تازہ ترین پوسٹس

درس لقاء اللہ:24_ موضوع: توبہ کی کیفیت، حضرت داؤدؑ کا قابل غور واقعہ

کتاب لقاء اللہ (سیر و سلوک)
(آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی رح)
درس 24:
توبہ کی کیفیت،
حضرت داؤدؑ کا قابل غور واقعہ

استاد محترم قبلہ علامہ علی اصغر سیفی صاحب

 


توبہ کی کیفیت: 

موضوع سخن کتاب شریف لقاءاللہ ہے۔ اور ہم نے پچھلے درس میں حقیقی توبہ کو پڑھا ہم نے گذشتہ درس میں پڑھا تھا کہ ایک شخص نے بہت ہی بدترین قسم کا گناہ کیا ہوا تھا اور شروع میں پیغمبرؐ اسلام ﷺ نے اسےنکال دیا۔ بعد میں جب اس نے حقیقی معنوں میں توبہ کی تو پھر قرآن مجید کی آیات نازل ہوئی اور اس کی توبہ قبول ہوئی۔

اب یہاں کچھ لوگ سوال رکھتے ہیں کہ نبیؐﷺ تو رحمت العالمین تھے پھر انہوں نے اسے کیوں نکالا۔ وہ تو پیغمبرؐﷺ کی خدمت میں گیا تھا۔ آخر ایک آدمی کہاں جائے؟ پروردگار کی توبہ قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی بخشش کی راہ ابھی باقی تھی اس بات کو تو نبیؐﷺ بھی سمجھتے تھے لیکن! نکالا کیوں۔ ؟

اب اس واقعہ کو سامنے رکھتے ہوئے، یہاں ہمارے بزرگان نے کچھ نکات بیان کئے ہیں۔ اور ہمارے علمائے کرام اور بزرگان جو لوگوں کی دینی تربیت کے حوالے سے کام کر رہے ہیں ان کے لیے یہ نکات بہت مفید ہیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ شروع میں تو پیغمبرؐ نے اسے بہت تسلی دی کہ خدا آپ کا گناہ بخش دے گا لیکن! جب اس کا گناہ سنا تو اس کے بعد نکال دیا۔

اب یہاں وجہ کیا ہے؟؟ 

یقیناً یہ ایک بہت بڑا گناہ تھا اور پیغمبرؐﷺ چاہتے تھے کہ اس گناہ کی سیاہی صرف ایک استغفار سے دور نہیں ہونے والی تھی یہ جائے اور اس سیاہی کو دھوئے۔ یعنی پیغمبرؐﷺ نے جان بوجھ کر اسے اپنی بارگاہ سے نکالا۔

جیسے ہمارے بہت سارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم گناہ کریں گے اور ایک استغفار پڑھ لیں گے تو مسئلہ حل ہے اور خدا ہماری توبہ کو قبول کر لے گا۔ ایسی بات نہیں ہے۔

ہمارے بعض بزرگان کہتے ہیں کہ جس طرح آپ نے گناہوں کی لذتیں لیں ہیں۔ اسی طرح رنج لیں۔ پھر آہستہ آہستہ مٹ جائیں گی۔ یعنی اسی طرح رنج لیں۔ تاکہ وہ گناہ کی لذتیں جو ہمارے روح ، خیالوں اور احساسات اور وہ غلط چیزیں جن کو ہم دلنشین سمجھ رہے تھے جو ہم میں شامل ہو چکی چکی ہیں ان کو اسی طرح مٹنے میں بھی وقت لگے گا۔ یعنی! ان کو اسی طرح ختم کریں۔ اسی لیے کہتے ہیں ہو سکتا ہے کہ اس سے کہیں زیادہ ہمیں زحمت کرنی پڑے جس طرح انسان گناہ سے لذت لینے میں وقت دیتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بعض مرتبہ اسے گناہ کے لیے دوستیاں اور رشتہ داریاں قربان کرنی پڑتی ہیں۔ اور انسان اتنی آسانی سے قلب کی سیاہی کو دور نہیں کر سکتا۔ قلب کی سیاہی ایک امر مہم ہے اور اس کے لیے کام کرنا پڑتا ہے۔

پس یہاں ہم ایک نتیجہ لیں گے کہ درست ہے کہ خدا کی رحمت کا ایک اپنا طریقہ کار ہے۔ گناہوں کی لذتیں جو دلوں کو سیاہ کر بیٹھی ہیں اس کے لیے استغفار کافی نہیں بلکہ اس کے لیے زحمتیں اٹھانی پڑتی ہیں۔ شائد! اس سے بھی کہیں زیادہ زحمت ہو۔

اسی لیے پیغمبرؐﷺ نے اسے اپنی بارگاہ سے نکالا تاکہ وہ اپنے قلب کی سیاہی کو دھونے کا راستہ تلاش کرے ۔ البتہ! جو راستہ اس نے ڈھونڈا اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی توفیق اس کے شامل حال تھی۔

چونکہ! پیغمبرؐﷺ نے یہ دیکھا کہ اس کی اندرونی حالت بہت خراب ہے۔ جیسے ہم دیکھتے ہیں جب مریض ایک ڈاکٹر کے پاس آتا ہے تو اس کے مرض کا مرحلہ کتنا ہے اور اگر وہ گولی یا کیپسول سے ٹھیک ہوسکتی ہے تو وہ اسے دوائی دیتا ہے۔ لیکن! جب دیکھتا ہے کہ مرض سے چھٹکارا آپریشن کرنے سے ٹھیک ہوگا تو پھر وہ آپریشن کہتا ہے اور پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ یہ کہتا ہے کہ آپریشن کرنے کے بعد بھی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ اور ایک ایسا مرحلہ آتا ہے کہ ڈاکٹر کہتا ہے کہ اس مریض کو گھر لے جاؤ اب یہ ہماری طاقت سے باہر ہے اور اسے اب اللہ ہی ٹھیک کر سکتا ہے۔

اب جب یہ جوان بارگاہ رسولؐ ﷺ میں تو آیا تھا۔ تو اب پیغمبرؐﷺ کا کوئی فرمان یا ان کا کوئی دستور عمل ، کوئی نتیجہ اس کے لیے اب سود بخش نہیں تھا کیونکہ یہ جوان بہت آگے بڑھ چکا تھا اور اب اس کو خدا ہی براہ راست ٹھیک کر سکتا تھا۔ اس لیے پیغمبرؐﷺ نے اسے اپنی درگاہ سے مایوس کر دیا۔ لیکن! اللہ کی درگاہ سے مایوس نہیں کیا۔ تاکہ وہ خلق خدا سے بلکل منقطع ہو جائے حتی ! پیغمبرؐﷺ سے بھی منقطع ہو جائے اور اب جائے اور اپنے خالق کی بارگاہ میں استغفار کرے۔

بالآخر! اللہ نے اسے توفیق دی کہ وہ استغفار کرے۔ اور جو اس نے اپنے ہاتھوں اور گلے میں رسی باندھی اور بیابانوں میں نکل گیا۔ یہ توفیق الہی تھی ایسا نہیں کہ یہ عمل اس نے خود اختیار کیا۔ یہ اللہ کی راہنمائی سے ہوا ۔

شیطان اور ایک شخص کا واقعہ:

مثال کے طور پر ایک شخص جو بہت زیادہ ذکر خدا کیا کرتا تھا تو اس کو شیطان نے کہا کہ تو جو اتنا ذکر کرتا ہے اللہ کا اور ہر بات میں اللہ کو یاد کرتا ہے تو کیا کبھی اللہ نے بھی تجھے یاد کیا اور تجھ سےکوئی بات کی ہے تو تو بس ایک طرفہ محبت اور ذکر کرتا ہے۔ اب یہ پریشان تو ہوا کہ ہے تو حقیقت یہ تو فقط میں ہی اللہ کا ذکر کرتا ہوں اور اس نے تو کبھی مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔

اب اس زمانے میں ظاہر ہے کہ کوئی ولی خدا یا پیغمبرؑ تھے کہ جن کے پاس یہ شخص گیا اور اپنا سوال پوچھا تو انہوں نے جواب دیا کہ اللہ فرما رہا ہے کہ یہ میرا ذکر جو تیری زبان پر جاری ہے اور تو مجھے یاد کرتا ہے تو یہ میں ہی تو ہوں جو تجھے یاد کرتا ہوں۔
سبحان اللہ!

ورنہ بہت سارے لوگ ایسے ہیں کہ جو اللہ کے ذکر سے محروم ہیں۔ یعنی ! بے انتہا پیسہ ہوتا ہے اور سب آسائشوں کے باوجود یاد خدا سے غافل ہیں۔

مولا علی فرماتے ہیں : بہت سارے لوگ ایسے ہیں کہ جن کی زندگی باورچی خانے اور بیت الخلاء کے درمیان چکر لگاتے ہی گذرتی ہے۔

یعنی! شکم پرستی

یعنی ان لوگوں کی زندگی کا سب سے بڑا ہدف شکم پرستی ہوتا اور اور پھر ان کا مسئلہ معدے کی بیماریاں بن جاتی ہیں اور زیادہ تر لوگ معدے کے مریض ہوتے ہیں۔ اور ان بیماریوں کی وجہ سے باقی بیماریاں بنتی ہیں۔

لیکن !
ہم دیکھتے ہیں کچھ لوگ اللہ کے لیے وقت نکالتے ہیں اور ذکر کرتے ہیں۔ نمازیں ، نوافل، تہجد اور مختلف قسم کی مناجات کے لیے وقت نکالتے ہیں۔ اور اللہ چاہتا ہے کہ یہ میرا بندہ میرا ذکر کرے اور یہاں بھی پروردگار اس بندے سے کہہ رہا ہے کہ اے میرے بندے ! یہ میرا ذکر جو تو کر رہا ہے یہ میں تیری زبان پر جاری کر رہا ہوں۔ اور اگر میں نہ چاہتا تو تو یہ ذکر نہیں کر سکتا تھا۔ تو بس! پروردگار سب سے بڑا معلم ہے۔ اور پیغمبرؐ اسلامﷺ نے اسے اپنی درگاہ سے اس لیے نکالا تاکہ یہ اللہ کے الہام شدہ طریقے سے توبہ کرے۔
اللہ اکبر!

تو یہ پیغمبرؐﷺ کا ایک اہم ترین ذریعہ تھا۔ ایسا نہ سمجھیں کہ پیغمبرؐﷺ نے اسے مایوس کر کے نکال دیا۔ ایسا ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ واحد راہ تھی کہ وہ اپنے اتنے بڑے گناہوں کی توبہ کو انجام دے۔ اسی لیے ہم اس جوان کی واقعہ میں دیکھتے ہیں کہ جب رسولؐ خداﷺ اس جوان کے پاس گئے اور جب اسے بشارت دی کہ اے جوان تیری توبہ قبول ہو گئی اور پھر آپ اپنے اصحاب کی جانب متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ:
“اگر توبہ نصوح کرنی ہے تو پھر اس جوان کی طرح کرو۔ یعنی! پیغمبرؐ جانتے تھے کہ اس جوان نے توبہ کا کون سا طریقہ اختیار کرنا ہے۔ اور اپنے اصحاب کو اس جانب متوجہ کیا کہ اے میرے اصحاب فقط چند مرتبہ استغفراللہ کہنے سے مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ استغفراللہ ذکر کے اعتبار سے اظہار توبہ ہے لیکن! واقعاً توبہ نہیں ہے۔ اب تو لوگوں کا معیار یہ ہوگیا ہے منہ سے استغفراللہ بھی کہتے ہیں لیکن! کام پھر بھی وہی انجام دیتے ہیں۔

ہمیں چاہیے کہ توبہ کے حوالے سے ہم اپنے انبیاءؑ اور آئمہؑ جو معصوم ہستیاں تھی ان کی توبہ کا طریقہ کار کیا تھا۔

اب یہاں جناب ملکی تبریزیؒ انبیاءؑ کی توبہ میں بطور مثال فرماتے ہیں کہ:

و أما توبه الأنبیاء علیهم السلام: فیکفیک منها ما بلغک من توبه داود النبى – صلوات االله و سلامه على نبینا و آله و علیه

 

حضرت داؤد کا قابل غور واقعہ:
سورہ ص میں یہ واقعہ ذکر ہوا ہے۔

حضرت داؤدؑ نبیؑ خدا بہت بڑے قاضی تھے اور فیصلہ کرتے وقت بہت دقت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ تو ترک اولیٰ ان سے ہوا۔ انبیاءؑ سے تو ترک اولیٰ ہوتا ہے ۔ یہ واقعہ سورہ ص میں موجود ہے۔

وَهَلْ اَتَاكَ نَبَاُ الْخَصْمِۚ اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ (21) 
اور کیا آپ کو دو جھگڑنے والوں کی خبر بھی پہنچی، جب وہ عبادت خانہ کی دیوار پھاند کر آئے۔
اِذْ دَخَلُوْا عَلٰى دَاوُوْدَ فَفَزِعَ مِنْـهُـمْ ۖ قَالُوْا لَا تَخَفْ ۖ خَصْمَانِ بَغٰى بَعْضُنَا عَلٰى بَعْضٍ فَاحْكُمْ بَيْنَنَا بِالْحَقِّ وَلَا تُشْطِطْ وَاهْدِنَـآ اِلٰى سَوَآءِ الصِّرَاطِ (22) 
جب وہ داؤد کے پاس آئے تو وہ ان سے گھبرایا، کہا ڈر نہیں، دو جھگڑنے والے ہیں ایک نے دوسرے پر زیادتی کی ہے پس آپ ہمارے درمیا ن انصاف کا فیصلہ کیجیے اور بات کو دور نہ ڈالیے اور ہمیں سیدھی راہ پر چلائیے۔
اِنَّ هٰذَآ اَخِيْۚ لَـهٝ تِسْعٌ وَّتِسْعُوْنَ نَعْجَةً وَّلِـىَ نَعْجَةٌ وَّاحِدَةٌ ۚ فَقَالَ اَكْفِلْنِيْـهَا وَعَزَّنِىْ فِى الْخِطَابِ (23) 
بے شک یہ میرا بھائی ہے، اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک دنبی ہے، پس اس نے کہا مجھے وہ بھی دے دے اور اس نے مجھے گفتگو میں دبا لیا ہے۔

قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ اِلٰى نِعَاجِهٖ ۖ وَاِنَّ كَثِيْـرًا مِّنَ الْخُلَطَـآءِ لَيَبْغِىْ بَعْضُهُـمْ عَلٰى بَعْضٍ اِلَّا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيْلٌ مَّا هُـمْ ۗ وَظَنَّ دَاوُوْدُ اَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهٝ وَخَرَّ رَاكِعًا وَّاَنَابَ ۩ (24) 
کہا البتہ اس نے تجھ پر ظلم کیا جو تیری دنبی کو اپنی دنبیوں میں ملانے کا سوال کیا، گو اکثر شریک ایک دوسرے پر زیادتی کیا کرتے ہیں مگر جو ایماندار ہیں اور انہوں نے نیک کام بھی کیے اور وہ بہت ہی کم ہیں، اور داؤد سمجھ گیا کہ ہم نے اسے آزمایا ہے پھر اس نے اپنے رب سے معافی مانگی اور سجدہ میں گر پڑا اور توبہ کی۔
فَغَفَرْنَا لَـهٝ ذٰلِكَ ۖ وَاِنَّ لَـهٝ عِنْدَنَا لَزُلْفٰى وَحُسْنَ مَاٰبٍ (25) 
پھر ہم نے اس کی یہ غلطی معاف کر دی اور اس کے لیے ہمارے ہاں مرتبہ اور اچھا ٹھکانہ ہے۔
يَا دَاوُوْدُ اِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيْفَةً فِى الْاَرْضِ فَاحْكُمْ بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِــعِ الْـهَوٰى فَيُضِلَّكَ عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ ۚ اِنَّ الَّـذِيْنَ يَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِيْلِ اللّـٰهِ لَـهُـمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ بِمَا نَسُوْا يَوْمَ الْحِسَابِ (26) 
اے داؤد! ہم نے تجھے زمین میں بادشاہ بنایا ہے پس تم لوگوں میں انصاف سے فیصلہ کیا کرو اور نفس کی خواہش کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہیں اللہ کی راہ سے ہٹا دے گی، بے شک جو اللہ کی راہ سے گمراہ ہوتے ہیں ان کے لیے سخت عذاب ہے اس لیے کہ وہ حساب کے دن کو بھول گئے۔

واقعہ : 
حضرت داؤد اپنی محراب عبادت (اپنے دربار میں) انبیاءؑ کی مقام عبادت ہی ان کا دربار ہوتا ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ جب امام زمانؑ عج تشریف لائیں گے تو ان کا مقام سکونت مسجد سہلہ ہوگی اور ان کا دربار مسجد کوفہ ہوگی۔

انبیاءؑ اور آئمہؑ کا مقام عبادت ہی ان کا مقام قضاوت (فیصلہ کی جگہ) ہوتا ہے۔

حضرت داؤد نبیؑ بنی اسرائیل کے نبی بھی تھے اور سلطان بھی تھے۔ ان کے نوکر، ملازم محافظ تھے اور ان کو خطرہ بھی تھا کیونکہ اردگرد بہت سے کفار اور مشرکین سے جنگیں بھی ہوتی تھیں۔

حضرت داؤدؑ نے دیکھا کہ دو لوگ دیوار پھلانگ کر ان کے محراب میں آگئے۔ حضرت داؤد تھوڑا سا وحشت زدہ ہوگئے۔ اصل میں وہ دو فرشتے تھے جو اللہ نے حضرت داؤدؑ کی آزمائش کے لیے بھیجے تھے۔

ان دو فرشتوں نے کہا جناب داؤد آپ بہت بڑے قاضی ہیں لہذا ہمارا ایک فیصلہ کریں۔

یہ واقعہ قابل غور ہے اور ہماری زندگیوں کے بہت سارے امور کو ٹھیک کرنے والا ہے۔ بلخصوص علمائے کرام اور طلباء۔

اس فرشتے نے کہا۔
یہ میرا بھائی ہے اور اس کے پاس ننانوے دنبیاں ہیں ۔ اور میرے پاس ایک دنبی ہے اور یہ مجھ سے مطالبہ کر رہا ہے کہ یہ جو ایک دنبی میرے پاس ہے وہ بھی میں اسے دے دوں۔ اور اس کو بہت طریقہ آتا ہے گفتگو کرنے کا یہ مجھ پر بہت زور دے رہا ہے ۔

حضرت داؤدؑ نے جب یہ بات سنی تو کہا کہ یہ تیرے حق میں ظلم کر رہا ہے۔ اس کے پاس تو ننانوے ہیں یہ تیری ایک پر کیوں نظر رکھے ہوئے ہے۔

دوسرے بھائی نے سر جھکا لیا اور اس نے بھی شکریہ ادا کیا اور دونوں چلے گئے۔ (یہ واقعہ قرآن مجید میں یہاں تک ہی موجود ہے)

اگر ہم بھی دیکھیں تو یہ فیصلہ ٹھیک تھا۔ اور اس نناوے جانوروں کے ہوتے کسی سے اس کی ایک ذاتی دنبی کا مطالبہ کرنا ظلم تھا۔

حضرت داؤدؑ نے بھی یہی کہا کہ یہ ظلم ہے۔
یہ داؤدؑ نبی کا فیصلہ تھا۔

لیکن !
جب وہ دونوں نے چلے گئے تو جناب داؤدؑ نبی متوجہ ہوئے کہ مجھ سے تو خطا ہوگئی۔ کیونکہ میں نے ایک شاکی آدمی کی بات تو سن لی اور اس کی شکایت پر تو فیصلہ کر لیا لیکن! دوسرے کو موقع نہیں دیا۔ کہ وہ بھی اپنے اس مطالبے کی وجہ بتائے کہ نناوے جانوروں کے ہوتے ہوئے بھی وہ اس ایک کا مطالبہ کیوں کر رہا ہے۔ مجھے اس کی بھی بات سننی چاہیے تھی۔ اور قضاوت نہیں کرنی چاہیے تھی۔

یعنی! عدالت تب قائم ہوتی ہے کہ جب مجرم سے بھی پوچھا جائے کہ تم یہ جرم کیوں کر رہے ہو۔

 

توجہ:
ہمارے معاشرے میں حتی علمائے کرام میں بھی یہی کام ہو رہا ہوتا ہے۔ ہم اسی کی مانتے ہیں جو پہلے پہنچ جاتا ہے۔ ہمیں فوری طور پر قضاوت کر بیٹھتے ہیں اور اس سے بھی بڑا ظلم ہم یہ کرتے ہیں کہ اسی واقعہ کو آگے نقل بھی کر دیتے ہیں کہ وہ شخص آیا تھا اس پر بہت ظلم ہوا ہمیں بہت افسوس ہوا ہے۔ اور فلاں نے اس کے حق میں ظلم کیا۔ یہ طریقہ ہمارا معمول بن چکا ہے اور گھر گھر کا یہی مسئلہ ہے۔ بجائے اس کے کہ جس کی شکایت ہوئی ہوتی ہے اس سے بھی پوچھا جائے کیونکہ اگر ہم اس سے پوچھیں تو اصل مسئلہ کی نوعیت ہی بدل کر رہ جاتی ہے۔

ہمارے سامنے ایسے بے شمار واقعات بعنوان مثال ہیں۔

قاضی کو چاہیے کہ ہمیشہ طرفین کی سنے اور پھر فیصلہ کرے۔ اور پھر اس کا فیصلہ حق کے موازین کے مطابق ہے۔

بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ سمجھ آرہا ہے کہ یہاں ظلم ہو رہا ہے لیکن پھر بھی مدمقابل کی سننی چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ فیصلہ وہی ہو۔ لیکن سننا ضروری ہے کیونکہ انسان جائز الخطا ہے۔

انبیاءؑ معصوم ہیں اور ترک اولیٰ در حد گناہ نہیں ہوتا لیکن خطا ہوتی ہے۔ ! خطا کی قسموں میں سے ایک قسم ہے۔ معصوم گناہ نہیں کرتا۔

اس واقعہ میں درس خدا :
اگر آپ کو کسی چیز میں واضح مسئلہ نظر آرہا ہے۔ لیکن! پھر بھی مدمقابل سے پوچھنا چاہیے۔ یہ ترک اولیٰ ہوا۔

 

ہمارا اشارہ ان چیزوں کی جانب ہے کہ جو کچھ ہمارے گھروں اور دوسرے مقامات پر ہو رہا ہے وہ گناہ ہے۔ جہاں طرف مقابل تو ہوتا نہیں۔ ایک آدمی آتا ہے اور اپنی کہانی سناتا ہے ۔

اس میں گناہ کیا ہے؟
ہم نے اس کی یک طرفہ بات سنی۔
ہم نے فیصلہ بھی کر دیا۔
اور اس کی بات کو آگے نشر بھی کر دیا۔

یہ بذات خود بہت بڑا گناہ ہے اور یہ بے لذت گناہ ہے کہ جس میں ہمیں کوئی لطف بھی محسوس نہیں ہوا نہ ہی کوئی مالی فائدہ ہوا بلکہ خواہ مخواہ بیٹھے بیٹھے گناہگار ہو گئے۔

جناب ملکی تبریزیؒ لکھتے ہیں کہ:
جناب داؤد نبیؑ نے چالیس دن اپنا سر سجدے سے نہیں اٹھایا۔
اور کب اٹھاتے تھے۔ (حوائج شریعہ کے لیے یا پھر نماز پڑھنے کے وقت سر اٹھاتے تھے۔ یا جب طہارت کی ضرورت کے وقت سجدے سے سر اٹھاتے تھے۔)

سجدے کی حالت میں جناب داؤدؑ نے اتنا گریہ کیا کہ ان کی آنکھوں کے پانی سے اس زمین میں جڑی بوٹیاں اُگ گئیں۔

انہوں نے اس سجدے میں مسلسل پروردگار کو اس کے مختلف اسماء اور صفات سے پکارا۔

حضرت داؤدؑ کی مناجات بہت غمگین تھیں۔

فرماتے ہیں کہ:
سبحان خالق النور
منزہ ہے وہ پروردگار جو نور کا خالق ہے۔
جرح الجبین
پروردگارا! میری پیشانی زخمی ہو چکی ہے۔
و فُنیت الدموع
اور میری آنکھوں کے آنسو ختم ہو چکے ہیں۔
و تناثرا الدود من رکبتى
میرے زانو میں اب طاقت نہیں رہی کہ ہلا سکوں
و خطیئتى ألزم بى من جلدى
یہ گناہ میری جلد سے بھی زیادہ سخت تھا کہ اس نے میرے پورے وجود کو گھیر لیا ہے۔

(ہم شائد اس کو گناہ نہ سمجھیں)
لیکن! جیسے جیسے آدمی کا درجہ بڑھتا ہے اس کی چھوٹی سی چھوٹی خطا اس کی شان کے مطابق بڑی ہوتی ہے۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ عوام کے مکروہات علماء اور بزرگوں کے محرمات ہوتے ہیں۔

حتی عوام کے مباہات علماء کے مکروہات ہوتے ہیں۔ اس لیے کہا گیا ہے کہ ایک عالم بازار میں کوئی چیز سر راہ نہ کھائے اس لیے کہ اس کا یہ کھانا ہوسکتا ہے عوام کو بیزار کر دیے۔ اور وہ کتنے لوگوں کی گمراہی کا باعث بنیں گے۔

حضرت داؤد نے چالیس دن حالت سجدہ میں اس قدر گریہ کیا کہ پھر خدا کی آواز آئی۔

اے داودؑ تو بھوکا ہے ۔ میں تجھے کھانا دوں۔ تو پیاسا ہے میں تجھے پانی دوں۔ تجھ پر کوئی ظلم ہوا ہے میں تیری مدد کروں۔

یعنی۔ اللہ نے ان کی خطا کا ذکر نہیں کیا۔ حضرت داؤدؑ نے کہا پروردگارا مجھے ان چیزوں کی ضرورت نہیں مجھ سے گناہ ہوا ہے۔
تو آواز آئی۔

اے داؤدؑ اپنا سر اٹھا میں نے تجھے بخش دیا

لیکن !
حضرت داؤد نے اپنا سر نہیں اٹھایا۔ (اتنی ندامت تھی نبیؑ خدا کو اپنے گناہ کی )

روایت میں ہے کہ پھر حضرت جبرائیل آئے اور انہوں نے حضرت داود کا سر اٹھایا۔

کہتے ہیں کہ اگر انسان کے گناہ بخشے بھی جائیں تو بھی چاہیےکہ وہ ندامت کو نہ چھوڑے ۔

جب بھی جناب داؤدؑ کو اپنا یہ گناہ یاد آتا تھا تو وہ پشیمانی سے بے ہوش ہوجاتے تھے اتنی ندامت ان پر سوار ہوتی تھی۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ توفیق دے کہ گناہ کی بخشش خالی استغفراللہ کہنے سے حاصل نہیں ہوتی۔

۔ ضروری ہے کہ انسان اپنے گناہ پر نادم ہو تاکہ توبہ کا آغاز ہو۔
۔ اللہ کی بارگاہ میں گریہ ہو یعنی جتنا بڑا گناہ ہو اتنا ہی بڑا گریہ ہو۔
۔ استغفار میں اللہ کے اسماء اور اس کی صفات جو توبہ کے مقام کے مطابق ہو۔ جس میں اللہ کی رحمت اور کرم کے مطابق پکارے اور اپنی ظاہری حالت اور لباس ایسا ہو کہ جس میں وہ اللہ کی رحمت کو طلب کرے۔

 

حضرت داؤدؑ فرماتے ہیں کہ:
اے پروردگار ! تو وہ ہستی ہے کہ ابلیس نے تیری اتنی بڑی نافرمانی کی اور جب ابلیس نے بھی تجھ سے کوئی چیز مانگی تو تو نے اسے محروم نہیں کیا۔ تو تو مجھے (اپنے اطاعت گذار بندے کو) کیسے محروم کرے گا۔
(یعنی اللہ کی رحمت طلب کرنےکے طریقے ہیں۔)

خلاصہ : 
پروردگار ہمیں توفیق دے کہ ہم اللہ کے اطاعت گذار بندے بنیں اور ہمیں توفیق دے کہ ہم ماہ رمضان میں دعائے تائبین جو ہمیں امام سید سجادع نے تعلیم فرمائی اسے اپنی دعاؤں میں شامل رکھیں۔

توبہ کی حالت اگر کسی میں پیدا ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا اس پر نظر رحمت رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ نجات حاصل کرے۔ توبہ کرے۔ خدا اسے جہنم میں نہیں لے جانا چاہتا۔ اس بندے نے کوئی نہ کوئی ایسا اچھا کام کیا ہوتا ہے کہ اللہ اس بندے کو توفیق توبہ دیتا ہے۔ اور توفیق توبہ کا مطلب یہ ہے کہ یہ بندہ ابھی بھی خدا کی نظر رحمت میں ہے اور خدا اس سے محبت رکھتا ہے۔ خدا چاہتا ہے کہ یہ بندہ میری بارگاہ میں آئے تاکہ میں اس کے گناہ معاف کروں۔

یعنی! ایک چیز جو ہمیں اپنی دعاؤں میں مانگنی چاہیے وہ توفیق توبہ اور اس کی رحمت مانگنی چاہیے۔ اور یہ دعا ضرور مانگنی چاہیے کہ پروردگارا! مجھے اس حال میں دنیا سے نہ لے جانا کہ میں تیرا گنہگار بن کر جاؤں بلکہ تائب ہو کر اور بخشا ہوا جاؤں۔ اور اپنے فرائض اور واجبات اور حقوق الناس پورے کر چکا کروں۔ ہمیں چاہیے کہ حرم میں بھی یہ دعا کریں۔

ہمیں حرم میں ان ہستیوں کے مطابق دعا کرنی چاہیے۔ دلوں کے حجاب دنیا کا کوئی ادارہ دور نہیں کر سکتا۔

زیارت کا ہدف:
معصومینؑ کی زیارت کرنے کا ہدف یہی ہے کہ وہاں جا کر دل کی تاریکیاں دور ہوں۔ وگرنہ طبی بیماریوں کا علاج تو ڈاکٹر کر سکتے ہیں اگر علم و ہنر ہو تو انسان رزق کما سکتا ہے۔ تو اس لیے جب ہم حرم میں وارد ہوں تو وہاں دعا یہی کرنی ہے کہ پروردگارا! اس بی بی (معصومہؑ قم) کے صدقے جو معصومؑ کی بیٹی، معصومؑ کی بہن اور معصومؑ کی پھوپھی ہیں۔ حتی کہ قائمؑ عج ان کو عمہ سادات کہتے ہیں یعنی سادات کی پھوپھی۔ اے پروردگارا میں تجھے اس ہستی کا واسطہ دیتا ہوں کہ میرے دل پہ پڑے حجابات کہ جن کی وجہ سے گناہوں کی تاریکیاں ہیں انہیں دور فرما۔ اور میرے دل کو نور سے بھر اور مجھے توبہ کی توفیق دے اور مجھے حقوق اللہ اور حقوق العباد پورے کروں یعنی دنیا سے عاقبت باخیر ہو کر جاؤں۔

یہ دنیا کے مسائل چند روزہ ہیں اور ہم اگر اپنے ماضی کو دیکھیں تو ہم بڑی بڑی مشکلات سے گذر کر آگے بڑھتے ہیں لیکن! دل کی تاریکی دور نہیں ہوتی۔ یہ تاریکی بارگاہ پروردگار میں دعا کرنے سے دور ہوتی ہے۔

یعنی دل کی تاریکی اور ظلمات ان مقدس حرم میں اللہ کی بارگاہ میں دعا کرنے سے دور ہوتی ہیں۔

بعض مرتبہ انسان فقیہ بھی بن جاتا ہے لیکن! دل کی تاریکی اور ظلمات دور نہ ہوئی تو بظاہر علم ایک فضیلت ہے لیکن ممکن ہے کہ عاقبت باخیر نہ ہو۔ کہتے ہیں علماء کی آفات میں سے ایک حسد ہے۔ اور کہتے ہیں کہ نوع بشر میں خواتین کے بعد سب سے زیادہ حسد علماء میں ہے۔

اور اس کا علاج زیارات پہ ہو سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ حوزہ کے ایک بہت بڑے استاد تھے جو کئی کتابوں کے مصنف تھے جب حالت احتظار میں تھے تو آیت اللہ گلپایگانی ان کی عیادت کے لیے گئے تو انہوں آیت اللہ گلپایگانی سے کہا کہ میں تجھ سے زیادہ بڑا عالم تھا لیکن! خدا نے تجھے مرجع بنایا اور میرے حق میں اچھا نہیں کیا تو آیت اللہ گلپایگانی نے کہا کہ توبہ کر کہ تو خدا کو ظالم کہہ رہا ہے۔ لیکن! اس نے توبہ نہیں کی اور اسی حالت میں وہ مر گیا اور اس کے علم کی کثرت اور شاگردوں کی کثرت نے اسے کچھ فائدہ نہیں دیا۔ یہ چیزیں ٹھیک ہیں کہ انسان کا مقام دنیا میں تو بڑھاتی ہیں لیکن! آخرت میں وہی کامیاب ہے جو ان گناہوں سے پاک ہوکر بارگاہ خداوندی میں پہنچتا ہے۔

پروردگار ہم سب کو ان تمام گناہوں اور بری خصلتوں اور ان گناہوں کی سیاہیوں سے جو ہمارے قلوب پر ہیں ان سے پاک ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور عالم باعمل بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ پروردگار ہمیں اپنے نیک اور صالحین بندوں میں قرار فرمائے۔ اور ہمارے مرحومین کی قبور کو نور محمدؐﷺ و آل محمدؑﷺ سے بھر دے انہیں ان کی قبور میں راحت و شادمانی عطا فرما اور ہمیں امام زمانؑ عج کا خدمت گار ناصر بننےکی توفیق عطا فرما۔

فَاِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا
اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا

آمین
والسلام
عالمی مرکز مہدویت قم ایران

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *