درس مہدویت بروز جمعہ
تہذیب نفس کرو خود ملنے آؤں گا۔ امام مہدیؑ عج
زمانہ غیبت کے ناصرین ابدال کون ہیں؟
استاد محترم علامہ آقا علی اصغر سیفی صاحب
قال اللہ تعالیٰ فی کتاب المجید والفرقان الحمید
سورہ الاعراف 96
﷽
وَلَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰٓى اٰمَنُـوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْـهِـمْ بَـرَكَاتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَالْاَرْضِ وَلٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنَاهُـمْ بِمَا كَانُـوْا يَكْسِبُوْنَ (96)
اور اگر بستیوں والے ایمان لے آتے اور ڈرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے نعمتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے جھٹلایا پھر ہم نے ان کے اعمال کے سبب سے گرفت کی۔
پروردگار نے سورہ الاعراف کی آیت نمبر 96 میں سنت الہیٰ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آسمان اور زمین کی ساری برکات آپ کے حق میں ہوں تو اس کی ایک ہی راہ ہے کہ اہل قرآن کہ جو خدا کی ان سعادتوں کا انتظار کر رہے ہیں وہ حقیقتاً ایمان لائیں اور عمل صالح انجام دیں۔ پروردگار نے جب بھی لطف فرمایا تو وہ لوگوں کے عمل صالح اور ایمان کی وجہ سے اور اصل میں یہ ہمارا ایمان اور عمل صالح ہے جو ان عظیم سعادتوں کی وجہ بنتے ہیں جو طول تاریخ میں دنیائے بشر کو حاصل ہوئیں۔
ابھی بھی ہمارے ہاں بعض ایسے لوگ ہیں کہ جو اس قسم کا عقیدہ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مولاؑ عج اس وقت آئیں گے کہ جب زمین ظلم سے بھرے گی۔
کچھ لوگوں نے یہ نظریہ بھی اپنا لیا کہ گناہ کرو اور زمین کو ظلم سے بھرو۔ اور یہ وہی چیز ہے کہ جو قرآن و احادیث کے خلاف ہے۔ احادیث یہی کہہ رہی ہیں کہ امام تب ظہور فرمائیں گے جب ناصرین تیاری کریں گے۔ اور قرآن کہتا ہے کہ پروردگار اس وقت لطف فرماتا ہے کہ جب لوگ ایمان اور عمل صالح کی سعادت حاصل کریں گے۔
لوگ اکثر سوال کرتے ہیں کہ امام کیوں نہیں ظہور فرما رہے تو ہوسکتا ہے کہ یہی سوال امام وقتؑ عج کا ہم سے ہو کہ آپ سب کیوں تیاری نہیں کر رہے۔
اور ہماری احادیث یہ بتاتی ہیں کہ مولاؑ عج کو تین سو تیرہ ناصر اور جوانوں میں سے دس یا بارہ ہزار چاہیے۔ یعنی یہی پہلے مرحلے کے ناصر امامؑ عج کو ظہور کے لیے چاہیے اور عجیب بات نہیں کہ اس وقت کڑوڑوں شیعہ ہیں اور ہم اپنے زمانے کے امام عج کی یہ امید اور توقع کہ جو ان کے ظہور کا باعث ہے اسے پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ جیسا کہ لوگ بھی کہتے ہیں کہ حوزات اور دینی مدارس میں سینکڑوں کی تعداد میں طلاب ہیں لیکن! ان میں سے ابھی تک تین سو تیرہ ناصر تیار نہیں ہوئے۔ اور واقعاً ہمارے لیے بھی باعث شرم ہے یہ بات کہ ابھی تک ہم میں سے بھی نہیں ہوسکے۔
چینل تشرف یافتگان
ایک ویب سائٹ ہے چینل تشرف یافتگان یعنی وہ لوگ کہ جن کو مولاؑ عج کے حضور پہنچنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ انہوں نے ان لوگوں کے واقعات کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا ہے ۔ جیسے آیت اللہ مراعشی نجفیؒ کا تشرف اور دیدار ،اسی طرح اور بھی بڑی ہستیاں ہیں حتی بہت بڑے مرجع جہان تشیع آیت اللہ سیستانی حفظ اللہ کے والد کہ جو خود بہت بڑے مرجع تھے ان کا دیدارِ مشہد اور تقریباً اس طرح کے واقعات اس ویب سائٹ میں جمع ہیں۔
آیت اللہ العظمیٰ بہجت رضوان اللہ:
ایک واقعہ آیت اللہ العظمیٰ بہجتؒ سے نقل فرماتے ہیں اور شائد ان کے کسی شاگرد سے نقل ہوا کہ جب آیت اللہ بہجتؒ سے پوچھا گیا کہ امام زمانہؑ عج کا سب سے بڑا رنج کیا ہے۔
امام کے لیے سب سے بڑا رنج یہ بیرونی حوادث نہیں ہیں یا باہر کا دشمن نہیں ہے اور ان میں سے کوئی بھی قابلیت نہیں رکھتا کہ حجت خدا کے سامنے ٹھر سکے کیونکہ امامؑ عج ظہور کے بعد آٹھ مہینے میں زمین کو فتح کر لیں گے اور پوری زمین کو ایک سلطنت میں بدل دیں گے۔ چاہے کتنی ہی بڑی سپر پاؤرز ہوں کیونکہ امام زماںؑ عج فرزند حیدر کرار ہیں کہ جن کے سامنے خیبر کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ کہ اُس زمانے کے یہودیوں نے طاقت کا ایک بہت بڑا قلعہ بنایا ہوا کہ بعض روایات کے مطابق جس کے در کہ جس کو 300 لوگ یا 100 لوگ حرکت دیتے تھے۔ جب مولا علیؑ سے پوچھا گیا کہ آپ نے قلعہ خیبر کا وہ دروازہ کیسے اکھاڑا تو واضح فرمایا:
” یہ میری کوئ جسمی قوت نہیں تھی بلکہ یہ قوت پروردگار ہے”۔
یعنی خدا اپنی حجت کو قوت رحمانیہ عطا فرماتا ہے اور جب امام مہدیؑ عج تشریف لائیں گےتو خدا کی بے پناہ قوتوں کے ساتھ آئیں گے۔ انشاءاللہ!
لیکن! ہمیشہ ایک غم جو پوری تاریخ میں ان الہیٰ ہستیوں یعنی انبیاءؑ اور ہمارے آئمہؑ کا ہے وہ یہ ہے کہ یاران اور ناصرین کی کمی ہے۔ جو اسی دنیا میں رہتے ہیں۔ بالآخر دنیا دارالامتحان ہے۔ سارے کام اللہ نے نہیں کرنے کیونکہ ہم تو بس اسی انتظار میں بیٹھے ہیں کہ سارے کام اللہ نے کرنے ہیں بلکہ ہم نے کچھ نہیں کرنا ہے۔
امام صادقؑ علیہ السلام:
سوال:
کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام صادقؑ سے پوچھا گیا کہ یہ بات ہمارے ذہنوں میں بھی ہے۔ پوچھا گیا کہ جب قائمؑ عج آئیں گے تو اللہ ایک ہی رات میں سب کام کردے گا؟
جواب:
آج ہمارا بھی یہی تصور ہے کہ سارے کام تو اللہ نے کرنے ہیں۔ تو چھٹے مولاؑ نے فرمایا کہ:
خدا کی قسم ہرگز نہیں!
اگر خدا نے سارے کام کرنے ہوتے تو پھر کیوں ہمارے پیغمبرؐﷺ کے دانت غزوہ احد میں شہید ہوئے اور کیوں انہوں نے اپنے یاران اور انصاروں کی شہادتوں کے صدمے دیکھے۔
ہرگز ایسا نہیں ہوگا بلکہ ! یہ ناصرین مہدیؑ عج ہیں کہ جنہیں میں دیکھ رہا ہوں۔
میں دیکھ رہا ہوں کہ وہ ناصرین سواریوں پہ ہیں اور وہ جنگ کر رہے ہیں۔ مشرق سے مغرب تک سلطنت مہدیؑ عج قائم کرنے کے لیے یہ سواریوں پر تسبیح کر رہے اور انکے جسموں سے پسینے کی طرح خون بہہ رہا ۔ یعنی نصرت امامؑ عج شہادتوں اور قربانیوں کا سفر ہے۔ یہ ایسے لشکر اور ایسے خالصین کا گروہ کا لشکر ہے۔
تو وہی واقعہ کی طرف آتے ہیں:
آیت اللہ بہجت فرماتے ہیں کہ :
تہران میں ایک عالم دین تھے جو بہترین استاد تھے تو ایک مرتبہ ان کا ایک قلم یا کوئی چیز گم ہوگئی جو ان کے لیے بہت اہم تھی۔ تو ان کو اپنے شاگردوں پر شک پڑ گیا۔ اور وہ تھوڑا سا ناراض ہوگئے۔
ایک دن درس پڑھانے آئے تو تو ایک شاگرد نے کہا کہ قبلہ ہم پر ناراض ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم نے آپ کی وہ چیز نہیں اٹھائی بلکہ وہ چیز آپ کی پرانی عبا یا قبا کی فلاں جیب میں موجود ہے ۔ وہ واپس گئے اور اس چیز کو وہیں اسی مقام پر پایا کہ جو شاگرد نے بتائی تھی۔
وہ بہت حیران ہوئے اور پھر انہوں نے محسوس کیا کہ یہ جو میرا شاگرد ہے یہ کسی مقام پر پہنچا ہوا ہے وگرنہ علم غیب کی خبر کیسے دے سکتا ہے؟
انہوں نے پوچھا کہ بالآخر آپ تشرف یافتہ ہیں تو شاگرد نے انکار نہیں کیا اور استاد اس سے ہمیشہ کہتے تھے کہ اگر ممکن ہو تو مولاؑ عج سے میری بھی ملاقات یا زیارت کروا دیں۔ جب بہت زیادہ اصرار کیا تو اس شاگرد نے کہا کہ میں نے مولاؑ عج کی بارگاہ میں عرض کیا کہ آپ مولاؑ عج سے ملنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ اپنے اندر تہذیب نفس پیدا کرو میں خود تمھیں ملنے کی لیے آؤں گا۔
سبحان اللہ!
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَاٰلِ مُحَمَّدٍ
اس طرح کے واقعات ہیں کہ بہت سے لوگ یہ چاہتے تھے کہ تشرف یافتگان میں شمار ہوں ۔ قم میں بہت سے واقعات تھے جیسے ایک بوڑھا دوکاندار تھا کہ جس سے ملنے کے لیے مولا ؑ عج خود تشریف لاتے تھے۔ اسی طرح اور بھی بہت سے ملاقات کے واقعات ہیں کہ جن میں فرمایا کہ میرے لیے چلہ اور وظیفے نہ کاٹو بلکہ اپنا عمل اس (دکاندار) کی طرح کر لو۔ اگرچہ وہ شخص تجارت میں بے پناہ پرافٹ لے سکتا تھا لیکن! اس نے خود کو شرعی پرافٹ تک محدود کیا اور مولاؑ نے فرمایا کہ اس طرح کا عمل دکھاؤ میں خود تمھاری ملاقات کے لیے آؤں گا۔
ہم نے کچھ عرصہ قبل ایک گفتگو شروع کی تھی “غیبت کے ناصرین”
درست ہے کہ ابھی ظہور نہیں ہوا اور پروردگار ہمیں ان لوگوں میں سے قرار دے کہ جو باعث ظہور بنیں۔ الہیٰ آمین!
لیکن!
نصرت فقط ظہور پر منحصر نہیں بلکہ ! غیبت کے زمانے میں ہم زمانہ غیبت کے ناصرین بھی بن سکتے ہیں اور زمانہ غیبت کے ناصرین کا مقام زمانہ ظہور کے ناصرین سے کم نہیں ہے بلکہ زیادہ ہے۔
اگر ہم تمام تر مہدوی روایات کو اکھٹا کریں تو ہماری آئمہؑ کی سب سے زیادہ روایات غیبت اور غیبت میں آنے والے واقعات ، پریشانیاں اور اس میں وہ لوگ جو یہ سب زحمتیں اٹھانے کے باوجود اپنے ایمان پر قائم رہیں گے اور اپنے امام وقت عج سے متمسک رہیں گے ان کی فضیلت اور عظمت پر ہے۔
مثلاً وہ علماء کہ جنہوں نے زمانہؑ غیبت میں لوگوں کے امور کی اصلاح اور لوگوں کے دین کی حفاظت کرنی ہے کہ امام ھادی علیه السلام ان لوگوں کا کس طرح ذکر فرماتے ہیں کہ
فرمایا:
اُولٰٓىٕكَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ
وہی تمام مخلوق میں سب سے بہتر ہیں۔
اور فرماتے ہیں کہ یہ وہ ہوں گے کہ جو امت کی کشتی کے ناخدا ہونگے۔ پھر فرماتے ہیں کہ کہ یہ وہ ہونگے کہ فقط یہ ہم سے راضی نہیں بلکہ ہم بھی ان سے راضی ہونگے اور روز قیامت جس جگہ پر ہم ہونگے یہ لوگ وہیں ہونگے۔
حالانکہ! زمانہ غیبت کے عام مومنین جو ان حالات کا مقابلہ کرتے ہیں اور اپنی تہذیب نفس پر توجہ رکھتے ہیں۔
نبیؐ کریم ﷺ نے اس زمانے میں فرمایا:
یہ ان لوگوں (اصحاب رسولﷺ) کی مانند ہیں کہ جو نہ صرف میرے اصحاب کی مانند ہیں بلکہ ان کو یہ مقام اللہ کی جانب سے حاصل ہے کہ وہ میں محمدؐﷺ کے بھائی ہیں۔ کیونکہ انہیں نے سفید کاغذ پر سیاہ تحریریں پڑھ کر مجھ پر ایمان لایا ہوگا۔ ”
یعنی اے اصحاب! تم تو مجھے دیکھتے ہو اور میرے معجزات دیکھتے ہو۔ لیکن! وہ مجھ پر بغیر دیکھے ایمان لائیں گے۔
سبحان اللہ!
رجال الغیب کی گفتگو:
ضمنً رجال الغیب کو ابدال بھی کہا جاتا ہے۔ اور ماہ رجب میں ایک دعا ہے دعائے ام داؤد کہ جس کے اندر امام صادقؑ کا یہ فرمان ہے کہ :
اللهُمَّ صَلِّ عَلى الأبدالِ وَالأوتادِ وَالسُّياحِ وَالعُبّادِ وَالمُخلِصينَ وَالزُّهّادِ وَأهلِ الجِدِّ وَالاجتِهادِ،
اس دعا سے ایک گروہ سامنے آرہا ہے کہ جس پر امام صادقؑ درود بھیج رہے ہیں اور یہ گروہ کون ہے یہ ابدال، اوتاد، سُیاح ، عُباد ، مخلصین، زُھاد اہل جد والاجتھاد ہیں۔
ابدال :
ابدال کے بارے میں ایک مشہور روایت بحار الانوار میں موجود ہے اور ہمارے پانچویں مولاؑ امام محمد باقرؑ کی ایک روایت ہے اور یہ روایت بحارالا نوار، کافی اور علامہ طوسیؒ کی کتاب الغیبہ میں ہے۔
امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں کہ:
امام قائمؑ عج کے لیے حتماً غیبت ہوگی۔ اور اس غیبت میں حتماً وہ تنہا رہ جائیں گے۔ اسوقت بہترین جگہ جہاں مولاؑ سکونت اختیار کریں گے وہ مقام طیبہ ہے۔
جیسا کہ ہم دعائے ندبہ میں ایک جملہ پڑھتے ہیں۔ کہ:
لَیْتَ شِعْرِی أَیْنَ اسْتَقَرَّتْ بِکَ النَّویٰ بَلْ أَیُّ أَرْضٍ تُقِلُّکَ أَوْ ثَریٰ أَبِرَضْویٰ أَوْ غَیْرِھَا أَمْ ذِی طُویٰ
اے کاش میں جانتا کہ اس دوری نے آپ کو کہاں جا ٹھہرایااور کس زمین میں اور کس خاک نے آپکو اٹھا رکھا ہے آپ مقام رضویٰ میں ہیں یا کسی اور پہاڑ پر ہیں یا وادی طویٰ میں
یہاں دو مقامات کا ذکر ہوا
1۔ وادی رضویٰ
2۔ وادی ذی طویٰ
یہ دونوں مقامات مدینہ کے اطراف میں موجود ہیں اور بار بار روایات میں ذکر ہوا ہے کہ زمانہ غیبت میں حجت خدا کی جائے سکونت مدینہ منورہ ہے۔
جزیرہ خضرا اور برمودہ ٹرائینگل افسانے ہیں اور ان کی کوئی حقیقت نہیں۔ علامہ مجلسیؒ نے ایک شخص کا سفر نامہ لکھا ہے اور اس کی کوئی سند یا روایت نہیں ہے۔ اور لکھنے والا ایک مجہول الحال شخص ہے علی بن فاضل مازندرانی ۔ اور اس نے جو کچھ لکھا وہ خلاف تشیع اور خلاف حقیقت ہے، اور خلاف اسلام ہے۔ یہ لوگ تحریف قرآن کے قائل ہیں اس سفرنامے میں نیابت خاصہ بتائی جارہی ہے کہ جو کہ عقیدہ تشیع کے مطابق ختم ہو چکی ہے اور ہم غیبت کبرٰی میں ہیں۔ وہ قصہ جزیرہ خضرا جو لوگوں میں بڑا مشہور ہے اس کو ابھی بھی چھاپا جارہا ہے۔
انگلستان کے تحت ایک جزیرا ہے جس میں باقاعدہ لوگ رہ رہے ہیں اور ایسے کئی افسانے بنے ہوئے ۔ لیکن! آج کے زمانے میں تحقیق کرنا کوئی مشکل نہیں ہم آسانی سے برمودا ٹرائینگل کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب ہمارے پاس انٹرنیٹ اور سرچ آپشن نہیں تھے۔
احادیث کہتی ہیں کہ امام زماںؑ عج اگرچہ پوری دنیا میں نقل و حرکت فرماتے ہیں لیکن! جس جگہ کو آپ نے اپنی سکونت کے لیے اختیار کیا ہوا ہے وہ مدینہ منورہ ہے۔
اسی لیے ہم ظہور کی روایات میں دیکھتے ہیں کہ جب سفیانی لشکر بھیجے گا کہ امام ظہورسے پہلے اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ سے نکل کر مکہ پہنچیں گے اور ظہور کا اعلان کریں گے۔ تو راستے میں سفیانی لشکر آپ کو گھیر کر شہید کرے۔ لہذا یہ لشکر امام کے پیچھے پیچھے چلے گا لیکن حکم الہیٰ سے وادی بیدا میں (وادی جن) میں دھنس جائے گا۔ (خسف بیدا)۔
(یعنی امام مہدیؑ عج اپنے یاران کے ساتھ مدینہ سے نکلیں گے۔ )
امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں کہ اس عالم تنہائی میں یعنی غیبت کبریٰ میں امام زمانہؑ عج کے ساتھ 30 ایسے اصحاب ہیں کہ جو مولاؑ عج کی اس وحشت اور تنہائی کو دور کرتے ہیں۔
ابدال کے بارے میں بہت سی روایات ہیں کہ یہ لوگ پوری دنیا میں امام کے امور کو انجام دیتے ہیں۔ بعض روایات میں ابدال کی تعداد 40 تک بتائی گئی ہے اور اہلسنت میں ان کی تعداد بہت زیادہ ہے یعنی وہ ابدال کو 80 تک بھی بتاتے ہیں۔
احمد بن حنبل سے روایت ہے اور جناب عبادہ بن صامت پیغمبرؐﷺ سے نقل کرتے ہیں:
روایت:
نبیؐ اکرمﷺ فرماتے ہیں کہ :
اس امت میں ابدال تیس ہیں اور ان کی مثال حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ کی مانند ہے۔
اس کے بعد فرماتے ہیں:
جب ان میں سے ایک شخص جاتا ہے تو خدا دوسرے کو اس کی جگہ پہ بدل دیتا ہے۔
اسی طرح طبرانی نے معجم کبیر میں جناب ابن مسعود کی روایت ہے جو پیغمبرؐ ﷺ سے نقل ہوئی فرماتے ہیں کہ :
“ابدال چالیس ہیں اور ابراہیمؑ کی مانند ہیں”
اسی طرح اہلسنت میں 60 اور 80 کی تعداد بتائی گئی ہے۔ لیکن! ہماری روایات میں 30 کی تعداد بتائی گئی ہے۔ لہذا اب تیس ہو یا چالیس ہوں یہ وہ صالح لوگ ہیں کہ جو مولا کی تنہائیوں میں ان کے مددگار اور ناصر ہیں اور یہ وہ لوگ ہیں کہ جو پوری زمین سے ہیں اور امام زمانہؑ عج انہیں اپنی خدمت کے لیے انتخاب کرتے ہیں۔
سبحان اللہ!
اسی طرح کا ایک واقعہ آیت اللہ وحید خراسانی حفظہ اللہ نے بھی نقل کیا ہے۔ اپنے درس میں کسی اپنے عزیز دوست سے نقل کر رہے تھے کہ انہوں نے تہران میں ایک مدرسہ کے خادم کے حالات کو دیکھا کہ کس طرح امام اپنے خدمت گذاروں کا انتخاب کرتے ہیں۔
ابدال کی خصوصیات:
یہ لوگ جو امامؑ عج کی نصرت کے لیے انتخاب ہوتے ہیں۔ ان کی تعداد مہم نہیں بلکہ مہم یہ ہے کہ کن خصوصیات کو اختیار کریں کہ جن کی وجہ سے امامؑ عج ہمیں اپنی خدمت کے لیے انتخاب کریں۔
یعنی روایات میں اشارہ ہوا ہے کہ وہ ایسے لوگ ہیں کہ جن کا دل حضرت ابراہیمؑ کی مانند ہے۔ اگر مثلاً علما میں سے بھی انتخاب ہوا ہے تو وہ کون سے لوگ ہیں یعنی توحید اور معرفت الہیٰ میں مانند حضرت ابراہیمؑ ہیں۔
سبحان اللہ!
حضرت ابراہیمؑ کے بہت بڑے چیلنج شرک و الحاد، سورج پرستی، چاند پرستی، انسانوں کو خدا بنایا ہوا تھا۔ تو حضرت ابراہیمؑ نے شرک کے تمام مظاہر کے ساتھ جنگ کی حتی اپنے عبودیت کو جذبے کو بارگاہ خداوندی میں آخری حد تک آزمایا اور وہ اس آزمائش میں پورے اترے۔ کہ اپنے لخط جگر اسمائیل کو اللہ کے ایک اشارے پر بارگاہ خدا میں قربان کرنے لگے تھے۔ اور یہ ہے توحید۔
ابدال میں پہلی صفت یہ ہے کہ یہ توحید اور معرفت الہیٰ میں اس مقام تک پہنچے ہوئے ہیں کہ جس کے بارے میں
امیرالمومنینؑ سے پوچھا گیا کہ مہدیؑ عج کے ناصران کیسے ہونگے۔
فرمایا :
اس طرح توحید پروردگار رکھتے ہوں گے کہ جس طرح رکھنے کا حق ہے۔ اور یہ حق تو امامؑ کو ہی پتہ ہے۔ اور فرمایا کہ:
ان کے دل فولاد کے ٹکڑوں کی مانند ہیں اور اب کوئی بھی شیطانی وسوسہ ان میں سوراخ نہیں کر سکتا۔
والسلام
عالمی مرکز مہدویت قم ایران۔