کتاب لقاء اللہ (سیر و سلوک)
(آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی رح)
درس 25:
شیطان کا انسان کو توبہ سے روکنا، ایک مجتہد کا واقعہ:
استاد محترم قبلہ علامہ علی اصغر سیفی صاحب
﷽
موضوع سخن کتاب شریف لقاء اللہ ہے اور ہم سلسلہِ بحث میں یہاں تک پہنچے تھے کہ انسان کی جو توبہ ہے اس کا معیار کیا ہے؟ یعنی توبہ کس انداز سے ہونی چاہیے۔
محض استغفار کہنے سے توبہ قبول نہیں ہوتی۔ ہوسکتا ہے کہ انسان استغفار کرے تو استعغفار میں بالآخر اللہ سے مغفرت طلب ہو رہی ہے لیکن! یہ توبہ نہیں ہے۔ توبہ کے لیے انسان پر واقعاً وہ کیفیت طاری ہوکہ وہ دل و جان سے اللہ سے توبہ چاہ رہا ہو۔
بالآخر اس توبہ کے اندر پشیمانی اور گریہ ہے۔ اللہ کو اس کے اسمائے اعظم اور صفات عظیم سے پکارنا ہے۔
شیطان کا انسان کو توبہ سے روکنا۔
ایک اور چیز جو آپ کی خدمت میں بیان کرنا چاہتے ہیں اور صاحب کتاب نے بھی بیان کی کہ جو آدمی بھی واقعاً توبہ کرنے کا ارادہ کرے۔ شیطان اسے تنگ کرتا ہے ، اسے وسوسہ دیتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ انسان کو توبہ سے مایوس کرے۔ اب یہاں انسان توجہ رکھے۔ ۔۔
دنیائے خیال:
ہماری بیشتر زندگی دنیائے حقیقت کے ساتھ ساتھ دنیائے خیال میں گذرتی ہے۔ ہماری زندگی میں خیالوں کی بھرمار ہوتی ہے۔ بلکہ ہمارے بہت سارے اعمال کے پیچھے خیالات کی جنگ ہوتی ہے اور اس جنگ میں جس طرح کا نتیجہ نکلے گا وہی نتیجہ ہمارا عملی زندگی میں بھی نکلتا ہے۔
اگر دنیائے خیال میں شیطان جیت جائے۔ تو یہ بندہ شیطانی کام کرتا نظر آئے گا۔ لیکن ! اگر دنیائے خیال میں رحمٰن جیت جائے تو یہ بندہ آپ کو نیک کام کرتا نظر آئے گا۔
خیال تو بہت ہیں ۔
شیطان کے جتنے وسوسے ہیں وہ دنیائے خیال میں ہیں۔ مثلاً جناب مصنف آیت اللہ جواد ملکی تبریزیؒ فرماتے ہیں کہ: جب کوئی شخص توبہ کرنا چاہے تو شیطان بھرپور کوشش کرتا ہے کہ اسے منع کرے۔
شیطان توبہ سے کیسے منع کرتا ہے:
مثلاً اسے کہے گا کہ اب وقت گذر چکا ہے اور تو نے جو کام کئے ہیں تو اب حقیقتاً توبہ نہیں کر سکتا۔ تو اپنے اعمال تو دیکھ آیا تیرے اندر توبہ کی شرائط ہیں کہ توبہ حقیقی کیا ہوتی ہے۔ تو تو جھوٹی توبہ کرے گا اور پھر دوبارہ سے وہی کام شروع کر دے گا۔
شیطان ہمارے خیالوں میں وسوسے پیدا کرتا ہے۔ وہ عملاً ہمیں روک نہیں سکتا۔ وہ ہمارے خیال میں گفتگو کرتا ہے۔
اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ جب روز محشر لوگ اپنے برے اعمال کو شیطان کی جانب منسوب کریں گے تو وہ کہے گا کہ میں نےتو ان سے کوئی برا عمل نہیں کروایا۔ یعنی میں نے ان کو مجبور نہیں کیا اور فقط اس کو وسوسہ کیا ہے۔ یہ خود اس برے عمل کی طرف گیا ہے۔
یعنی! شیطان انسان کے خیال میں ، وسوسے میں اس سے مخاطب ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ کیا فائدہ جھوٹی توبہ کا۔ بہتر ہے کہ تو توبہ نہ کر۔
شیطان احتمال نجات سے کس طرح مایوس کرتا ہے:
یہاں انسان کو کہے گا کہ اے انسان تو نے اتنے گناہ کیے ، کہ اب تو یہ اہلیت ہی نہیں رکھتا کہ توبہ کرے لہذا بہت ہے کہ اب جو چار دن زندگی کے ہیں وہ مزے سے گذارو۔ یعنی بلخصوص وہ آدمی جو کثرت سے گناہ کرتے ہیں شیطان کوشش کرتا ہے کہ یہ توبہ کی جانب نہ جائے۔ کیونکہ شیطان اس بات کو جانتا ہے کہ یہ آدمی اگرچہ بہت گناہگار ہے لیکن! اگر توبہ کرے تو یہ احتمال نجات رکھتا ہے۔ اور اسی لیے شیطان یہ چاہتا ہے کہ اسے احتمال نجات سے مایوس کرے۔
اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری احادیث میں احتمال نجات کتنی اہم ہے۔ یعنی اگر کسی آدمی ستر نبیؑ بھی قتل کئے ہوں اور اگر توبہ کرنا چاہے تو اللہ اس کی توبہ کو قبول کرے گا۔ اب اس سے بڑھ کر اور کیا ہے۔
یعنی! یہاں اشارہ ہورہا ہے کہ خدا کی رحمت کتنی وسیع ہے کہ اگر کوئی ستر انبیاء کا بھی قاتل ہے اور اگر صدق دل سے توبہ کرے تو خدا اس کی توبہ قبول کرے گا۔ تو بس اس سے پتہ چلتا ہے کہ احتمال نجات ہے لیکن! شیطان اس احتمال نجات کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ یعنی وہ کہے گا کہ اے انسان تو نے جو گناہ انجام دیے ہیں ان میں اب توبہ کی گنجائش نہیں اور اب کبھی بھی پروردگار کی رحمت تیرے شامل حال نہیں ہوسکتی۔ تو بہتر ہے کہ تو چھوڑ دے۔ تو اس وادی کا شخص ہی نہیں ہے۔ یہ حقائق ہیں کہ شیطان انسان کے خیال میں یہ باتیں کرتا ہے۔
شیطان کے وسوسوں کے مدمقابل انسان کا فرض کیا ہے
جیسا کہ پہلے آپ کی خدمت میں عرض کیا ہے کہ ہماری عملی زندگی سے بھی پہلے عالم خیال میں ایک جنگ ہے۔ یا جسے کہتے ہیں کہ نفس کی جنگ ۔
اب اس نفس امارہ سے جنگ کس میدان میں ہے؟
ہم نفس سے جنگ خیال کے میدان میں کرتے ہیں اور شیطان سے بھی خیال کے میدان میں جنگ ہے۔ دنیائے خیال بڑی اہم ہے اور اصل دنیائے خیال پر ہماری عملی زندگی قائم ہے۔ خیالوں کی دنیا میں ہم جو کچھ سوچتے ہیں اسے عملی زندگی میں کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم نے اگر کوئی نیک کام کرنا ہے تو پہلے خیالوں میں ہم اس کا نقشہ بناتے ہیں۔ کہ کیسے کرنا ہے،
کہاں سے شروع کرنا ہے کس کے ساتھ نیکی کرنی ہے اور پھر عملی طور پر وہی کوشش کرتے ہیں۔ اور اگر ہم کچھ برا کرنا چاہیں تو پہلے خیال میں اس کا نقشہ بناتے ہیں اور اس حقیقی دنیا میں اس نقشہ کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
جہاں شیطانی قوتیں بھی وہیں ہیں اور وہاں رحمانی قوتیں بھی ہیں۔ یعنی! جب انسان برا خیال کرتا ہے تو رحمانی قوتیں بھی آتی ہیں جیسے ضمیر آتا ہے، فطرت، ملائکہ بالآخر ندائے پروردگار بھی آتی ہے اے میرے بندے تو کیا کر رہا ہے میں نے تیرے لیے جنت آمادہ کی ہوئی ہے اور تو اسے چھوڑنا چاہتا ہے۔ ۔۔ تو جہنم میں جانا کیوں چاہتا ہے۔ چھوڑ دے یہ کام نہ کر۔
وہاں یہ ساری صدائیں آتی ہیں اور شیطان بھی وسوسہ کر رہا ہوتا ہے۔ اور کہتے ہیں کہ جب شیطان وسوسہ کرے تو اس کا خیال میں جواب دینا چاہیے اور اسے کہنا چاہیے کہ میرا رب بہت بڑا مہربان ہے اور اس کی رحمت میرے گناہوں سے بھی زیادہ وسیع ہے اوراگر میں کوشش کروں تو کیوں نہیں میں توفیق نجات پا سکتا ہوں۔
اب شیطان کہے گا: کہاں کی توفیق نجات تو نے تو بارگاہ خدا میں ایسے ایسے گناہ پیش کئے ہیں۔ تو تو پروردگار کی رحمت سے مایوس ہے۔ تجھے تو توفیق توبہ نہیں ہونی اور اگر تو توبہ کرے گا بھی تو وہ قبول نہیں ہونی۔ لیکن! اس وقت انسان کہے کہ درست ہے کہ میرے اندر توبہ کی تمام شرائط نہیں ہیں۔ درست ہے کہ میرے اندر توبہ کی اہلیت اور شائستگی نہیں ہے لیکن! جتنی ہے میں اتنی کروں گا۔۔
حقیقت بھی یہی ہے! انسان کتنا بھی ناقص کیوں نہ ہو۔ اگر توبہ کرے تو اس سے بڑی شائستگی کی اہلیت پیدا کرتا ہے اس سے بڑی توبہ کی۔ چھوٹی توبہ بڑی توبہ کا باعث بنتی ہے۔ پہلے انسان توبہ کی وادی میں اپنا قدم تو رکھے پھر دوسرا اور تیسرا قدم بھی ہوگا اور انسان بڑھتا جائے گا۔
لیکن! شیطان ہمیں پہلے قدم پر روکتا ہے اور پوری کوشش کرتا ہے کہ انسان کو مایوس کرے۔
شیطان کہتا ہے:
تجھے کیسے پتہ ہے کہ جب تو نے توبہ کر لی تو پروردگار کی تجھ پر عنایت ہوگی اور خدا تیری بات سنے گا۔
روایت :
کسی شخص کو شیطان نے کہا کہ تو جو اتنا ذکر خدا کرتا ہے تو کیا کبھی اللہ نے بھی تجھے یاد کیا اور تجھ سےکوئی بات کی ہے؟ تو تو بس ایک طرفہ محبت اور ذکر کرتا ہے۔ اب یہ پریشان تو ہوا کہ ہے تو حقیقت یہ تو فقط میں ہی اللہ کا ذکر کرتا ہوں اور اس نے تو کبھی مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔
اب اس زمانے میں ظاہر ہے کہ کوئی ولی خدا یا پیغمبرؑ تھے کہ جن کے پاس یہ شخص گیا اور اپنا سوال پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ اللہ فرما رہا ہے کہ یہ میرا ذکر جو تیری زبان پر جاری ہے اور تو مجھے یاد کرتا ہے تو یہ میں ہی تو ہوں جو تجھے یاد کرتا ہوں۔ ورنہ بہت سارے لوگ ہیں کہ جنہیں میں اجازت نہیں دیتا کہ میرا ذکر کریں۔ یہ جو تیری زبان پہ میرا ذکر جاری ہے درحقیقت یہ میں تجھ سے کلام کرتا ہوں۔ اور حقیقت بھی ایسی ہے۔
سبحان اللہ!
توفیق توبہ:
جب اللہ چاہتا ہے کہ یہ میرا بندہ توبہ کرے۔ یعنی! اگرکسی کے دل میں توبہ کا خیال آجائے تو پروردگار چاہ رہا ہوتا ہے کہ یہ میرا بندہ توبہ کرے۔ بعض لوگ جرائم پر جرائم کرتے چلے آتے ہیں اور ان کے ذہنوں میں کبھی خیال تک نہیں آتا کہ ہم توبہ کریں۔ اور ان کےقلوب جرائم کی وجہ سے سیاہ ہو جاتے ہیں۔ لیکن! ان جرائم پیشہ افراد میں سے اگر کسی ایک آدمی کے دل میں آجائے کہ بہت جرائم کر لیے زندگی ختم ہونے والی ہے اگر میں توبہ کر لوں تو یہ خیال اس کے دل میں اللہ کی طرف سے آیا ہے۔
شیطان اب کہے گا:
تجھے کیسے پتہ کہ اللہ کی عنایت تیرے شامل حال ہوگی۔ اور عنایت کے لیے تو اہلیت چاہیے ہے۔ اور اہلیت اولیاء اللہ، بزرگوں اور منتخب لوگوں کو ملتی ہے۔ اے شخص تو کہاں اور وہ کہاں؟ آخر تیرے پاس ایسا کون سا عمل ہے کہ جس کی وجہ سے تو احتمال نجات رکھتا ہے اور تو یہ سمجھتا ہے کہ خدا تیری توبہ کو قبول کرے گا۔
یعنی ! شیطان مسلسل اسکے ذہن میں بولتا ہے۔
ہم شیطان کو کہیں گے:
میں مانتا ہوں کہ میں فقیر ہوں ایک گدا ہوں۔ اور فقیروں کے پاس کچھ نہیں ہوتا لیکن! اس کے پاس مانگنے والی زبان تو ہوتی ہے۔ اس لیے میں خدا کی بارگاہ میں مثل فقیر پکارتا ہوں۔ شائد وہ مجھے کچھ دے دے۔
خدایا میں کچھ بھی نہیں میں تو محض فقیر ہوں۔ میرے دامن میں کوئی ایسا عمل نہیں کہ جس کی وجہ سے میں اہلیت پیدا کروں تیری عنایت اور رحمت کی اور میں تیری بارگاہ میں مایوس ہو کر آیا ہوں۔
یعنی!
شیطان سے بحث کرو تاکہ وہ تم پر غلبہ نہ پا سکے۔
اب شیطان کہتا ہے:
فقیروں کو کہاں ملتا ہے؟ تجھے کیا پتہ کہ تو فقیر بن کے جائے گا اور پروردگار تجھے دے گا۔
اب ہم شیطان کو جواب دیں گے:
فقیر کے اندر بھی ہمت ہونی چاہیے۔ اور میں بارگاہ پروردگار میں وہ فقیر بنوں گا جو اتنا مانگے گا کہ جب تک نہیں ملے گا میں دروازہ رحمت کو نہیں چھوڑوں گا۔ اور درخواست کرتا رہوں گا۔
اور ہم دیکھتے ہیں کہ بعض فقیر اتنا پکارتے ہیں اور دروازہ تب تک نہیں چھوڑتے جب تک انہیں عنایت نہ ہوجائے۔ اور جو شخص کسی کو بھی کچھ نہیں دیتا لیکن! ایسے فقیر کو بالآخر دیتا ہے۔
یعنی! اپنے خیال میں شیطان سے مایوس نہ ہوں ۔
اب شیطان کہے گا:
اے شخص تو نے تو نافرمانیاں کی ہیں جن کے نتیجے میں تیرا یہ پکارنا رد ہو جائے گا اور اللہ نے تجھے کچھ نہیں دینا۔
اب انسان کہے گا۔
درس ہے پروردگار عظیم ہے۔ وہ ہر ایک کو رد نہیں کرتا تو میں بھی اسی امید بخشش کی وجہ سے آیا ہوں اور میں نے تاریخ میں پڑھا ہے اللہ نے بڑے بڑے نافرمانوں کو بخش دیا۔
اب شیطان کہے گا:
مگر! جیسی نافرمانیاں تو نے کئیں ہیں تجھے کیا معلوم اللہ تجھے مایوس نہ کرے ہوسکتا ہے کہ اللہ تجھے مایوس کر دے۔
اس کے بعد ہم اپنے ذہن میں شیطان سے جنگ کرتے ہوئے کہیں گے:
درست ہے پروردگار نے گنہگاروں کو عذاب دینا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن! خدا نے خود قرآن میں کہا ہے کہ میری رحمت سے مایوس نہیں ہونا۔ میں اس امید پہ اسے پکاروں گا کہ شائد وہ مجھے بخش دے۔ میں امیدواروں کی طرح اس کی بارگاہ سے کچھ لینا چاہتا ہوں۔
دعائے کمیل:
وَھُوَ یَضِجُّ إلَیْکَ ضَجِیجَ مُؤَمِّلٍ لِرَحْمَتِکَ وَ یُنادِیکَ بِلِسانِ أَھْلِ تَوْحِیدِکَ، وَیَتَوَسَّلُ إلَیْکَ بِرُبُوبِیَّتِکَ
وہ تیرے سامنے گریہ کر رہا ہے تیری رحمت کے امیدوار کی طرح اور اہل توحید کی زبان میں تجھے پکار رہا ہے اور تیرے حضور تیری ربوبیت کو وسیلہ بنا رہا ہے
اب ہوسکتا ہے کہ شیطان کہے:
تیری حالت تو ایسی نہیں کہ تو بخشا جائے تو ایسے ہی ٹکریں مار رہا ہے اور خود کو گرایا ہوا ہے۔ تو خوامخواہ اپنا وقت ضائع کر رہا ہے۔
انسان جواب دے کہ:
اے شیطان یاد کر کہ تو نے بہت بڑا گناہ کیا تھا اور اللہ نے تجھے اپنی بارگاہ سے نکال دیا تھا۔ لیکن! تو نے اس کے باوجود اللہ سے ایک چیز مانگی تھی اور اللہ نے تجھے وہ چیز دی تھی۔ تو جب تجھ جیسے کی کہ جس نے قسم کھائی ہے کہ اللہ کے بندوں کو گمراہ کر رہا ہے۔ جب اللہ تجھ جیسے کی سن سکتا ہے تو میں تجھ سے تو برا نہیں ہوں۔ تو خدا میری کیوں نہیں سن سکتا۔
یعنی! یہ خیال میں اور ذہن میں شیطان کے ساتھ لڑائی چل رہی ہے۔
جناب مصنف فرماتے ہیں۔
الحذر ! الحذر!
خبردار ! خبردار!
کبھی بھی شیطان کے چکر میں نہیں آنا۔ کیونکہ جب اسے یہ پتہ چلے گا کہ آپ ارادہ توبہ کر رہے ہیں تو وہ آپ کو آپ کے گناہ دکھائے گا اور انہیں آپ کے ذہن میں مجسم کرے گا۔ اور وہ تمام گذشتہ اعمال دکھائے گا۔
لیکن! اسوقت ضروری ہے کہ شیطان کو اس کا آئینہ دیکھائیں۔
کہتے ہیں کہ ابلیس نے کسی بنی اسرائیل کے پیغمبرؑ کے زمانے میں توبہ کا ارادہ کیا۔ اور اس نے کہا کہ اللہ کی مخلوق کو تو میں نے بہت گمراہ کیا ہے لیکن! اگر میں چاہوں تو کیا میری بھی توبہ ہو سکتی ہے؟؟
پروردگار کی وحی آئی: کہ اگر یہ توبہ حقیقی کرے تو میں اس کی توبہ بھی قبول کر لوں گا۔
ابلیس نے کہا کہ میں پھر کیا کروں
خدا نے کہا کہ جاؤ اور قبر آدمؑ کو سجدہ کرو
کیونکہ شیطان کا سارا مسئلہ تکبر تھا۔ اب یہاں ایک نکتہ سمجھنے والا ہے:
کہ جو ہمارے اندر برائی ہے جب تک کہ وہ تبدیل نہیں ہوتی اس وقت تک توبہ کا در نہیں کھلتا۔
اب یہاں شیطان نے تکبر کیا اور کہا کہ جب آدمؑ زندہ تھے تو تب میں نے ان کو سجدہ نہیں کیا اور اب میں ان کی قبر کو سجدہ کروں یہ کام نہیں ہوسکتا۔ یعنی! اس کا حقیقی توبہ کا ارادہ ہی نہی رکھتا ورنہ اگر یہ ملعون حقیقی توبہ کا ارادہ رکھے تو خدا اسے بھی بخشنے کے لیے تیار ہے۔
یعنی!
جب تک انسان کی سانسیں جاری و ساری ہیں تا از لحظہ موت ، توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور اللہ بخشنے کے لیے آمادہ ہے۔
سورہ یونس 90
وَجَاوَزْنَا بِبَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ الْبَحْرَ فَاَتْبَعَهُـمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُـوْدُهٝ بَغْيًا وَّعَدْوًا ۖ حَتّــٰٓى اِذَآ اَدْرَكَهُ الْغَرَقُ قَالَ اٰمَنْتُ اَنَّهٝ لَآ اِلٰـهَ اِلَّا الَّـذِىٓ اٰمَنَتْ بِهٖ بَنُـوٓا اِسْرَآئِيْلَ وَاَنَا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ (90)
اور ہم نے بنی اسرائیل کو دریا سے پار کر دیا پھر فرعون اور اس کے لشکر نے ظلم اور زیادتی سے ان کا پیچھا کیا، یہاں تک کہ جب ڈوبنے لگا تو کہا میں ایمان لایا کہ کوئی معبود نہیں مگر جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔
حتی فرعون ! کہ جس نے اللہ کے مدمقابل خدائی کا دعویٰ کیا تھا اس نے آخری لحظے میں خدا سے درخواست کی اور کہتے ہیں کہ حتی یہ جو فرعون کی میت بچ گئی یہ اسی پکار کا جواب تھی۔ کیونکہ اس وقت اس پر موت طاری ہو چکی تھی۔ اور جب موت طاری ہوجائے پھر توبہ نہیں ہوتی۔ اس نے اس وقت کہا کہ میں توبہ کرتا ہوں اور رب موسیٰ پر ایمان لاتا ہوں تو اللہ نے اسے ایک اجر دیا۔ اور اسے غرق نہیں ہونے دیا۔
لیکن!
اس سے پہلے کہتے ہیں کہ جب فرعون کی حضرت موسیٰؑ سے لڑائی چل رہی تھی تو ایک رات فرعون نے اللہ سے گفتگو کی اور ایک درخواست کی اور خدا نے اس کی درخواست کو قبول کیا۔
اس طرح کی باتیں بتاتی ہیں کہ درست ہے انسان نے بہت گناہ کیے ہیں لیکن اس کی گناہوں کی تو حد ہوسکتی ہے لیکن! جس کی بارگاہ میں کھڑا ہے اس کی رحمتوں کی کوئی حد نہیں ہے۔
جناب مصنف کہتے ہیں کہ
ابوسفیان کے جس حبشی غلام نے جناب حمزہؑ سید الشہدا کو شہید کیا تھا ۔ جب پیغمبرؐ اسلامﷺ نے مکہ فتح کیا تو اس نے بارگاہ رسالت میں آکر توبہ کی اور اسلام قبول کیا۔ یعنی ! حضرت حمزہؑ کے قاتل کی بھی توبہ قبول ہو گئی۔
اس سے ہمیں درس ملتا ہے کہ پروردگار کے در رحمت کھلے ہیں اور انسان کو مایوس نہیں ہونا چاہیے اور ذرہ خیر بھی باقی ہے تو اسے امید رکھنی چاہیے۔
شیطان نے قسم کھائی ہوئی ہے اور وہ انسان کو اس چھوٹی سی خیر سے بھی مایوس کرے گا لہذا اس کے وسوسوں میں نہیں آنا چاہیے اور یہی جو توبہ کا خیال ہے یہ اسی ظلمات کے اندر ایک نور اٹھا ہے تو اب ضروری ہے کہ اس نور کو بڑھائیں۔
عرض خدمت ہے کہ: درست ہے کہ استغفار توبہ نہیں لیکن! استغفار جو زبان سے جاری ہوتی ہے وہ توبہ کا آغاز ہے۔ لہذا پہلے انسان زبان سے توبہ کرے اور پھر اس کو بڑھائے اور بالآخر کوشش کرے کہ نماز توبہ قائم کرے۔
نماز توبہ:
سید ابن طاوؤس نے یہ عمل اپنی کتاب اقبال میں لکھا ہے اور یہ نماز پیغمبرؐ اسلامﷺ سے منقول ہے۔
اللھمہ صلی علی محمدؐﷺ و آل محمدؑ ﷺ
کہتے ہیں ماہ ذیقعد کی دو تاریخ تھی اتوار کا دن تھا کہ پیغمبرؐ اسلام ﷺ گھر سے باہر تشریف لائے اور فرمایا:
اے لوگوں ! تم میں سے کون ارادہ رکھت ہے کہ بارگاہ خدا میں توبہ کرے۔
لوگوں نے کہا: یا رسولؐ اللہ ہم ارادہ رکھتے ہیں۔ کہ بارگارہ خدا میں توبہ کریں۔ تو پیغمبرؐ اسلام نے توبہ کرنے کا طریقہ بیان کیا کہ جو ہماری کتابوں میں ہیں۔
نماز توبہ کا طریقہ:
اتوار کے دن غسل اور وضو کرکے چار رکعت نماز پڑھے جس کی ہر رکعت میں سورہ الحمد کے بعد تین مرتبہ سورہ توحید اور ایک ایک مرتبہ سورہ فلق و سورہ الناس کی قرائت کرے، ستر مرتبہ استغفار کرے
استغفر اللہ ربی واتوب الیہ
آخر میں یہ دعا پڑھے:
لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِ الْعَظِیْمِ
نہیں ہے کوئی طاقت و قوت مگر وہی جو بلند و برتر خدا سے ملتی ہے۔
کہے اور پھر یہ دعا پڑھے :
یَا عَزِیْزُ یَا غَفَّارُ اِغْفِرْلِیْ ذُنُوبِیْ وَذُنُوِبَ جَمِیعِ اِلمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤمِنَاتِ فَاِنَّہ لَا یَغْفِرُ الذُنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ
اے غالب اے بہت بخشنے والے بخش دے میرے گناہ اور بخش دے تمام مومن مردوں اور مومنہ عورتوں کے گناہ کیونکہ تیرے سواکوئی گناہوں کا بخشنے والا نہیں ہے۔
مؤلف کہتے ہیں کہ ظاہراً یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ استغفار اور دعا نماز کے بعد ہے۔ لہذا ان کو نماز کی قرائت میں نہ پڑھے:
فرماتے ہیں کہ:
میری امت میں سے جو بھی یہ عمل انجام دے گا اس وقت آسمان سے ایک منادی صدا دے گا کہ اے بندہ خدا تیری توبہ اللہ کی بارگاہ میں قبول ہو چکی ہے اب تو نئے سرے سے اپنے اعمال انجام دے تیرے سارے پچھلے گناہ اللہ نے معاف کر دیے ہیں۔
اللہ اکبر!
کہتے ہیں کہ پھر عرش کے نیچے ایک اور فرشتہ ندا دے گا اے عبد خدا تجھے مبارک ہو۔ تیرے گھر والوں کو مبارک ہو تیری آنے والی اولاد کو مبارک ہو۔ اور اس کے بعد ایک اور فرشتہ ندا دے گا کہ تجھے سے سارے راضی ہیں حتی روز محشر۔ اسی طرح ایک اور ندا آئے گی کہ اے بندا خدا تو اب دنیا سے ایمان کی حالت میں جائے گا۔ اور تجھ سے کبھی بھی دین خارج نہیں ہوگا اور تیری قبر وسیع ہوگی اور منور ہوگی۔
اور اس کے بعد ایک آواز آئے گی کہ اے بندہ خدا اگرچہ تیرے ماں باپ تجھ سے جاتے ہوئے ناراض تھے، غضب ناک تھے لیکن! اب وہ تجھ سے راضی ہیں۔ اللہ نے تیری اس توبہ کے ذریعے ان کو بھی بخش دیا ہے اور تیری آنے والی ذریت کو بھی بخش دیا ہے اور تو دنیا و آخرت میں وسیع رزق پائے گا۔
اور اس کے بعد کہتے ہیں کہ حضرت جبرائیلؑ کی آواز آئے گی کہ اے عبد خدا جب تیرا وقت موت آئے گا تو ملک الموت کے ساتھ میں جبرائیلؑ بھی آؤں گا اور تجھ پر ملک الموت مہربان ہونگے اور تجھے کبھی بھی صدمہ نہیں پہنچے گا اور تیری روح آسانی سے خارج ہوگی۔
اب اصحاب نے کہا کہ یا رسولؐ اللہ ﷺ !
یہ تو پھر دیقعد کے اعمال میں سے ہے۔ اور اگر ہم ماہ ذیقعدہ سے ہٹ کر کسی اور ماہ میں یہ عمل کریں تو پھر کیا حکم ہے؟؟
فرمایا: وہی حکم ہے جو میں نے ابھی بیان کیا۔ ہم کسی بھی مہینے میں اس دعا کو یہ پڑھ سکتے ہیں۔
استاد محترم فرماتے ہیں کہ انہوں نے زمانہ طلب علمی میں ایک درس اخلاق میں اس نماز کے بارے میں سنا اور اسی وقت اس نماز کو انجام دیا۔
یعنی! انسان کوشش کرے کہ جتنا جلدی ہو سکے اس نماز کو پڑھیں اور وہ محسوس کرے گا کہ اس کے بعد زندگی نورانی ہوگئی ہے اور کوشش کرے کہ پھر پاکیزگی پر قائم و دائم رہے۔
جناب مصنف کہتے ہیں کہ:
اگر آپ کے پاس وہ ذرہ خیر بھی ہے تو کوشش کریں کہ اس ذرہ خیر کو حاصل کریں۔
نکتہ :
مثلاً اگر انسان کوئی عمل خیر نہیں کر سکتا لیکن! ارادہ کر سکتتا ہے۔ نیت کر سکتا ہے۔ نیت کرنے کا بھی خود اپنا ثواب ہے تو کم از کم اس کو تو حاصل کرے یعنی اس کو ہاتھ سے جانے نہ دے۔
دعائے مکارم اخلاق:
سید سجاد اس دعا میں فرماتے ہیں کہ:
اَللّٰھُمَّ وَفِّرْ بِلُطْفِکَ نِیَّتِی وَصَحِّحْ بِمَا عِنْدَکَ یَقِینِی وَاسْتَصْلِحْ بِقُدْرَتِکَ مَا فَسَدَ مِنِّی۔
اے معبود اپنی مہربانی سے میری نیت کو بڑھا دے میرے یقین کو اپنے ہاں درست قرار دے اور جو کچھ میں نے بگاڑ دیا اسے اپنی قدرت سے بہتر بنا دے
یعنی !
معصومؑ اشارہ کر رہے ہیں کہ انسان کو کثرت سے نیت خیر کرنی چاہیے۔ ایک حدیث رسولؐ خدا ﷺ ہے کہ جناب ابوذرؒ سے فرمایا کہ :
اے ابوذر! ہر عملِ خیر کی نیت کر۔ ہر عمل کی نیت کر حتی وہ عمل کھانا اور سونا ہی کیوں نہ ہو۔ اس کی بھی نیت کر۔
مثلاً سوتے ہوئے انسان کہے پروردگارا چونکہ تو نے مجھے استراحت کا حکم دیا ہے اور اس سونے سے میرے بدن کو طاقت مہیا ہوگی تاکہ میں تیری عبادت کر سکوں۔ اگر یہ نیت کر کے سوئے تو یہ سونا عبادت ہے۔
اور اسی طرح کھانا کھاتے ہوئے یہ نیت کرے پروردگارا! میں یہ اس لیے کھا رہا ہوں تاکہ قوت عبادت پیدا کروں تاکہ رزق الہیٰ کو تلاش کروں، یا میں علوم محمدؐ و آل محمدؑ کو تلاش کرنے کی قوت پیدا کروں۔
زندگی نامہ رجب علی خیاط سے اقتباس:
رجب علی خیاط درزی تھے ۔ وہ اپنے شاگردوں کو اکثر نصحیت کرتے تھے کہ یہ جو آپ لوگ سوئی میں دھاگہ ڈال رہے ہیں یہ آپ نے ہر صورت میں ڈالنا ہی ہے لیکن! اگر اس نیت سے سوئی میں دھاگا ڈالو گے کہ پروردگار میں اس سے مومنین کے لباس سیوں گا اور وہ تیری اس لباس میں عبادت کریں گے تو یہ دھاگا ڈالنا ہی عبادت ہے۔
یعنی ! مقصد یہ ہے کہ فقط غریزہ کے لیے کام نہ کرو۔ کیونکہ انسان اور حیوان میں یہی فرق ہے۔ حیوان بھی کھاتا ہے لیکن! وہ نیت نہیں کر سکتا۔ جبکہ! ہم ہر عمل کی نیت کر سکتے ہیں اور نیت خیر کر سکتے ہیں اور اس لحاظ سے انسان درجہ پاتا ہے ،تکامل پاتا ہے اور اس کا مقام بڑھتا جاتا ہے۔
نیت کے حوالے سے ایک واقعہ :
صاحب کفایہ محرحوم آخوند خراسانیؒ ، نجف کے ایک بہت بڑے بزرگ عالم تھے اور کہتے ہیں کہ ان کے درس میں چار سو مجتہدین شرکت کیا کرتے تھے۔ یہ بہت عظیم شخصیت تھے ۔ اور آیت اللہ بروجردیؒ جن کی قبر حرم معصومؑ قم میں ہے یہ ان صاحب کفایہ کے شاگرد تھے۔ آیت اللہ نائینیؒ ان کے شاگرد ، اور امام خمینیؒ کے اساتید ان کے شاگرد تھے۔
ان کے درس میں ایک بہت ہی فاضل فقیہ جو طالب علم بھی تھے اور بہت بڑے مجتہد تھے شرکت کیا کرتے تھے۔ تاریخ میں ان کا نام میرزا عبداللہ گلپایگانی بیان ہوا ہے جو پینتالیس برس کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ یہ بہت فاضل تھے بہت بڑے محقق تھے بہت بڑے استاد تھے اور صاحب تصانیف تھے۔ یہ اپنے استاد کے درس میں جب شرکت کرتے تھے۔ اور جب یہ کوئی اعتراض کرتے تھے تو استاد اپنے باقی شاگردوں کو کہتے تھے خاموش ہو جاؤ ایک بہت بڑے محقق فاضل کوئی بات کہنا چاہتے ہیں۔ یعنی استاد بھی ان کا احترام کرتے تھے۔
جب یہ پینتالیس برس کی عمر میں انتقال کر گئے تو اس زمانے میں جو نجف میں صاحب معرفت اولیاء نے ان کو خواب میں دیکھا اور پوچھا کہ میرزا عبداللہ تمھارے ساتھ قبر میں کیا واقعات ہوئے۔
قبر کی زندگی کے حوالے سے تو سب کو تجسس ہوتا ہے۔
اب انہوں نے کہا کہ:
جب مجھے دفن کر کے گئے تو منکر نکیر آ گئے۔
اس حوالے سے مولا علیؑ کا ایک فرمان ہے کہ:
فرماتے ہیں کہ ابھی انسان دفن ہوتا ہی ہے اور اس کے لواحقین قبر کے قریب ابھی کھڑے ہی ہوتے ہیں کہ منکر نکیر آجاتے ہیں۔
منکر نکیر آگئے اور کہا:
میرزا عبداللہ کیا لے کر آئے ہو
کہا: میں نے اتنی کتابیں لکھیں اتنے شاگرد پڑھائے
منکر نکیر :
کتابوں پر تو تمھارا نام لکھا ہوا تھا ۔ تم نے شہرت کے لیے لکھیں۔ اور تمھاری شہرت بھی ہوئی اللہ نے تمھارا ہدف پورا کیا۔
بتاؤ یہاں کیا لے کر آئے ہو۔
کہا : میں نے علم حاصل کیا عبادتیں کیں۔
منکر و نکیر : میرزا یہ تو باقی بھی کر رہے ہیں۔ لیکن! تم تو حوزہ کے بہت بڑے استاد ہو۔ تم تو عالم دین تھے یہ سب تو عام لوگ بھی کر رہے ہیں۔ لہذا تم سے توقع زیادہ ہے
اس نے کہا : میں نے زیارت اور عزاداری کی میں نے مناجات کئیں۔
منکر و نکیر : ہنس پڑے کہنے لگے یہ کام تو عام لوگ آپ علماء سے زیادہ بہتر کرتے ہیں۔
تو تم کیا لے کر آئے ہو۔
میرزا عبداللہ کہتے ہیں کہ میں مایوس ہوگیا
پھر منکر نکیر نے کہا : ہاں! آپ کے پاس ایک ایسا گوہر ہے کہ جو آپ بتا نہیں سکے لیکن! ہمارے پاس لکھا ہے کہ جس کی وجہ سے آپ کی پوری برزخ روشن ہے اور تا روز قیامت آپ کی برزخ روشن ہے۔
اللہ اکبر!
ایک گوہر!
میرزا عبداللہ کہتے ہیں کہ مجھے تو کوئی گوہر نظر نہیں آرہا۔
(چونکہ انسان کو جو چیزیں قیمتی لگ رہی ہوتی ہیں ہوسکتا ہے کہ اللہ کی نگاہ میں ان کی کوئی قیمت نہ ہو لیکن ! جو اس کو نظر نہیں آرہی ہوتی ہو سکتا ہے وہ اللہ کے حضور میں قیمتی ہوں۔
کہا کونسا گوہر؟؟
کہا: میرزا ایک مرتبہ جب آپ زندہ تھے اور نجف میں تھے تو آپ کے گھر مہمان آئے جو زائر تھے۔ اس وقت آپ کے گھر میں کچھ بھی نہیں تھا تو آپ اپنے گھر سے نکلے کہ کچھ چیز لاؤں اور گلی میں تاریکی تھی تو آپ کو ٹھوکر لگی اور آپ گر گئے تو آپ نے کہا کہ دیکھو میں عظیم مرجع اخوند خراسانی کا شاگرد ہوں میرزا عبداللہ کہ جس کا اتنا احترام ہے اور میری یہ حالت ہے کہ میرے گھر میں چند مہمان آگئے ہیں اور میں ان کی پذیرائی کے لیے مشکلات کا شکار ہو اے میرے اللہ میری یہ حالت ہونی چاہیے۔ تو نے ایک شکوہ اللہ سے کیا اور پھر فوراً خود ہی سرزنش کی کہ نہیں یہ مہمان تو مولا علیؑ کے زوار ہیں اور مجھے ان کی خدمت کرنی چاہیے اور پروردگار مجھے تو تیرا شکر کرنا چاہیے کہ تو نے مجھے زائرین کی خدمت کا موقع دیا۔
اے میرزا عبداللہ ! تو نے جو یہ شکر ادا کیا اور نیت کی کہ میں ان زائرین کی خدمت کروں گا پروردگار کو تیرا یہ انداز اتنا پسند آیا کہ ہی کافی ہے تیری پوری برزخ کا خرچ اٹھانے کے لیے۔
اللہ اکبر!
اگر ہم اپنے خیال میں ارادہ خیر کریں تو خیالات معیار ہیں ہماری عملی زندگی کا۔
یہی نیت اور ارادہ پروردگار کی بارگاہ میں گوہر کی شکل میں پہنچتا ہے۔
ہماری نیت عمل کی شکل میں پہنچتی ہے اور جتنی بلند نیت ہوتی ہے اتنی ہی نور کی شکل اختیار کرتی ہے اور اللہ اس کے مطابق اجر دیتا ہے۔
اللہ نے امت رسولؐ اللہﷺ پر یہ بہت بڑا لطف کیا ہے کہ اللہ نے ہماری نیتوں اور ارادوں کا بھی اجر دیا ہے۔ اس لیے ہمیں ہمیشہ توبہ کی نیت اور ارادہ رکھنا چاہیے اور اس ارادے پر عمل کرنا چاہیے۔
پروردگار ہمیں توفیق دے کہ اس کتاب شریف کے دروس پر عمل پیرا ہو سکیں۔ پروردگار ہمارے گناہ معاف فرمائے اور ہمیں عالم باعمل بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
پروردگارا ہمیں ارادہ خیر، نیت خیر اور عمل خیر انجام دینے کی طاقت اور توفیق عطا فرمائے۔ اور ہمیں امام زمانؑ عج کے خادمین اور ناصرین میں سے قرار دے۔ اور ان ہستیوں میں سے قرار دے کہ جن کی زندگیاں اور موت باخیر ہو۔ اور عاقبت باخیر ہو انشاءاللہ اور محمدؐﷺ و آل محمدؑﷺ کے ساتھ محشور ہوں۔ اور بارگاہ امام زمانؑ عج سے مستفید ہونے والوں میں سے ہوں۔ پروردگار ہمارے مرحومین کے درجات بلند فرما۔
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ وَتُبْ عَلَيْنَآ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيم
الہیٰ آمین!
والسلام
عالمی مرکز مہدویت قم ایران۔