درس لقاء اللہ 19
آیت اللہ میرزا جواد ملکی تبریزی (رح)
موضوع: توبہ اور اسکے درجے
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ہماری گفتگو کا موضوع کتاب شریف لقاءاللہ ہے ہم اپنے سلسلہ گفتگو میں یہاں پہنچے ہیں کہ جب انسان کا ہدف واضح ہو جائے کہ وہ اللہ کے لیے جی رہا ہے اور پروردگار کی معرفت کو جب حاصل کر لے تو اس کے بعد اس کا اہم ترین کام توبہ ہے۔
اپنی گذشتہ زندگی میں جو کچھ اس نے کیا جو نہیں کرنا چاہیے تھا جو کچھ اس نے غلط سوچا حتی کہ جو برے خیال آئے۔۔۔ ان سب سے توبہ ہے۔ اور توبہ کے مرتبے اور درجات ہیں۔
جس طرح سے لوگوں کے درجے ہیں ۔ توبہ کرنے والوں کے درجے ہیں
اسی طرح خود توبہ کے بھی درجے ہیں ۔
کتاب مصباح الشریعہ میں لوگوں کے درجوں کی مناسبت سے توبہ کے درجے بیان ہوئے ہیں ۔ اس میں آیا ہے کہ:
التوبہ حبل اللہ و مدد عنایتہ ولا بد للعبد من مداومۃ التوبہ علی کل حال
توبہ اللّٰہ کی رسی ہے اس کی عنایت سے پروردگار کی مدد ہے ہر عبد کے لیئے ہر بندے کے لیے ہر حال میں ضروری ہے کہ وہ اپنی توبہ کو جاری رکھے۔ اگر کوئی نامناسب کام ہوا ہے تو فوری توبہ کرے۔ ایسا نہیں ہے کہ توبہ کرے اور پھر انسان اپنی دنیا میں غرق ہو جائے۔ نہیں! بلکہ جب بھی کوئی یہ سمجھے کہ وہ راہ حق سے ہٹ رہا ہے فوری توبہ کرے۔
اس کے بعد فرماتے ہیں
و کل فرقہ من العباد لہ توبہ:
لوگوں کے ہر گروہ کے لیے توبہ ہے۔ یعنی ہر گروہ کی اپنی خاص توبہ ہے۔
انبیاءؑ کی توبہ کیا ہے؟
فتوبہ الانبیاء من اضطراب السر
ہم بعض اوقات قرآن مجید اور احادیث میں اور دعاؤں میں بھی دیکھتے ہیں۔ نبیوں کی توبہ جو ہے وہ یہ ہے کہ ان کے اندر جو اضطراب پیدا ہوتا ہے دنیا کے جن حالات سے وہ دو چار ہوتے ہیں تبھی انسان بلآخر اپنے نفس سے اور دشمنوں سے پریشان ہوتا ہے۔
یہ جو ایک مخفی سا نا معلوم سا اضطراب پیدا ہوتا ہے یہ نہیں پیدا ہونا چاہئے تھا ۔ کیونکہ تو ایک نبی خدا ہے، ولی خدا ہے تیری پشت پر لامحدود قدرت کا مالک پروردگار ہے۔ تو یہ انکی ایک خطا ہوتی ہے۔ درواقع ہمارے لیے خطا نہیں ہے۔ یہ کوئی شرعی یا فقہی خطا نہیں ہے ۔
بعض مرتبہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ نبیؑ معصوم ہوتے ہیں تو وہ گناہ کیا ہوتا ہیں جو وہ کرتے ہیں جس سے وہ استغفار کرتے ہیں وہ یہی چیز ہے ۔
یعنی یہ انکے مقام پر ایک خطا ہے ۔جس درجے پر وہ فائز ہیں اس درجے میں اک خطا ہے بلآخر وہ بشر ہے ایک انسان ہے۔ لیکن! یہ وہ خطا نہیں ہے جو ہم سوچتے ہیں۔ جس میں حلال و حرام کا مسئلہ ہے ۔ نعوذباللہ! ایسا نہیں ہے۔ نبیؑ ان چیزوں سے معصوم ہیں۔ وہ جو ایک پریشانی ایک اضطراب ان کے اندر پیدا ہوتا ہے وہ نہیں ہونا چاہیئے تھا۔ تو انبیاء اس سے توبہ کرتے ہیں ۔
و توبہ الاولیاء من تلوث الخطورات
نبیوں کے بعد جو دوسرا مقام ہے اولیاء خدا ہیں۔ اس میں آئمہ اور اوصیاء ہیں اور ان کی توبہ کس چیز سے ہے؟
یہ جو دلوں میں بعض دفعہ خیال پیدا ہوتے ہیں جیسے بدگمانی پیدا ہوگئی جیسے سوۓ ظن پیدا ہوگیا، جیسے ذہن میں فکر گناہ آ گئی۔
یہ بھی گناہ نہیں کرتے یہ بھی معصوم ہوتے ہیں۔ اور وہ جو گناہ ہم سمجھتے ہیں وہ یہ نہیں کرتے یہ کسی گناہ میں مبتلا نہیں ہوتے۔ ان سے کوئی خطا عملی طور پر نہیں ہوتی لیکن یہ کس چیز کے لیے روتے ہیں اللّٰہ کی بارگاہ میں استغفار کرتے ہیں لمبی لمبی دعائیں کرتے ہیں گریہ کرتے ہیں۔
ہمارے بعض لوگ بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ ہمیں دکھانے کے لیے ہے ۔ ایسا بلکل نہیں۔ ان کے درجے پر پر بھی کوئی گناہ ہے جو ہمارے لیے گناہ نہیں ہے لیکن انکے درجے پر ہے اور وہ کیا ہے کہ دلوں میں بعض مرتبہ ایسی حالتیں پیدا ہونا کہ جسے ہم کہیں کہ دل میں کبھی کبھی آلودگی پیدا ہونا ۔ اور یہ اس چیز سے توبہ کرتے ہیں ۔
و وتوبہ الاصیاء من التنفیس
اصفیاء اولیاء کے نیچے والا درجہ ہے۔ یعنی منتخب شُدہ لوگ کہ جنہیں اللّٰہ منتخب کرتا ہے۔ اور وہ آہستہ آہستہ پھر اولیاء کے درجے پر پہنچتے ہیں۔ ان کے کیا گناہ ہے؟
ان کے گناہ یہ ہیں کہ: بعض ہمارے علماء یہاں تنفیس سے مراد لیتے ہیں کہ جو ان کوزندگی میں وسعت ملتی ہے مثلاً:
۔ ▪️ رزق کی فراوانی
۔ ▪️شہرت اور بڑا مقام ملنا
۔ ▪️لوگ کا ان کے اردگرد جمع ہونا
اور یہ وہ چیز ہے جو انسان کو بلآخر غافل کرتی ہے چاہے لحظوں کے لیے، گھنٹوں کے لیے، دنوں کے لیے تو اس وقت جب یہ لوگ یہ چیزیں دیکھتے ہیں تو اللّٰہ کی بارگاہ میں توبہ کرتے ہیں کہ پروردگار ہمیں آزمائشوں میں ڈال تاکہ ہم ایک لحظہ بھی تیری یاد سے غافل نہ رہیں۔
اللہ اکبر!
ہمارے ہاں اس کے برعکس سمجھا جاتا ہے کہ جس آدمی کی شہرت زیادہ ہورہی ہے اور جس کا مقام بڑھ رہا ہے تو اس پر اللہ کا فضل ہو گیا ہے۔ لیکن جو اصفیاء کے مقام پر ہیں وہ اس کو فضل نہیں سمجھتے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ چیزیں انسان کو غافل کرنے والی ہیں اسی لیے وہ امتحانات اور تکلیفوں کو اللہ کا فضل سمجھتے ہیں۔ اور وہاں وہ توبہ کرتے ہیں اور اللہ سے آزمائشیں مانگتے ہیں۔ اور بعض جگہ یہاں لفظ تنفس آیا ہے
توبہ الاصیاء من التنفس
تنفس سے مراد یعنی غیر خدا کے لیے سانس لیا یا پھر غفلت میں سانس لیا یعنی اللہ سے غافل ہوکے سانس لیا ہے اور اپنی زندگی کے امور میں ایسے گم ہوئے کہ کچھ لحظوں کے لیے خدا یاد نہ رہا اور اتنی دیر تک سانس لیتے رہے وہ اس کی توبہ کرتے ہیں۔
اللہ اکبر! یہ مسئلہ کتنا دقیق اور پیچدہ ہے۔ جن کے مقام بڑے ہیں ان کے امتحان بڑے ہیں اور وہاں دقت بڑی ہے۔ وہاں ظرافت بڑی ہے۔
اس کے بعد علماء اور فقہا کا درجہ ہے کہ جن کی بصیرت زیادہ ہے۔
علماء و فقہاء کی توبہ کیا ہے؟
و توبہ الخاص من الاشتعال بغیر اللہ
کہ یہ جو کبھی کبھی اپنے امورِ زندگی میں غیر خدا میں مشغول ہوگئے۔
ان سے پچھلے والے مراحل میں خیال تھا فقط ذہنی حد تک تھا، مگر یہاں یہ عملی طور پر مشغول ہوگئے۔ جیسے بعض دفعہ ریا ہو جاتی ہےاور نیک کاموں میں دکھاوا ہو جاتا ہے جتنا وقت بھی غیر خدا میں مشغول ہوئے البتہ یہ گناہ نہیں کر رہے۔ اور ایسا نہیں ہے کہ حرام کام کر رہے ہیں۔ بلکہ حلال کام انجام دے رہے ہیں لیکن ہر حلال کام قربتہ الی اللہ ہونا چاہیے۔ انسان اپنے تمام کاموں خدا کی نیت سے کرے۔ اور یہ جو غیر خدا کی نیت کی وہ کام جو جائز ہے اس کو غیر خدا کے لیے کر دیتے ہیں۔ یعنی دوسروں کے لیے کر دیتے ہیں۔ یہ ان کے لیے گناہ ہے اور وہ اس کے لیے توبہ کرتے ہیں۔
عوام کی توبہ کیا ہے؟
وتوبہ العام من الذنوب
وہ گناہ یہ جو عام طور پر حرام کام ہوتے ہیں ان سے توبہ کرنا یہ عوام کی توبہ ہے اور عوام کا درجہ سب سے نیچے ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے درجات رکھے ہوئے ہیں اور دروازے کھلے ہوئے ہیں ۔عوام، خواص والے درجے میں داخل ہو سکتے ہیں اور خواص اصفیاء کے درجے پر داخل ہو سکتے ہیں اور اصفیاء اولیاء کے درجے میں داخل ہو سکتے ہیں۔ اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔
پروردگار ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم درجوں کو سمجھیں۔اور اپنی توبہ اور اپنے عمل صالح سے اسی دنیا میں مرنے سے پہلے اپنا درجہ بڑھائیں اور اللّٰہ کے مقرر بندوں میں داخل ہوں۔
خدایا ہم توبہ کرتے ہیں اور ہماری توبہ کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما اور ہم پر اپنی رحمتیں نازل فرما۔ ہماری توفیقات بڑھا تاکہ اس گناہ آلود زندگی سے نکل سکیں۔
الہیٰ آمین
والسلام
عالمی مرکز مہدویت قم ایران۔