تازہ ترین پوسٹس

دروس زیارت آل یاسین_ دَاعِیَ ﷲِ کی معرفت واجب ہے

دروس زیارت آل یاسین
دَاعِیَ ﷲِ کی معرفت واجب ہے
درس 5

استاد محترم قبلہ علامہ علی اصغر سیفی صاحب


اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا دَاعِیَ ﷲِ

سلسلہ دروس زیارت آل یاسین یہاں پر پہنچا ہے کہ یہ جو سلام ہے اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا دَاعِیَ ﷲِ تو وہ ہستی جو اللہ کی جانب دعوت دے ۔ وہ قرآن اور احادیث کی رو سے ضروری ہےکہ خدا کی جانب سے اس منصب پر فائز ہو ۔

ہوسکتا ہے کہ آپ کی ذہن میں یہ سوال ہو کہ آخر اس مسئلے میں اتنی حساسیت کیوں ہے؟ یعنی کیوں اللہ ہی اسے اس منصب پر فائز کرے تو تب ہی وہ داعی اللہ بن سکتا ہے؟

اس کی وجہ یہ ہے کہ جو خدا کے دین کی طرف دعوت دیتا ہے ہو سکتا ہے کہ کل جہاد کا مسئلہ پیش آئے یعنی لوگوں کی جان و مال میں تصرف اور انہیں استعمال کرنے کا مسئلہ درپیش آئے۔ تو آیا اس کے پاس کوئی شرعی طور کوئی ضمانت ہے کہ وہ صحیح طور پر لوگوں کے جان و مال کو خرچ کرے۔ یہاں خون بہہ سکتا ہے اور لوگوں نے بے پناہ مال دینا ہے تو پھر وہ ذات حقیقی جو لوگوں کے جسم و جان و مال کا مالک ہے اس کا حکم ہمیں معلوم ہونا چاہیے۔ کہ یہ شخص جو راہ بتا رہا ہے یہ وہی راہ خدا ہے۔ تو اللہ خود معین کرے کہ دین کی تبلیغ میں جب جان اور مال کا مسئلہ پیش آئے تو کس کے کہنے پر یہ چیزیں اللہ کی راہ میں دینی چاہیے۔

امیرالمومینینؑ کی جو وصیت ہے جو مولاؑ نے جناب کمیل ابن زیاد کو کی اور یہ وصیت ہماری ایک حدیث کی کتاب تحف العقول میں موجود ہے۔

فرمایا : اے کمیلؒ مجھے یہ بتا کہ اگر اللہ نے کوئی بھی پیغمبرؑ نہ بھیجا ہو اور زمین پر صرف ایک متقی شخص موجود ہو اور باقی سارے کافر اور گنہگار ہوں اور فسق و فجور کر رہے ہوں اور وہ لوگوں کو اللہ کی راہ کی طرف دعوت دینا شروع کر دے۔تو کیا وہ صحیح کر رہا ہے یا خطا میں پڑ گیا ہے۔

پھر فرمایا:
خدا کی قسم! وہ خطا کر رہا ہے۔ یہ کام اس وقت صحیح ہے جب اللہ اسے اس کام کے لیے منصوب کرے۔ اور اسے یہ کام کی اہلیت بھی دے۔

اب یہاں توجہ فرمائیں۔
مولا علیؑ فرما رہے ہیں کہ یہ شخص اللہ کی جانب سے منصوب ہو اور اہلیت بھی رکھتا ہو۔

کیونکہ! اس طرح ہمیں پتہ چلے گا کہ یہ جو کچھ بھی کہہ رہا ہے ٹھیک کہہ رہا ہے ورنہ کتنے ہی لوگ جو دین کی طرف دعوت دے رہے ہوتے ہیں حالانکہ! وہ سب اپنے اپنے فرقے کی جانب دعوت دے رہے ہوتے ہیں۔ تو پھر سچا دین کہاں ہے؟

سچا دین وہاں ہے جہاں خدا کا بنایا ہوا خود دعوت دے رہا ہے کہ آپ یہ کام کریں۔ اور اللہ یہ کسی کو اجازت نہیں دیتا مگر دو چیزیں خدا کے نزدیک اس میں ثابت ہوں

1۔ اسے سچے دین کا علم ہو۔
2۔ وہ معصومؑ ہو۔ وہ خطا نہیں کرتا ہو اور ہوائے نفس کی پیروی نہیں کرتا۔ وہ لوگوں کو گمراہ نہیں کرتا وہ معصومؑ ہے۔

اسی لیے پوری تاریخ میں یہ صرف مکتب اہلبیتؑ ہے کہ اس کے جتنے بھی فقہا اور علماء ہیں کہ ان کا اتفاق ہے کہ شرعاً وہی شخص رہبر ہے کہ جو امام ہے اور جسے اللہ معین کرے اور وہ حتماً معصوم ہوتا ہے۔ اور اگر اس کے بعد کسی شخص کو دین کی جانب دعوت دینے کا اگر حق ہے تو وہ جامع الشرائط فقیہ ہے۔ چونکہ ان کو آئمہؑ نے ایک حد تک دین کی دعوت کی اجازت دی ہے اور یہ اس حد سے بڑھ کر کام نہیں کر سکتے۔ مثلاً فقہاء کو حق نہیں ہے کہ وہ کوئی جہاد شروع کریں۔ ہاں! ان کو دفاع کا حق ہے۔

تو بس! یہاں واضح ہوا کہ بےشک بڑے بڑے علماء موجود ہیں اور سب اپنے آپ کو سمجھیں کہ ہم دین کی دعوت دینے حق رکھتے ہیں۔ لیکن دین کی دعوت کا حق تو وہی رکھتا ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ اس کام کے لیے منصوب کرے گا۔

کیوں؟َ
کیونکہ اللہ اس ہستی کو یہ حق دیتا ہے کہ جسے دین کا سب سے زیادہ علم ہوتا ہے اور وہ اپنے کام میں کسی قسم کی خطا کا شکار نہیں ۔

اب اس بات کی تائید تو ہمارے اہلسنت کے بعض علماء بھی کرتے ہیں مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے ہی علماء کہتے ہیں کہ مثلاً ایک شخص اگر تلوار کی طاقت سے لوگوں کو دین کی دعوت دےاور اس وقت مسلمانوں میں کوئی ایسا شخص موجود ہو جو سب سے بڑا عالم ہو۔ تو یہ تلوار کی نوک پر دعوت دینے والا گمراہ ہے۔

ابن قدامہ ، احمد بن حنبل سے جو کہ اہلسنت کے ایک مسلک کا امام ہے یہ اس سے نقل کرتے ہیں:
کہ اگر کوئی شخص لوگوں کا امام بن جائے اور اس وقت لوگوں میں اس امام سے بڑھ کر کوئی شخص موجود ہو تو وہ قوم ہمیشہ ذلیل و خوار ہوتی ہے۔

اسی طرح امام مالک ، فرقہ مالکیہ کا امام بھی یہی کہتا ہے۔
وہ کہتا ہے کہ؛ یہ بات شائستہ نہیں ہے کہ ایک شخص اپنے آپ کو کسی چیز کی صلاحیت کا اہل سمجھے لیکن!اگر تلاش کریں تو اس سے بہتر ایک شخص مل جائے تو پھر اس پہلے شخص کو یہ دعویٰ نہیں کرنا چاہیے۔

ہم کہیں گے  کاش! آپ یہ جو کچھ فرما رہے ہیں خود اس پر عمل بھی کرتے۔ آپ کے زمانے میں امام محمد باقرؑ ، امام جعفر صادقؑ ، امام موسیٰ کاظمؑ جیسی عظیم ترین ہستیاں موجود تھیں اور کیسے ان کے ہوتے ہوئے آپ لوگوں نے امامت کے دعوے کئے، فرقے بنائے اور کتنے ہی لوگوں کی گمراہی کا باعث بنے۔

اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا دَاعِیَ ﷲِ
یعنی! خدا کی طرف سے اس وقت اگر کوئی ہستی لوگوں کو دین حق کی دعوت دینے کے لیے منصوب ہوئی ہے۔ وہ امام مہدیؑ عج ہیں۔ اور یہ وہ ہستی ہیں کہ جو اس وقت سب سے بڑھ کر عالم ہیں اور عصمت میں بھی کوئی ان کا مدمقابل نہیں ہے۔ فقط یہ نہیں بلکہ گیارہ آئمہؑ بھی اسی مقام کے حامل تھے اسی لیے ہم زیارت جامعہ کبیرہ میں ہم پڑھتے ہیں۔

اَلسَّلَامُ عَلَی الْاَئِمَّةِ الدُّعاةِ و َالْقادَةِ الْھُداةِ وَ السَّادَةِ الْوُلاةِ وَالذَّادَةِ الْحُماةِ وَأَھْلِ الذِّکْرِ
سلام ہو ان پر جو دعوت دینے والے امام ہیں ہدایت دینے والے راہنما صاحب ولایت سردار حمایت کرنے والے نگہدار ذکر الہی کرنے والے

اور یہ سب کی سب ہستیاں اس پیغمبرؐﷺ عظیم الشان کی جانشین ہیں کہ اصل میں سب سے پہلے انﷺ کا مقام ہے کہ وہ دین کی جانب دعوت دیں۔ اور یہ پیغمبؐرﷺ کی جانشینی میں دین کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ اب انہوں نے دعوت دی لیکن! یہ لوگ ہیں جو اسے قبول کریں یا نہ کریں یہ ان کا مسئلہ ہے۔

سورہ الاحقاف میں پروردگار فرما رہا ہے کہ :
يَا قَوْمَنَـآ اَجِيْبُوْا دَاعِىَ اللّـٰهِ وَاٰمِنُـوْا بِهٖ يَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُـوْبِكُمْ وَيُجِرْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِـيْمٍ (31) 
اے ہماری قوم! اللہ کی طرف بلانے والے کو مان لو اور اس پر ایمان لے آؤ وہ تمہارے لیے تمہارے گناہ بخش دے گا اور تمہیں دردناک عذاب سے بچا لے گا۔

نتیجہ : 
اللہ کے دین کی طرف جو اصلی ہستی جو دعوت دینے والے ہیں وہ ہمارے پیغمبرؐﷺ ہیں اور پھر ہمارے آئمہؑ ہیں۔ اور یہ ہمارا وظیفہ ہے کہ ہم اللہ کی جانب دعوت دینے والی ہستیوں کو پہچانیں۔ اسی لیے تو احادیث میں ہے کہ:

زمانے کے امامؑ کی معرفت واجب ہے۔

اگر ہم امام وقت کو نہ پہچانیں اور کسی اور کو داعی اللہ سمجھ بیٹھیں تو گمراہ ہو جائیں گے اور دین حق سے خارج ہو جائیں گے۔

تو بس یہاں داعی اللہ وہ ہستیاں ہیں کہ جنہیں پیغمبرؐﷺ نے اپنے بعد اس مقام پر منصوب فرمایا۔

بس نتیجہ نکلا کہ داعی الی اللہ جو ہے یہ ایک رسمی اور حقیقی منصب ہے اور یہ پیغمبرؐﷺ اور اس کے بعد اس کے وصیؑ کو شامل ہے اور اس کے بعد کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں یعنی! جس طرح کسی کو حق حاصل نہیں کہ وہ نبوت کا دعویٰ کرے اسی طرح کسی کو حق حاصل نہیں کہ وہ امامت یا نائب امام ہونے کا بھی دعویٰ کرے۔ مگر! یہ کہ اللہ اسے مقام امامت پر منصوب کرے اور وہ امامؑ بعد میں کسی فقیہ کو بعنوان امام منصوب کرتا ہے تو یہ سلسلہ یہ داعی الی اللہ والا سلسلہ ہے۔

اور اس سلسلے کے مدمقابل تین اور سلسلے ہیں جو کہ سارے باطل ہیں۔

1۔ جہنم کی جانب دعوت دینے والے (گناہوں اور شیاطین والے کاموں کی جانب دعوت دینے والے)

2۔  غیر خدا (شرک و کفر) کی جانب دعوت دینے والے

3۔  وہ لوگ جو اللہ کے اذن کے بغیر لوگوں کو دین کی جانب دعوت دیں یعنی! ان کو یہ مقام رسمی طور پر حاصل نہیں اور وہ اپنی جانب سے جو کچھ سمجھتے ہیں کہ یہ دین ہے اور لوگوں کو اس جانب دعوت دینی شروع کردیتے ہیں۔ اور وہ خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور لوگوں کو بھی گمراہ کر دیتے ہیں۔ (جیسا کہ مختلف فرقے بنے ہوئے ہیں)

یہ سارے سلسلے باطل ہیں ۔ فقط ایک ہی سلسلہ حق ہے کہ جو خدا کی جانب سے اس کام کے لیے منصوب ہوئے ہیں۔ اور اس وقت کائنات میں اسی سلسلہ حق کے جو فرد ہیں وہ امام مہدیؑ صلواٰۃ اللہ علیہا ہیں۔ 

پروردگار عالم ہم سب کو امام زمانؑ عج کی معرفت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
والسلام

عالمی مرکز مہدویت قم

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *