عالمی مرکز مهدویت – icm313.com

سلسلہ دروس اخلاق منتظرین- مومنین میں اخوت و دوستی

سلسلہ اخلاق منتظرین
دسته‌بندی نشده مہدی مضامین و مقالات

سلسلہ دروس اخلاق منتظرین- مومنین میں اخوت و دوستی

استاد مہدویت آغا علی اصغر سیفی صاحب

خلاصہ : 
موضوع سخن مومنین میں اخوت و دوستی ہے۔ 

قرآن مجید کی اہل ایمان ، اہل انتظار کی دعا اس طرح بھی ہے کہ سورہ حشر کے اندر آیت نمبر 10 میں پروردگار اس دعا کو نقل فرماتا ہے:

وَالَّـذِيْنَ جَآءُوْا مِنْ بَعْدِهِـمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّـذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِىْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِـيْـمٌ (10)

اور ان کے لیے بھی جو مہاجرین کے بعد آئے (اور) دعا مانگا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارےان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمانداروں کی طرف سے کینہ قائم نہ ہونے پائے، اے ہمارے رب! بے شک تو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔

پروردگار فرماتا ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ یا اللہ ہمارے اور ہمارے ان بھائیوں کہ جنہوں نے ایمان میں ہم پر سبقت کی ہے کے گناہوں کو معاف فرما اور ہمارے دلوں میں مومنین کے حوالے سے کینہ قرار نہ دے ۔ اے ہمارے پروردگار تو یقیناً بخشنے والا مہربان ہے۔

ایک اہم چیز جو اہل ایمان اور اہل انتظار کے درمیان ہونی چاہیے وہ آپس میں برادری اور ہمدلی ہے۔ مولاؑ امام زمانہ عج کے ظہور کا بھی اہم ترین سبب یہ ہے کہ اہل ایمان ، اہل انتظار آپس میں اخوت ، برادری اور ہمدلی پیدا کریں گے اور یہ ہمدلی اور اخوت اتنی مضبوط ہو گی کہ ان کے درمیان کینہ ختم ہو جائے گا۔ یعنی یہ اپنے ایمانی بہن بھائیوں کے ساتھ کبھی کینہ نہیں رکھیں گے نہ ان کے ساتھ خیانت کریں گے اور یوں ایک دوسرے کے ساتھ محبت کریں گے۔ کہ روایات یہ کہتی ہیں کہ یہ مختلف ممالک کے لوگ ہونگے لیکن ایسا لگے گا کہ ایک ماں باپ کی ہی اولاد ہیں۔ یعنی ایک بہت ہی قوی رشتہ ہوگا یعنی ایمانی رشتہ۔

انسان چونکہ ایک اجتماعی مخلوق ہے وہ تنہا زندگی نہیں گذار سکتا۔ تنہائی انسان کو افسردہ اور مایوس کر دیتی ہے اسے ہر دور میں اچھے دوستوں کی ضرورت ہے کہ ان میں اخوت والا رشتہ قائم ہو۔ وہ ایک دوسرے سے محبت کریں اور ایک دوسرے کی حفاظت کریں اور ایک دوسرے کے رازدار ہوں۔ یعنی انسان ہمیشہ ایک اچھے دوست کی تلاش میں ہوتا ہے اور یہ وہی رشتہ ہوتا ہے جسے ہم اخوت اور برادری کہتے ہیں۔

نبیؐ اکرم جب مکہ سے مدینہ آئے تو مہاجرین و انصار جو مختلف شہروں اور قوموں سے تھے لیکن آپ نے ان کے اندر ایک ایمانی رشتہ قائم کیا۔

ترمذی اور دیگر اہل تسنن کی کتابوں میں ابن عمر سے روایت نقل ہوئی ہے۔ 

کہتے ہیں کہ:
رسولؐ اللہ نے اپنے مہاجرین و انصار میں اخوت قائم کی ۔ اُس وقت مولا علیؑ آئے اور ان کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔

فرمایا:

یا رسولؐ اللہ آپ نے اصحاب کے درمیان رشتہ اخوت قائم کیا ہے ۔ لیکن آپؐ نے میرے اور کسی کے درمیان تو ایسا کوئی رشتہ قائم ہی نہیں کیا۔

رسولؐ اللہ نے فرمایا:

اے علیؑ تم میرے دنیا اور آخرت میں بھائی ہو۔ 

اب یہاں مولاؑ علیؑ کی فضیلت اپنی جگہ کہ مولا علیؑ وہ ذات ہیں کہ جنہیں رسولؐ اللہ نے اپنے بھائی کے طور پر انتخاب کیا اور صرف دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں بھی بھائی بنایا۔

کیونکہ بہت سارے بھائی ایسے ہیں جو صرف دنیا میں بھائی ہیں اور آخرت میں ایک دوسرے کو نہیں پہچانے گے۔ اور بہت سارے ایسے ہیں جو دنیا میں بھائی اگر بنے ہوئے ہیں تو خیانت کر رہے ہیں۔ یہ تو ایک توفیق ہے کہ دنیا میں انسان کو اچھے بھائی ملیں اور ہماری بہنوں کو اچھی بہنیں ملیں۔

یہاں ایک اور چیز کی طرف اشارہ ہے کہ رسولؐ اللہ چونکہ بشر ہیں اور انہیں بھی ایک بھائی کی ضرورت ہے تو انہوں نے اپنے اصحاب اور عزیزوں میں سے علیؑ جیسی ذات کو اپنا بھائی منتخب کیا۔

تمام اہل ایمان، اور اہل انتظار سے یہی گذارش ہے کہ ہمیشہ اپنے اردگرد کے ماحول میں کوشش کریں کہ اچھے نیک اور با ایمان لوگوں کی اس ایمانی رشتے کے لیےانتخاب رکھیں اور ان سے دوستی رکھیں اور یہ دوستی ،مادی ، جسمانی ، شہوتی خواہشات اور اپنے وقتی مفادات اور وقتی کام نکالنے کے لیے نہ ہو بلکہ حقیقی دوستی ہو۔ جس میں انسان دل و جان سے ایک دوسرے کا خیر خواہ ہو اور اس کے لیے سارے احساسات رکھتا ہو جیسے قربانی اور خیرخواہی، ایثار۔

ہماری روایات میں ان کی کچھ صفات نقل ہوئیں ہیں۔

امیر المومنینؑ فرماتے ہیں۔
آپ جب بھی کسی شخص کا اس ایمانی رشتے کے لیے انتخاب کریں تو پہلے اس کو آزمائیں یعنی احتیاط کریں۔ اگر آپ بغیر آزمائے اس دنیا میں اپنا دوست اور بہن بھائی کے طور پر انتخاب کر لیا تو ہو سکتا ہے کہ بعد میں وہ آپ کو ضرر دے اور آپ پھر مجبور ہو جائیں کہ اس کی ہمراہی کریں۔

پھر فرماتے ہیں:

تمھارے ایمانی بھائی بہن وہ ہے جو تمھاری خطاؤں کو بخش دے اور تمھاری زندگی کے اندر اگر کوئی مسائل ہیں تو انہیں حل کرے اور اگر تمھارے کوئی عیب ہیں تو انہیں لوگوں سے چھپائے اور اگر تمھارا کوئی خوف ہے تو اسے دور کرے اور اگر تمھاری کوئی آرزو یا تمنا ہے تو اسے پورا کرنے میں تمھاری مدد کرے ۔

امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں کہ:
چار قسم کے لوگوں سے دوستی ، برادری اور ہمنشینی نہ کریں۔
۔ اگر آپ لوگوں نے دنیا میں کسی اہل ایمان کا اس رشتہ ایمانی کے لیے انتخاب کیا ہے تو چار قسم کے لوگوں کے ساتھ ہمنشینی نہ کریں۔
۔  احمق
۔ بخیل
۔ بزدل
۔  کذاب

امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ  یہ جو ایمانی اخوت رکھتے ہیں یہاں تین چیزوں کا خیال رکھنا ہے۔
وگرنہ جلد یہ بھائی چارہ دشمنی میں بدل جائے گا۔

یعنی
۔ انصاف کے ساتھ پیش آئے
۔ ایک دوسرے کے حق میں رحم کریں
۔ ایک دوسرے سے بلکل حسد نہ کریں۔

اسی طرح امام صادق ؑ فرماتے ہیں کہ: 
مجھے اہل ایمان میں سب سے زیادہ وہ بھائی پسند ہے جو فقط مجھے میرے عیب بتائے۔ یعنی لوگوں کو نہ بتائے بلکہ فقط مجھے بتائے۔ لیکن جو میرا عیب دیکھ کر سب جگہ پر پھیلا رہا ہے تو پھر وہ میرا دشمن ہے۔

اسی لیے فرماتے ہیں کہ مومن مومن کا بھائی ہے جو اپنی آنکھ سے خیانت نہیں کرتا۔ اور اپنی دلیل سے بھی صحیح راہنمای کرتا ہے۔ اور نہ ہی اس سے ظلم ، دھوکا اور وعدہ خلافی کرتا ہے۔

یہ تمام صفات بھائی چارے اور پائدار دوستی کی صفات ہیں۔

اسی طرح مولا امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ:
اگر تم چاہتے ہو کہ تم کسی اہل ایمان سے دوستی رکھو اور تمھاری دوستی واقعاً خالص ہو۔ تو کبھی بھی اس کے ساتھ مذاق نہ کرو۔ یعنی وہ مذاق جو اسے برا لگے۔

ایک مذاق جو تفریحی ہے وہ ٹھیک ہے لیکن ایسا مذاق جو باعث تکلیف ہو وہ رابطہ توڑ دیتا ہے۔

فرمایا : 
اس کے ساتھ مذاق نہ کرو، فضول بحث یعنی مجادلہ نہ کرو اور اس پر فخر فروشی نہ کرو اسی طرح اپنے اندر اس کے لیے دشمنی پیدا نہ کرو اور اپنے خاص رازوں جو آپ اور اللہ کے درمیان ہیں ان کو اس پر برملا نہ کرو۔
فرماتے ہیں:
یہ دوست کبھی بھی آپ کا دشمن بن سکتا ہے اور اس وقت یہی راز آپ کے خلاف استعمال کریں۔

بطور کلی ان تمام روایات کو سامنے رکھتے ہوئے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اہل ایمان کے اندر دوستی ، ایمانی رشتہ ہونا چاہیے کیونکہ انسان ایک اجتماعی موجود ہے اور وہ تنہا زندگی نہیں گذار سکتا اس کو ایک رفیق ایک دوست چاہیے جو اسے سگے بہن بھائیوں سے زیادہ عزیز رکھتا ہو۔ لیکن اس کے لیے انسان کو چاہیے کہ وہ دقت کرے اور ہر ایک کا انتخاب نہ کرے۔ اور محرم نا محرم کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
سمت مخالف میں یہ شیطانی اور گناہ والا راستہ ہے۔

والسلام

عالمی مرکز مہدویت قم۔

اپنا تبصرہ لکھیں