غیبت میں مولا کے ناصر ہیں جن کو رجال الغیب بھی کہا جاتا ہے) مولا ع کے ہمراہ ہیں اور یہ سارے امور انجام دے رہے ہیں اور جب مولا ع ظہور فرمائیں گے اور مولا کی ظاہری حکومت برپا ہوگی تو اس وقت دنیا خلیفۃ اللہ کے وجود کو دیکھے گی اور ان کے ذریعے پوری زمین پر الٰہی عادلانہ حکومت کو برپا ہوتے ہوئے دیکھے گی اور اس وقت خلیفۃ اللہ کا وجود کامل اور واضح طور پر لوگوں کو نظر سے گا۔
اور اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو وہ زمانہ دیکھائے آمین انشاء اللہ
والسلام
عالمی مرکز مہدویت – قم ایران

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *