درس لقاء اللہ 27
توبہ کی کیفیت
توبہ کرنے والوں کے واقعات
استاد محترم قبلہ علامہ علی اصغر سیفی صاحب
۔۔ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔
ہماری گفتگو کتاب شریف لقاءاللہ میں جاری ہے اور یہ عظیم کتاب عظیم عارف ، عظیم عالم ربانی آیت اللہ میرزا جواد ملکی تبریزیؒ کی ہے۔
ہماری گفتگو توبہ پر جاری ہے۔ اس حوالے سے ہم نے گذشتہ دروس میں اس موضوع کو قرآن اور احادیث کی رو سے بیان کیا اور اسی طرح مختلف انبیاءؑ کی توبہ اور اسی طرح قوم یونس کی توبہ پر گفتگو ہوئی آج ہم اس گفتگو کو آگے بڑھاتے ہیں۔
طالب علموں کے حوالے سے فرماتے ہیں
فرماتے ہیں اپنے استاد کے بارے کہ علامہ حسین قلی ہمدانی بہت بڑی شخصیت گذری ہے جن کو اہل سیر و سلوک اور بہت بڑا عارف کہتے ہیں۔ اور یہ جناب ملکی تبریزیؒ کے استاد محترم ہیں اور حوزہ کے اندر جتنے بڑے بڑے عارف ہیں یہ ان کے استاد ہیں۔
یعنی ! ہماری دنیا تشیع میں یہ جو عرفاء کا سلسلہ چل رہا ہے تو اس میں سب سے بڑے استاد جناب مُلا حسین قلی ہمدانیؒ ہیں۔
کہتے ہیں کہ ہمارے استاد جناب ملا حسین قلی ہمدانیؒ کے پاس ایک شاگرد آیا اور کہا کہ آقا میں کیسے توبہ کروں جبکہ میری پچھلی زندگی کے گناہوں اور آلودگیوں سے کیسے جان چھڑاؤں تو آغا نے اسے ایک توبہ کا طریقہ بیان کیا جس کے بعد وہ دو تین دن کے لیے چلا گیا۔
اب جب وہ دو تین کے بعد واپس آیا تو وہ طالب علم جو صحت مند اور سرخ و سفید رنگت کا تھا اب اس کا وزن آدھا ہو چکا تھا اور رنگت زرد تھی یعنی اس نے اتنا گریہ اور ریاضت کی کہ دو تین دن کے اندر کیا سے کیا ہوگیا۔
لکھتے ہیں کہ واقعاً جس طرح توبہ کرنے کا حق ہے اس نے اس طرح توبہ کی تھی۔
توبہ یہ نہیں ہوتی کہ ہم کسی عمل کے بعد توبہ کر لیں اور استغفار کر لیں اور پھر سے وہی کام شروع کر دیں۔ جبکہ اہل توبہ جب استغفار کرتے ہیں تو ان کے حالتیں بدل جاتیں ہیں اور ان کے لبوں کی ہنسی ختم ہو جاتی ہے۔ آخرکار وہ بارگاہ خداوندی میں یہ بار اٹھا کر پیش ہوتے ہیں اور جب تک ان کی گناہوں کی آلودگیوں سے جان نہیں چھوٹتی اس وقت تک تو وہ ہنستے بھی نہیں ہیں۔
ایک بہت بڑی شخصیت تھے جو طالب علموں کو درس پڑھاتے تھے تو تیس سال تک ان کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں آئی تھی۔ اور زمانہ درسی میں تیس سال کے بعد طالب علموں نے ان کے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی کہا : آقا آپ بہت اچھے لگ رہے ہیں *ماشاءاللہ* !
جواب دیا۔ کہ اس سے قبل میں اپنے نفس سے لڑ رہا تھا اور آج میں اپنے نفس کو کنٹرول کر چکا ہوں۔ میں پریشان تھا کہ کہیں دوبارہ مجھ پر حملہ آور نہ ہوجائے۔ کیونکہ نفس انسان کا دشمن ہے کہ جس نے قسم کھائی ہوئی ہے کہ میں تجھے جہنم تک پہنچاؤں گا اور اس نفس کی پشت پناہی میں اس کا مددگار ابلیس ہوتا ہے۔ اور نفس کے مدمقابل انسان کی مدد گار اس کی عقل ہے، اس کا ضمیر، فطرت اور وجدان ہے۔ اور اس کا جو اندر سے دل ہوتا ہے جو سینے سے اٹھتا ہے یہ نور الہیٰ ہوتا ہے جو انسان کے اندر سے روحی طور پر قلب ہوتا ہے اور پھر قرآنی آیات، فرامین محمدؐﷺ و آل محمدؑ ﷺ ، ملائکہ ، روحانی قوتیں یہ سب اس کی مددگار ہوتی ہیں۔
انسانوں کے مددگار زیادہ ہیں لیکن! انسان ایسا ہے کہ کوئی بھی اسے بہکا کے لے جاتا ہے۔ جیسے کسی عمارت کو تعمیر کرنے میں کئی مہینے اور سال درکار ہیں لیکن! اسے گرانے میں چند منٹ لگتے ہیں۔
ایک ویڈیو میں ایک واقعہ دکھایا گیا کہ ایک والد جو کرسی پر کھڑا تھا اس نے اپنی بیٹی سے کہا کہ اس کو نیچے کھینچے جب بچی نے اسے کھینچا تو وہ کرسی سے نیچے آگیا۔ اس کے بعد اس نے اپنی بیٹی کو کرسی کے اوپر کھڑا کیا اور کہا کہ اب مجھے اوپر کھینچو۔ وہ بچی زور لگا لگا کر تھک گئی لیکن ! اپنے والد کو اوپر نہ کھینچ سکی۔
یہی چیز ہے کہ انسان خود کو ترقی و کمال دینے میں اور اپنے اخلاق تعمیر کرنے میں سخت ریاضتیں کرتا ہے لیکن! اگر اس کو کوئی گرانا چاہے تو ایک چھوٹی سی بات کو سن یا دیکھ کر وہ گر سکتا ہے۔ اور اس کی شخصیت مسخ ہو سکتی ہے۔ ایک جانب تو وہ بہت بااخلاق نظر آرہا ہے لیکن! ایک لمحے میں وہ بدتمیز ہو جاتا ہے۔ جیسے ہمارے بعض عرفا کہتے ہیں کہ آسانیوں میں تو آدمی بڑا نیک ہوتا ہے لیکن! اصل میں اس کا تب پتہ چلتا ہے جب وہ سختیوں میں اور مسائل میں ہو۔ تب معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتنے پانی میں ہے۔
جناب ملکی تبریزیؒ کہتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ دو تین دن میں وہ طالب علم اس طرح آدھا رہ گیا۔ اس نے اس قدر توبہ کی کہ اس کا بدن گھل گیا۔
جیسے کہتے ہیں کہ ایک شخص جو مال حرام کھا کھا کر پلا ہوا تھا۔ تو اسے کہا گیا کہ جتنے حرام مال سے تیرے وجود میں گوشت اور چربی چڑھی ہوئی ہے اسے گریہ و استغفار سے گلا۔ اور پھر وہ دوبارہ حلال مال سے بنے گی۔
یہ آسان نہیں لیکن! موت کے عذاب کو اگر دیکھیں تو یہ اس سے آسان ہے۔ اگر آخرت کا عذاب دیکھیں تو یہ اس سے آسان ہے۔
جب انسان پر موت طاری ہوتی ہے تو مولاؑ فرماتے ہیں انسان کی حالت یہ ہوتی ہے جیسے ایک نرم کپڑے کو خاردار جھاڑی سے کھینچا جائے تو وہ تار تار ہو جاتا ہے۔ اس طرح ایک انسان کی جان نکلتی ہے۔
عالم برزخ:
یہ کہنا بہت آسان ہے کہ عالم برزخ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک ہے۔ اگر ہم تصور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا کیا ہے۔ اور ہمیں معلوم ہے کہ عذاب قبر کا مؤجب کون سے گناہ ہیں اور قبر میں جو لوگوں کو سہولت ملے گی تو اس کا مؤجب کون سی نیکیاں ہیں۔
مثلاً عذاب قبر کا مؤجب ایک مسئلہ حقوق الناس کا ہے۔ جن لوگوں نے دوسروں کا حق کھایا ہوتا ہے اور لوگوں کو اپنی زبان سے تکلیف دی ہوتی ہے اور جو نجاست اور پاکی کا خیال نہیں رکھتے۔
عرض خدمت یہ ہے کہ جناب ملکی تبریزیؒ ایک اور آغا کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اس نے چھ گھنٹے لگائے توبہ میں ۔ توبہ فقط استغفار سے نہیں ہوتی ۔
مُلا حسین قلی حمدانی کے حوالے سے ایک واقعہ لکھتے ہیں کہ:
عرب کا ایک بہت بڑا سردار ان کے پاس آیا اور کہنے لگا میں توبہ کرنا چاہتا ہوں مجھے بتائیں کہ میں کیسے توبہ کروں ۔ انہوں نے اسے طریقہ بتایا کہ پہلے حقوق الناس والا مسئلہ حل کریں اور پھر جو اللہ کے حقوق ہیں ان کو پورا کریں۔
اب جب وہ حق الناس کے مسائل کو حل کرنے چلا تو اسے یاد آیا کہ میرا ایک ملازم تھا کہ جس نے غلطی کی تھی تو میں نے غصے میں آکر تلوار سے اس کا ہاتھ کاٹ دیا۔ کیونکہ جب انسان کے پاس طاقت اور غصہ ہو تو پھر یہی کچھ ہوتا ہے۔
استاد محترم قبلہ علامہ علی اصغر سیفی صاحب فرماتے ہیں کہ انہوں نے قبلہ محترم علامہ محسن نجفیؒ نے ترجمہ بلاغ القرآن لکھا ہے اس میں حاشیہ تھا آیت سورہ الانبیا ء 35
كُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَنَبْلُوْكُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَيْـرِ فِتْنَةً ۖ وَاِلَيْنَا تُرْجَعُوْنَ (35)
ہر ایک جاندار موت کا مزہ چکھنے والا ہے، اور ہم تمہیں برائی اور بھلائی سے آزمانے کے لیے جانچتے ہیں، اور ہماری طرف لوٹائے جاؤ گے۔
انہوں نے حاشیے میں لکھا تھا کہ ایک آدمی جو حالت شر میں ہے یعنی خیر کے مد مقابل ہے۔ ۔ شر یعنی! جو مثلاً غربت میں ہے، بیماری میں ہے اس کا امتحان چھوٹا ہوتا ہے۔ لیکن! جس آدمی کے پاس پیسہ ہے طاقت ہے اس کا امتحان سخت ہے۔ جس آدمی کے پاس کچھ نہیں ہے اس کا ایک ہی مسئلہ ہے لیکن! جس کے پاس طاقت اور مال ہے تو اس کے مسائل زیادہ ہیں۔
چونکہ یہ عرب سردار طاقتور اور رئیس تھا۔ لہذا اس نے غصے میں آکر ایک چھوٹی سی غلطی پر اس کا ایک ہاتھ کاٹ دیا۔ یہاں غصے پر قابو کرنا اس عرب کا امتحان تھا۔ جیسے کہتے ہیں کہ ہمارے کسی مولاؑ کے غلام نے کوئی خطا کی تو مولا کے چہرے پر جب غصہ آیا تو وہ چھپ گیا اور جب سامنے آیا تو اس نے آیت پڑھی۔
وَ الْـكٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِؕ وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ
سورہ آل عمران 134
آئمہ معصومینؑ کے غلام بھی تربیت یافتہ ہوتے تھے۔
پھر جب حکم خدا آیا یعنی! مولاؑ آیت قرآن سن کر فوراً تسلیم ہوگئے اور غصہ ختم کیا اسے معاف کردیا۔
اس عرب نے اب اپنی آخری عمر میں جب توبہ کرنا چاہی تو پھر اپنے اس غلام کو بلایا اور کہا کہ میرے پاس پیسہ تھا اور جتنا تمھارے اس کٹے ہاتھ کی دیت بنتی ہے تم لے لو لیکن! مجھے معاف کر دو۔ (فقط معافی مانگنا آسان نہیں)جو ایک انسان کی توہین کی گئی جو اس کا دل ٹوٹا وہ کیسے تجھے بخشے گا یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
اب اس اگلے آدمی نے کہا کہ نہیں میں آپ سے دیت نہیں لوں گا اور آپ کو بخشوں گا بھی نہیں اور اپنا معاملہ میں قیامت میں رکھوں گا۔
شیخ العرب نے تلوار منگوائی اور کہا:
یا مجھے بخش یا میرا ہاتھ کاٹ دے۔
ہمارا ایک اہم ترین مسئلہ توبہ کے معاملے میں سنجیدہ اور جدی ہونا ہے۔
*” جِدی” فارسی کا لفظ ہے اور اس کا مطلب ہے کہ واقعاً میں کروں گا۔ میں اپنے عزم سے ایک لحظہ بھی پیچھے نہیں ہٹوں گا۔*
اب یہ اگلے بندے کی مرضی تھی اس نے کہا کہ نہ میں قصاص لوں گا، نہ میں دیت لوں گا اور نہ ہی میں معاف کروں گا۔ یہ معاملہ قیامت میں لے کر جاؤں گا۔
جیسے میں نے ایک آدمی کی سر عام توہین کی اور پھر اس کے لیے تحفے لے جاؤں کچھ ہدیے لے جاؤں لیکن ! وہ راضی نہ ہو۔ پھر میں کہہ سکتا ہوں کہ تو بھی مجھے سرعام برا بھلا کہہ دے وہ کہے گا میں کیوں اپنی زبان گندی کروں لہذا میں اللہ پر چھوڑ رہا ہوں۔
اسی لیے کہتے ہیں کہ حق الناس کے مسئلے میں زبان کو چلاتے وقت بھی سوچنا چاہیے۔ کیونکہ اگر وہ اس معاملے کو اللہ پر چھوڑ دے تو کیا ہوگا کیونکہ ! خدا اس کا بھی ہے فقط تیرا نہیں ہے۔
اب شیخ نے کہا کہ تو میرا بھی ہاتھ کاٹ دے۔ اس نے کہا نہیں کیونکہ میں تیرے اس ظلم کی وجہ سے کافی عرصے سے اذیت میں ہوں ۔ میں دیت بھی نہیں لوں گا۔ قصاص بھی نہیں لوں گا۔ اور اگر تیرا ہاتھ کاٹ دوں تو کیا میرا ہاتھ واپس آجائے گا۔ اس لیے میں اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑتا ہوں۔
اب جب اس نے کہا کہ روز قیامت میں بارگاہِ خداوندی میں پیش ہوں گا اور عدل الہیٰ کا تقاضہ کروں گا۔ جب اس شیخ عرب نے یہ بات سنی تو وہ شیخ جو ایک سردار تھا اس نے اونچی اونچی آواز میں رونا شروع کیا۔
پروردگارا ! میں ہر ممکن کوشش کر رہا ہو کہ دنیا میں اپنے گناہ کا کفارہ ادا کروں۔
اور اے شخص تو بھی تو خدا کا بندہ ہے میں جب اپنی عزت نفس ختم کر چکا ہو تو تو بھی تو بندہ خدا ہے۔ جب اس نے اونچی آواز میں گریہ کیا تو پھر رب العزت نے اس بندے کے دل میں رحم ڈال دیا۔
یعنی ! اگر ہم نے کسی سے معذرت کرنی ہے تو سچے دل سے کرنی ہے نہ کہ درمیان میں اور ایک چھری رکھ کر بیٹھے ہوں۔
خدا دلوں کو جانتا ہے۔ اور معذرت دل وجان سے ہونی چاہیے اور اپنی زبان کو قابو میں رکھنا چاہیے۔
آیت اللہ حسن زادہ آملی فرماتے تھے کہ بعض دفعہ جب میں درس دیتا ہوں تو شاگرد اس کو الٹ سمجھ لیتے تھے کیونکہ ان کی سطح کم تھی اور میری سطح فکر بلند تھی ۔ تو کہتے ہیں کہ جب میں رات کو سویا تو مکاشفے کی حالت طاری ہوئی اور میرے گھر میں دو تین افراد داخل ہوئے۔ اور ان کے ہاتھ میں رضائی سینے والی لمبی سوئی تھی۔ اور ساتھ موٹا دھاگہ تھا۔ ان میں سے ایک نے میرے دونوں بازو پکڑے اور ایک نے اس موٹی سوئی اور دھاگے سے میرے ہونٹوں کو سینا شروع کر دیا۔ اور یہاں تو انہوں نے مجھے بے حس بھی نہیں کیا تھا۔ اور میں اس تکلیف کو محسوس کر رہا تھا اور میری چیخیں نکل رہی تھیں انہوں نے میرا سارا منہ سیا۔ اور انہوں نے کہا کہ ہر بات ہر جگہ نہیں کرنے والی ہوتی اور اگر تمھارا منہ کنٹرول نہیں ہوتا تو ہم اس کو سی دیتے ہیں۔ کیونکہ ہر بات ہر جگہ کرنے والی نہیں ہوتی۔
جب وہ حالت مکاشفہ ختم ہوئی تو وہ اٹھ گئے اور اللہ کی بارگاہ میں توبہ کی اور محتاط ہو گئے۔
آیت اللہ حسن زادہ آملی نعوذ باللہ کوئی غلط بات نہیں کرتے تھے لیکن! مقصد تھا کہ اہل ظرف کو بات بتائیں ورنہ نااہل افراد شکوک میں مبتلا ہو جائیں گے۔
خدا بڑی بڑی ہستیوں کو اس طرح محفوظ فرماتا ہے کہ ان سے کوئی غلطی نہ ہوجائے۔
اب اس شیخ عرب نے جب گریہ کیا تو پروردگار جو مقلب القلوب ہے ۔ پروردگار نے مدمقابل شخص کہ جس کا ہاتھ کاٹا گیا تھا اس کے دل کو نرم کر دیا۔ اور اس کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔ اور اس نے کہا کہ نہ میں قصاص لیتا ہوں نہ ہی دیت لیتا ہوں بلکہ میں تجھے اللہ کی راہ میں معاف کرتا ہوں۔
ایسا ہوتا ہے کہ اگر آپ صدق دل سے کسی پاس جائیں تو چاہے وہ کتنا ہی سخت دل نہ ہو اللہ اس کے دل میں رحم ڈال دیتا ہے۔
چھٹے مولاؑ امام صادقؑ کے زمانے میں بنی عباس نے ایک شیعہ *علی بن یقطین* کو وزیر بنایا تھا جو امام کاظمؑ کے زمانے تک رہے۔ ان کے پاس ایک شیعہ گیا لیکن! وہ مصروف تھے اور وہ ان کے دفتر یا گھر کے باہر کھڑا رہا جب وہ امام موسیٰ کاظمؑ کی خدمت میں آتا ہے تو ان کے بارے میں شکایت کی۔
مولاؑ نے علی بن یقطین کو خط لکھا اور اس خط کے بعد مولاؑ کی خدمت میں دوڑے ہوئے آئے ۔ مولاؑ نے فرمایا کہ تم وہاں اس لیے بھیجے گئے تاکہ شیعوں کے کام ہوں لیکن! وہاں ہمارا شیعہ کھڑا رہے اور تمھارے پاس وقت ہی نہ ہو کہ اس کی بات سنو۔
علی بن یقطین نے اس شخص کا کام بھی کر دیا اور اس شیعہ کے گھر گئے لیکن! اب وہ شخص ان کو وقت نہیں دے رہا۔ اور وہ دل سے راضی نہیں تھا۔ تو پھر علی بن یقطین نے اپنا رخسار زمین پر رکھ دیا کہ اپنا پاؤں میرے رخسار پر رکھ۔ یعنی اس قدر عجز کیا۔ اس شخص نے ایسا کیا تو نہیں لیکن! اس کا دل نرم ہوگیا اور کہا کہ میں آپ سے راضی ہوں۔
خلاصہ یہ ہے کہ یہ ساری چیزیں ہمارے لیے درس ہیں کہ دنیا میں جو کچھ کرنا ہے کر لیں اور اگر کوئی غلطیاں ہوتی رہی ہیں تو ان کو دنیا میں سدھاریں۔ اور گناہوں کو روکیں کیونکہ زندگی کسی بھی وقت اپنے اختتام کو پہنچ سکتی ہے۔ اور سرھانے پر سر رکھنے سے قبل اپنے تمام امور کو صاف کر کے سوئیں۔ کیونکہ معلوم نہیں کہ آنکھ کھلے گی یا نہیں۔
روایات میں آیا ہے کہ مومن کی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنا وصیت نامہ لکھ کر سوئے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ دل و جان سے پروردگار کے توبہ گذار ہوں۔ اپنے گناہوں کو دنیا میں ہی اللہ کی بارگاہ میں مقام مغفرت تک پہنچائیں۔ بالآخر دنیا سے ایک دن جانا ہے ۔ یہ دنیا کسی کا مقام نہیں۔ تو ہم حالت پاکیزگی میں ہر قسم کے گناہ کی الودگی سے پاک ہو کر رحمان کی بارگاہ میں جائیں۔ نہ کہ قھار کی بارگاہ میں۔ پروردگار ہمیں عالم باعمل بننے کی توفیق دے اور امام زمانؑ عج کے ناصرین اور ان کے خدمتگاروں میں سے قرار دے۔
الہیٰ آمین
والسلام۔
عالمی مرکز مہدویت _قم ایران