تازہ ترین پوسٹس

درس لقاءاللہ:28_ موضوع:توبہ کے بعد مومن کے پانچ کام مشارطہ کیا ہے؟، ہر ساعت کا صندوق

کتاب لقاء اللہ سیر و سلوک
(آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی رح)
درس لقاءاللہ (28)
توبہ کے بعد مومن کے پانچ کام
مشارطہ کیا ہے؟
ہر ساعت کا صندوق

استاد محترم قبلہ علامہ علی اصغر سیفی صاحب

۔۔ ﷽۔۔
۔۔ اللهم صلی علی محمدؐﷺ و آل محمدؑ ﷺ۔۔

ہماری گفتگو اس سے پہلے توبہ میں ہوئی ہے کہ انسان جو ہے وہ کیسے توبہ کرے۔ اور توبہ کی جو کیفیتیں ہیں اس پر گفتگو ہوئی ہے اور اب اس کے بعد والے مرحلے پہ انشاءاللہ ہم گفتگو کریں گے

ایک شخص جو توبہ کر چکا ہے تو اب توبہ کے بعد انسان کی جو زندگی ہے وہ ایک نئی زندگی ہے اور اس سے پہلے اس نے جس طرح بھی وقت گزارا اس میں گناہ بھی تھے، زیادتیاں بھی تھیں کبھی کوئی نیک کام اور کبھی کوئی گناہ یعنی وہ اس طرح کی ایک زندگی گزارا تھا۔ اب جبکہ وہ حقائق کی طرف متوجہ ہوا ہے کہ ایک انسان کو ایک پاکیزہ زندگی گزارنی چاہیے تو وہ توبہ کر لیتا ہے۔

عرض کیا تھا کہ توبہ کی ایک نماز ہوتی ہے اور توبہ کے اعمال ہیں انجام دینے کے بعد اب ایک شخص جو ہے وہ ایک نئی زندگی شروع کر رہا ہے ۔ تو یہ نئی زندگی کس طرح کی شروع ہو۔ ؟

اس کے بارے میں علامہ ملکی تبریزیؒ فرماتے ہیں کہ وہ اپنی زندگی کو مشارطہ، مراقبہ اور محاسبہ کی شکل میں جاری کرے۔

یعنی! صبح اٹھ کر اپنے نفس سے اپنے اعضاء سے ایک شرط رکھے کیونکہ آپ نے اپنا سرمایہ اپنے اعضاء کے حوالے کرنا ہے۔ آپ کی آنکھ جو استعمال ہو رہی ہے، آپ کی زبان جو استعمال ہو رہی ہے، آپ کے جو ہاتھ پاؤں استعمال ہو رہے ہیں ۔ گویا آپ کے ساتھ آپ کے تمام اعضاء شریک ہیں اور اللہ نے آپ کو یہ عارضی طور پر دئیے ہوئے ہیں اور یہ ہمارے ذاتی نہیں ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ روزِ قیامت انہوں نے ہمارے خلاف گواہی دینی ہے ۔ یہ اعضاء اللہ کی مخلوقات ہیں جو ہمارے ساتھ ہیں۔

سرمایہ کیا ہے؟
سرمایہ ہماری عمر ہے یہ جو وقت ہمیں اللہ نے مہیا کیا ہے اور اعضاء شریک ہیں۔

ظاہر ہے انہوں نے اب یا اچھی چیزیں کسب کرنی ہیں یا بُری چیزیں۔

فرض کریں کہ میری آنکھ جو ہے وہ ایک مومن کی زیارت کرے گی، قرآن کی زیارت کرے گی یا کتبِ علم کی والدین کی تو یہ ثواب کسب کر رہی ہے۔
لیکن!

اگر یہی آنکھ نامحرم کو دیکھ رہی ہے یا غلط چیزوں کو دیکھ رہی ہے جو نہیں دیکھنی چاہیے تو یہ کیا ہے گناہ لے رہی ہے۔

جیسے کہتے ہیں انسان کاروبار میں کسی شریک کے ساتھ
مل کر کاروبار کرتا ہے، تو یا شریک اس کے لیے منافع جمع کرتا ہے یا پھر اس کے نقصان اور گھاٹے کا تو شریک کے ساتھ شرط قائم کریں کہ نقصان نہیں ہونے دینا چاہیے اور اپنے اعضاءجو آپ کی زندگی کا سرمایہ عمر کو استعمال کرنے میں شریک ہیں تو فرماتے ہیں کہ:

صبح اٹھ کر جب آپ اپنی نماز پڑھ لیں اور اپنی عبادت سے فارغ ہو جائیں تو اپنے اعضاء کے ساتھ گفتگو کریں کہ آپ لوگ جو ہیں میرے ساتھ ہیں آپ بھی اللہ کی مخلوق ہیں تو آج کا یہ دن جو ہے یہ میرا سرمایہ ہے اور پتہ نہیں اس کے بعد والا دن میں نے دیکھنا ہے یا نہیں۔
سبحان اللہ!

کہتے ہیں جب انسان مرتا ہے تو اللہ سے ایک دن بھی مانگتا ہےکہ مجھے ایک دن دے تاکہ میں عملِ صالح کروں۔

یہ دن بہت اہم ہے ہماری زندگی میں آنے والا ہر دن بہت اہم ہے یہ سرمایہ ہے اور یہ ایسے ہے جیسے آپ نےکسی کو پیسہ دے رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ کاروبار کرو اور وہ پیسہ اس کا ذاتی نہیں ہے آپ اسے دینے ہیں کہ اس پیسے سے پیسہ بناو اور اس سے منافع لو۔

تو یہ دین اللہ نے ہمیں بطور سرمایہ دیا ہے کہ ہم اس سے اپنے نامہ اعمال کے لیے ثواب کمائیں اور ہمارے نامہ اعمال میں اس سے ثواب درج ہو۔

مشارطہ:
مصنف فرماتے ہیں کہ مشارطہ کرو کہ پورا دن ہم نے صرف ثواب کمانا ہے اپنے اعضاء کے ساتھ شرط رکھیں اس شرط کے ساتھ یہ جو وقت ہے جو مجھے آج ملا ہے چوبیس گھنٹے کا میں آپ کے سپرد کر رہا ہوں کہ آپ نے میرے ساتھ ثواب میں شریک ہونا ہے۔ اور ہم نے جو ہے نہ میرے دل و دماغ نے اور نہ آپ اعضاء نے جو ہے ہمیں گناہ کی طرف نہیں لے کے جانا ہے اسے مشارطہ کہتے ہیں۔

مراقبہ :
مراقبہ یعنی! پورا دن اپنے اعضاء پہ نظر رکھنی ہے۔ اور اگر محسوس کر رہے ہونگے کہ گناہ کی جانب جا رہے ہیں تو فوراً اپنے آپ کو ہاتھ، پاؤں، آنکھ اور ان چیزوں کو روکنے کی کوشش کرنی ہے۔

محاسبہ:
رات کو سونے سے پہنے محاسبہ ہے کہ آج میں نے کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے؟ آج میرے نامہ اعمال میں کتنے ثواب آئے اور کتنے گناہ آئے؟

اسی طرح جیسے انسان رات کو بیٹھ کر اپنے پیسوں کا حساب کرتا ہے کہ میرے پاس کتنے رہ گئے ہیں کتنے خرچ ہو گئے ہیں اسی طرح اپنے پورے دن میں کمائے ہوئے ثواب اور پورے دن میں خدا نہ کریں اگر کوئی گناہ ہے ان کا بھی حساب کرے اور گناہوں کی توبہ کریں اور اگر یہ توبہ کسی سے معافی مانگنے پر موقوف ہے تو اسے معافی مانگے اور معذرت خواہی کرے اور رات کو پاکیزہ ہو کے سوئے اور رات کے سونے سے پہلے اپنے اعمال

انجام دے اور اس کے بعد سوئے ۔

سید احمد فہریؒ کی شرح:
یہ آغا ملکی تبریزیؒ نے کلی طور پر بات کی چونکہ یہ بات بہت کلی تھی تو اس کتاب لقاء اللہ کے ایک شارح ہیں۔ جنہوں نے اس کی شرح کی سید احمد فہری انہوں نے اس کو تھوڑا سا تفصیل سے بیان کیا کہ مشارطہ کس طرح ہو اور مراقبہ کس طرح ہو اور کس طرح محاسبہ ہو

فرماتے ہیں کہ:
اصل میں توبہ کے بعد ایک شخص کا یہ جو سیر و سلوک ہے اور فرق نہیں پڑتا کہ یہ چاہے ایک عام آدمی ہو یا پھر ایک عالم ہو۔

انہوں نے اس کی پانچ حالتیں بیان کیں ہیں۔ اور فرماتے ہیں کہ یہ تین حالتیں نہیں بلکہ پانچ حالتیں ہیں۔

مشارطہ
مراقبہ
محاسبہ
معاتبہ
معاقبہ

مشارطہ کیا ہے؟
فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنے شرکاء کے ساتھ مل کر کچھ شرائط طح کرنی ہے۔ اور ہمارے شرکا ہمارے سات اعضاء ہیں یہ جو ہمارے ساتھ گناہ کرنے یا ثواب لینے میں شریک ہوتے ہیں ۔ یعنی! آنکھ، ، کان ، زبان، شکم، ہاتھ ، پاؤں ، اور شرمگاہ۔ ان چیزوں سے یا ثواب ہو گا یا پھر گناہ کسب ہوگا۔

فرماتے ہیں کہ:
یہ جو سات چیزیں ہیں یہ آپ کی ذاتی چیزیں نہیں ہیں بلکہ اللہ نے آپ کو موقتاً دنیا میں عارضی طور پر دیں ہیں۔ تاکہ ان کے ساتھ مل کر آپ نے ثواب یا گناہ انجام دینا ہے یعنی! اگر جنت جانا ہے تو ثواب اکٹھا کرو اور خدا نہ کرے کوئی بھی قصد سے تو جہنم نہیں جاتا ۔

اور ہمیں بطور سرمایہ ہماری عمرِمبارک دی ہے یعنی یہ جو وقت دیا ہے بغیر کسی قید و شرط کے اسے ہمارے اختیار میں دیا ہے۔

جناب فہریؒ فرماتے ہیں کہ:
انسان جب اپنے بستر پر صبح اٹھتا ہے تو اپنے فریضہ صبح کو ادا کرنے کے بعد یعنی نماز صبح پڑھیں اور جو تعقیبات ہیں ان کو انجام دینے کے بعد، کچھ دیر کے لیے اپنے دل سے گفتگو کرنےکے لیے بیٹھیں اپنے اندر کا جو انسان ہے جو کہ اصل میں ان تمام چیزوں کے پیچھے ہے اور وہ اندر کا انسان کیونکہ یہ جو ظاہری جسم ہے یہ تو شرکاء ہیں اور یہ تو ہمارے یہ تو شریک ہیں لیکن! اندر کا انسان جو ہے اس سے کہے کہ میرے پاس صرف سرمایہ یہ عمر ہے کہ جو کسی وقت بھی ختم ہو سکتی ہے اور میں یہ نہیں چاہتا کہ یہ وقت میرے خلاف ختم ہو اور مجھے نقصان اور گھاٹے میں چھوڑ جائے۔
پس! آج کا دن یہ جو اللہ نے مجھے اس سونے کے بعد مہلت دی ہے۔

چونکہ! آپ دیکھیں کہ جب انسان سوتا ہے تو یہ جو سونا ہے یہ ہو سکتا ہے اس کا آخری وقت ہو۔

قرآن مجید کی آیہ مبارکہ میں ہم دیکھتے ہیں کہ:

سورہ الزمر 42
اَللَّـهُ يَتَوَفَّى الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِـهَا وَالَّتِىْ لَمْ تَمُتْ فِىْ مَنَامِهَا ۖ فَيُمْسِكُ الَّتِىْ قَضٰى عَلَيْـهَا الْمَوْتَ وَيُـرْسِلُ الْاُخْرٰٓى اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ اِنَّ فِىْ ذٰلِكَ لَاٰيَاتٍ لِّـقَوْمٍ يَّتَفَكَّـرُوْنَ (42)
اللہ ہی جانوں کو ان کی موت کے وقت قبض کرتا ہے اور ان جانوں کو بھی جن کی موت ان کے سونے کے وقت نہیں آئی، پھر ان جانوں کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم فرما چکا ہے اور باقی جانوں کو ایک میعاد معین تک بھیج دیتا ہے، بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں۔

یہ آیت بتا رہی ہے کہ جب انسان جب سوتا ہے تو خدا نفوس کو یعنی! یہ جو اس کی جان ہے ، اس کی روح ہے ۔ وہ اپنے قبض میں کر لیتا ہے اور جس کا ٹائم ختم ہو چکا ہو۔ اسے خدا اپنے پاس رکھ لیتا ہے اور جس کا ابھی ٹائم باقی ہو اسے خدا واپس بھیج دیتا ہے۔
اللہ اکبر!

اب جناب فہریؒ فرماتے ہیں
کہ اے شخص یہ جو آپ صبح اٹھے ہیں اس کا مطلب ہے کہ آپ کو ابھی ایک اور دن زندگی کا میسر آچکا ہے اور ممکن ہے اس کے بعد میں جب سوئیں تو شاید آپ کی زندگی کا یہ دن باقی نہ ہو۔ تو اب جب آپ اٹھیں تو حد عقل آپ کے پاس حد عقل ایک سرمایہ آگیا ہے جو وقت کی صورت میں ہے اور آپ کو یہ سرمایہ استعمال کرنا ہے۔

ایک بہت بڑے عالم تھے،  انہوں نے بڑی اچھی بات کی البتہ یہاں کتاب لقاء اللہ میں یہ بات نہیں لکھی ہوئی ۔

وہ کہتے ہیں کہ میں نے جو حساب کیا کہ اللہ ہم سے کس چیز کا حساب لے گا۔ آیا کھانے پینے کا حساب لے گا؟ نہیں!

یہ پروردگار کریم کی سخاوت اوراس کی عظمت کے خلاف ہے۔

جیسے ہمارے گھر کوئی مہمان آئے یا ہم کسی کو بھی ویسے جا کے کھانا کھلا دیں تو آپ ان سے حساب لینے تو نہیں بیٹھیں گے ۔ انسان کی عظمت کے خلاف ہے اور ایک عام آدمی بھی یہ کام نہیں کرتا تو کجا خدا۔ تو خدا جو ہے وہ حلال چیزیں جو ہمیں کھلا پلا رہا ہے اس کا حساب نہیں لے گا حلال تو مباح ہیں۔ اللہ ہم سے ہمارے وقت کا حساب لے گا۔

سورہ زلزال میں پروردگار نے فرمایا کہ
فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْـرًا يَّرَهٝ (7)
پھر جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا۔
وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٝ (8)
اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا۔

یہاں ذرے سے مراد ذرہ وقت ہے یہ لمحہ ہے تو جناب فہریؒ فرماتے ہیں کہ اب آپ کے پاس ایک سرمایہ عمر ہے اور ایک وقت کا سرمایہ آ چکا ہے تو اب آپ اس سرمایہ کو کہاں صرف کریں گے ؟

اس میں اپنے ان سات اعضاء (آنکھ، زبان ،کان، شکم ، ہاتھ، پاؤں ، شرمگاہ) ان کے ساتھ بیٹھ کر ایک شرط قائم کہ اس سرمایہِ عمر کو اللہ کی اطاعت میں صرف کرنا ہے۔ اور عمل صالح انجام دینا ہے تاکہ جب میں دنیا سے جاؤں تو میرے پاس توشہ ِراہ ہو۔

فرماتے ہیں کہ:
انسان کے جو پورے دن کے چوبیس گھنٹے ہیں کہتے ہیں کہ روز محشر انسان کی ہر ساعت کا ایک صندوق لایا جائے گا ـ(ہر گھنٹے کا)

یہ روایت ہے کہ یہ جو گھنٹے ہیں یہ صندوق بنتے ہیں۔ ہم ایک گھنٹے میں بہت سارے عمل کرتے ہیں اگر ہم ہر ہر سیکنڈ کا حساب لگا لیں تو یا گناہ کر رہے ہیں یا ثواب کا کام کر رہے ہیں یا ضائع کر رہے ہیں۔ یعنی! نہ ثواب ہے نہ گناہ جیسے پیسہ ضائع ہو رہا ہے۔ جیسے یا عمر ضائع ہو رہی ہے یعنی نہ آپ کوئی ایسا کام کر رہے ہیں کہ جہنم جانا ہے نہ جنت یعنی وہ خالی ہے۔

کہتے ہیں:
جب انسان کے سامنے اس کی زندگی کے ہر ہر لمحے کا صندوق کھولا جائے گا ۔ مثلاً فرض کریں 26 اپریل 2025 بروز ہفتہ:
اُس دن کے بھی سارے صندوق لائیں جائیں گے۔

فرض کریں اس دن کے چوبیس صندوق آپ کے سامنے رکھے گئے۔

اب خدا کہے گا ایک ایک کر کے صندوق کھولو اور جب ایک صندوق پہلے گھنٹے کا کھولا گیا اور اس کے اندر جو ہیں آپ کی نمازیں ہو عبادتیں ہو آپ کی اطاعت ہو تو کہتے ہیں کہ وہ نور سے بھرا ہوگا اتنا اس کے اندر نور ہوگا کہ اگر اہل جہنم کے اندر وہ صندوق پھینکا جائے تو ان کے عذاب میں کمی ہو جائے گی۔

ہو سکتا جب اگلا صندوق کھولا جائے تو وہ گناہوں سے بھرا ہوگا اس ایک گھنٹے اس نے غیبتیں اور تہمتیں کی ہوں۔ جب اس کو جب کھولا جائے گا اس کے اندر اتنی آلودگی اور اتنی بدبو اور اتنی تاریکی ہوگی کہ اگرجنتیوں کی جنت میں جاکر رکھا دیا جاۓ۔ تو پورے اہل بہشت پریشان ہو جائیں گے کہ یہ کیا چیز لے آئے ہو۔

اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ ایک صندوق ایسا بھی ہو کہ جس میں جس میں انسان نے کوئی نہ عملِ خیر کیا ہو کہ جو بہشت جانے کا موجب ہو اور نہ عملِ بد کیا ہو کہ جو جہنم جانے کا موجب ہو کہتے ہیں وہ صندوق جب کھولے گا وہ خالی ہوگا تو کہتے ہیں اس صندوق کو دیکھ کر وہ جو شخص ہے وہ حسرت کھائے گا کاش! میرا یہ صندوق میری نیکیوں سے بھرا ہوتا ہے اس لئے کہتے ہیں کہ روزِ قیامت ایک ایسا بھی لمحہ ہوتا ہے ایک ایسا بھی وقت ہوتا ہے کہ جس میں شخص جو ہے وہ حسرت کھائے گا اس لئے روز قیامت کو یوم الحسرہ بھی کہا گیا ہے۔

سورہ مریم 39 میں پروردگار فرما رہا ہے کہ:
وَاَنْذِرْهُـمْ يَوْمَ الْحَسْـرَةِ اِذْ قُضِىَ الْاَمْرُ ۘ وَهُـمْ فِىْ غَفْلَـةٍ وَّهُـمْ لَا يُؤْمِنُـوْنَ (39)
اور انہیں حسرت کے دن سے ڈرا جس دن سارے معاملہ کا فیصلہ ہوگا، اور وہ غفلت میں ہیں اور ایمان نہیں لاتے۔

وَاَنْذِرْهُـمْ يَوْمَ الْحَسْـرَةِ
انسان کس چیز پر حسرت کھائے گا؟ کہ میرے پاس سرمایہ عمر تھا، وقت تھا لیکن وہ وقت میں نے ضائع کر دیا میں اس وقت میں نیکیاں کما سکتا تھا لیکن ! مجھ سے ضائع ہو گیا۔ لیکن آگے خدا کیا فرما رہا ہے

اِذْ قُضِىَ الْاَمْر
لیکن! وقت تمام ہوچکا ہے۔

سورہ التغابن کی آیت نمبر 9 میں پروردگار فرما رہا ہے
يَوْمَ يَجْـمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ ۖ ذٰلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ
جس دن تمہیں جمع ہونے کے دن جمع کرے گا، وہ دن ہار جیت کا ہے،

یعنی! اکثر لوگ گھاٹے میں ہوں گے۔

گھاٹے میں کیوں ہوں گے
یا جو ہر ہر گھنٹے کے ان کے صندوق کھل رہے ہیں یا وہ گناہوں سے بھرے ہوں گے یا پھر خالی ہوں گے۔ اور وہ حسرت کرے گا کہ کاش میں اس وقت کو نیکیوں میں صرف کرتا۔

استاد محترم علامہ علی اصغر سیفی صاحب یہاں اپنے ایک استاد کا ذکر فرماتے ہیں کہ وہ استاد محترم کہ خدا ان کو غریق رحمت فرمائے اپنے طالب علموں کو بلکہ عام لوگوں کو فرماتے تھے کہ اگر کوئی اور نیکی والا کام نہیں ملتا وضو کر کے بیٹھ جایا کرو کیونکہ انسان جو صرف وضو کر کے بیٹھا ہوا ہے چاہے کچھ بھی نہ بولے کوئی کام نہ کرے اُس کا وضو قربتاً اللہ جو وہ پاکی کی حالت میں بیٹھا یہی اُس کے لئے عبادت شمار ہوگی اور حالت وضو میں اس کی ہر سانس تسبیح شمار ہوگی۔

اس لئے کہتے ہیں رات کو سوتے وقت کیونکہ رات کے وقت سونے کے گھنٹے جو چھ یا سات ہیں ان میں بھی ہمارے صندوق بننے ہیں تو چاہیے کہ انسان باوضو ہو کر سوئے اور سونے سے پہلے والی جو تھوڑی سی دعائیں ہیں اور چند ایک آیات ہیں وہ پڑھ کے سوئے جیسا کہ: آیت الکرسی، سورہ توحید ، چند دعائیں اور
اللهم اغفرلي وللمؤمنين والمؤمنات والمسلمين والمسلمات
چند ایک مرتبہ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِٱللَّهِ ٱلْعَلِيِّ ٱلْعَظِيمِ

چند ایک آیات چند ایک دعائیں جو مفاتیح الجنان میں ہیں یا آپ کی تعقیبات میں لکھی ہیں قبلہ رو ہو کے پڑھیں اور باوضو ہو کر سوئیں۔

تو یہ سوتے وقت اس کے پانچ یا چھے گھنٹے گزریں گے تو یہ چھے صندوق جو اس کے بنیں گے روزِ قیامت یہ صندوق جو ہے وہ نور سے بھرے ہوں گے اور یہ صندوق جو ہے وہ ثواب سے بھرے ہوں گے اور اس کا سونا جو ہے وہ عبادت میں لکھا جائے گا۔

فرماتے ہیں کہ آپ کا ہر ہر گھنٹہ جو ہے یا وہ اطاعت میں گزرنا ہے یا وہ خالی گزرنا ہے کہ جس پر بعد میں حسرت کھانی ہے یا گناہ اپنے اعضاء کے ساتھ مشارطہ کریں۔

ہماری گفتگو مشارطہ میں ہو رہی ہے کہ
صبح اٹھ کر اپنے اعضاء سے مشارطہ کریں کہ آج میرے پاس جو ہیں جو میں سونے سے پہلے میرے پاس بارہ گھنٹے ہیں۔ اے میرے اعضاء اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں میرا ساتھ دینا ہے ہم نے یہ جو ٹائم ہے آٹھ گھنٹے خدا کی بارگاہ میں یہ صرف ثواب اکٹھا کرنا ہے یہ منافع اکٹھا کرنا ہے پرافٹ اکٹھا کرنا ہے اور کوئی ایسا کام نہیں کرنا کہ جس سے خطا ہو پھر اپنے اعضاء سے گفتگو کریں۔

جناب فہرؒی کہتے ہیں کہ:
اپنی آنکھ کو کہیں خبردار ! ایسی چیز نہیں دیکھنی جس پر اللہ جو ہے وہ ناراض ہو ۔ خدا غضبناک ہو مثلاً نامحرم کو نہیں دیکھنا کسی مومن کو حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھنا، کسی کو طنز کی نگاہ سے نہیں دیکھنا اس آنکھ سے کسی پر برا اشارہ نہیں کرنا۔ اب آنکھ کے معلوم نہیں کتنے ہی گناہ ہیں کوئی ایسی چیز نہیں دیکھنی جس کو دیکھنے پر خدا راضی نہ ہو۔

اب تو بہت مسئلہ ہو گیا ہے ہمارے لیے آج کل کے دور میں یہ موبائل انٹرنیٹ نے آکے دنیا کو بے چین کر دیا ہے اور بچوں کی تربیت، ہمارے جوانوں کی تربیت یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ کہتے ہیں کہ اب لوگوں نے اپنے گھروں کے گرد جو دیواریں بنائی ہیں وہ بے اثر ہو گئی ہیں۔ کیونکہ ! لوگ دیواریں اس لئے بناتے تھے کہ کوئی چیز آکے نقصان نہ دے لیکن! اب تو انٹرنیٹ نے ہر چیز کو گھر میں وارد کر دیا ہے۔ اور لحاف کے نیچے یہ بچہ ، جوان ، بڑا سب خراب ہو رہے ہیں۔ یعنی! اب تو بچے اور بڑے میں کوئی فرق ہی نہیں رہا۔ سب کے سب خراب ہو رہے ہیں۔ اب ایمان کو بچانا اور اپنی فطری پاکیزہ زندگی بچانی سخت ہو گئی ہے۔ اب جہادِ سخت ہے۔ سہولتیں بھی بڑھ رہی ہیں اور ہم نے اپنی آنکھ سے مشارطہ کرنا ہے کہ تمام حرام چیزوں سے خود کو بچانا ہے۔

اسی طرح زبان کے ساتھ بھی ایک شرط قائم کرنی ہے کہ غیبت نہیں کرنی، جھوٹ نہیں بولنا ،تہمت نہیں لگانی، کسی کے مذمت نہیں کرنی، کسی کو فوش نہیں دینا، (یعنی کسی کو گالی نہیں دینی) کسی کے عیب جوئی نہیں کرنی، اور جتنے بھی زبان کے گناہ ہیں وہ انجام نہیں دینے۔

کہتے ہیں کہ زبان کے گناہ بہت زیادہ ہیں۔ ایسا مذاق نہیں کرنا کہ کسی دوسرےکے دل کو ٹھیس پہنچے، زبان سے کوئی ایسے کنائے طنز نہیں کرنے۔

کہتے ہیں کہ ہماری اخلاق کی کتابوں میں تقریباً بیس قسم کے گناہ صرف زبان سے متعلق ہیں۔ اس میں چاپلوسی بھی ہے اس کے اندر بہت ساری چیزیں ہیں اس کے اندر زبان کے منافقت والے جو رویے بھی ہیں یعنی! بہت ساری چیزیں ہیں۔

اسی طرح کہتے ہیں اپنے باقی اعضاء سے شرط کریں۔

روایت یہ ہے کہ جہنم کے سات در ہیں اور ہر در ہمارے ایک عضو کے ساتھ مخصوص ہے۔ یعنی آنکھوں کے گناہ والے کا در جدا ہے، زبان کے گناہ والے کا در جدا ہے، کانوں، شکم ، ہاتھ پاؤں، شرمگاہ یعنی ہر ہر اعضا کے گناہ کا در جدا ہے۔

سورہ الحجر میں پروردگار فرما رہا ہے کہ:
لَـهَا سَبْعَةُ اَبْوَابٍۖ لِّكُلِّ بَابٍ مِّنْـهُـمْ جُزْءٌ مَّقْسُوْمٌ (44) 
اس کے سات دروازے ہیں، ہر دروازے کے لیے ان کے الگ الگ حصے ہیں۔

بعض جہنمیوں کے لئے تو شاید ایک ہی باب کھلے گا اور بعض کے لئے ہو سکتا ساتوں دروازے سات کے سات دروازے ان کے لئے کھلے جائیں
اللہ اکبر!

کسی نے سوال کیا کہ یہ جو آپ مشارطہ کہتے ہیں کہ صبح اٹھ کر اپنے اعضاء سے گفتگو کرنی یہ آیا ہر روز انجام دینا ضروری ہے؟

کہتے ہیں اس وقت تک انجام دے اتنے دن اتنے مہینے جب تک آپ کے اعضاء کو اللہ کی اطاعت کی عادت نہ پڑ جائے جب آپ مطمئن ہو جائیں گے کہ اب میرے اعضاء خدا کی سرکشی نہیں کریں گے اب یہ اللہ کی اطاعت کرتے ہیں اتنی دیر تک ان کے ساتھ مشارطہ کریں۔

سوال :
کیا ہم نے کبھی اپنے اعضاء سے آج تک گفتگو کی ہے۔
یقیناً ہم نے آج تک ایسا نہیں کیا۔

مشارطہ ضروری ہے یعنی! اپنے اعضاء سے گفتگو کیونکہ روز قیامت انہیں اعضاء نے ہمارے خلاف یا پھر ہمارے حق میں بولنا ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہو رہا ہے کہ:
روز قیامت انسان کے اعضاء جو ہیں وہ خود انسان کے خلاف بولیں گے۔

تو اس کا مطلب یہ ہے یہ مستقل مخلوقات ہیں جو اللہ نے آپ کے اختیار میں دی ہوئی ہیں کہ آپ ان کے ذریعے ثواب کمائیں اور لوگ ان کے ذریعے جو ہیں وہ یا وقت ضائع کرتے ہیں یا گناہ کماتے ہیں۔

تو بس، یہ مخلوقات ہیں یہی ہاتھ روز قیامت انسان کے خلاف گواہی بھی دے سکتا ہے اور اس کے موافق بھی چل سکتا ہے۔

جس طرح کہتے ہیں کہ قرآن مجید جو ہے وہ بھی روز قیامت انسان کے خلاف گواہی دے گا میں اس کے گھر میں تھا لیکن اس نے کبھی مجھے پڑھا ہی نہیں ہے، میری تلاوت ہی نہیں کی مجھے کبھی کھولا ہی نہیں ہے کچھ لوگ جو ہیں بہت شوقین ہوتے ہیں مختلف خوبصورت نفیس قرآن خریدنے کے اتنے ہی خریدیں جتنے آپ پڑھ سکیں تلاوت کر سکیں جیسے کچھ لوگوں کو کتابیں لینے کی عادت ہے اتنی کتابیں لیں ورنہ یہی کتابیں کل روز قیامت سب سے بڑھ کے شکایت کریں گی ۔ کہ اس نے لے کر اسراف کیا نہ خود پڑھا نہ کسی کو پڑھنے دیا اور اگر کسی سے کتاب لیں تو اسے واپس کریں۔

تو پروردگار فرما رہا ہے کہ یہ سارے اعضاء جو ہیں مجرمین کے خلاف حتی جلد اس کی ہمارا جسم یہ پروردگار کی مخلوق ہے امانتِ الہی ہمارے پاس ہم نے خود دنیا میں دیکھ رہے ہیں کہ لوگ جسموں کو دنیا میں چھوڑ کر جا رہے ہیں یا نہیں جا رہے ہیں۔ آخر یہ جنازے جو ہم دفن کر رہے ہیں وہ شخص جو دفن ہو رہا اس شخص کی روح تو عالمِ برزخ کی میں ہے تو وہ جو اس کا جسد تھا وہ جو اللہ نے اسے دیا ہوا تھا اس دنیا کی چند سالہ زندگی کے لیے بعنوان امانت اس کو ہم دفن کرتے ہیں۔

فرماتے ہیں کہ :  اس وقت تک اپنے نفس سے مشارطہ کریں جب تک اسے عادت نہ ہو جائے اطاعت کی اور اگر آپ کہتے ہیں کہ وہ احتمال نہیں دیتے سرکشی کا (یعنی اب وہ سرکشی نہیں کرے گا)اس وقت پھر تلقین ضروری نہیں کیونکہ پھر آپ کا نفس خود بخود عادی ہوگیا ہے۔

لیکن! جب بھی کوئی نیا کوئی مسئلہ شروع ہو کوئی نئی چیز آ جاتی ہے مارکیٹ میں جیسے آج کل نئے نئے موبائل آ رہے ہیں پھر آپ کو احتمال ہو جائے کہ ہو سکتا ہے اس کے اندر کچھ چند ایسی چیزیں آگئی ہیں کہ جس سے میرا نفس دوبارہ جو ہے وہ سرکشی کرے گا پھر اپنے نفس کے ساتھ مشارطہ کریں۔

وَذَكَّرْ فَإِنَّ ذِكْرًا تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَ
کیونکہ یہ جو ہمارے اعضاء ہیں یہ بھی مومنین ہیں اور یہ بھی حالت ایمان رکھتے ہیں ان کے ساتھ مشارطہ کریں۔

اس کے بعد اگلا مرحلہ مراقبہ کا ہے۔ جو انشاءاللہ بیان ہوگا۔ لیکن آغاز جو ہے توبہ کے بعد ایک پاک شخص جس نے توبہ کر لی ہے اس کا آغاز جو ہے وہ مشارطہ سے ہے۔

کب تک ہم ایسی زندگی گزاریں گےکہ جس زندگی کا ہمیں خود بھی نہیں پتا چل رہا کہ ہم کس وقت کہاں جا رہے ہیں ہمیں نہیں پتہ چلتا۔

اگر آج ہم سب غور کریں تو معلوم نہیں تھا سے دس سال پہلے آپ کو پتا ہی نہیں تھا کہ آپ نے قم میں آنا ہے اور اس طرح ایک مدرسہ میں بیٹھ کرپڑھنا ہےاور یہ زندگی گزارنی ہے اور پانچ سال دس سال بعد بھی آپ کو پتا نہیں ہے کہ آپ کس مقام پر ہوں گے ہمیں ایک آنے والے کل کا بھی پتا نہیں ہے کہ کل کا سورج ہم میں کسی نے دیکھنا یا نہیں دیکھنا۔ امام زمانؑ عج کا سرباز بننا ایک بہت بڑی سعادت ہے۔

مشارطہ ایک مومن کی زندگی کا آغاز ہے

جاری ہے۔۔۔۔۔

پروردگار ہمیں توفیق دے کہ ہم ان لوگوں میں قرار پائیں جو توبہ کرنے والے ہیں اور جو توشہ راہ لے کر جائیں اور اعمال صالح سے بھرے صندوق لے کر جائیں۔ ہمارے اعمال کو اطاعت والے اعمال سے بھرے اور اہل بہشت والوں میں سے قرار دے اور محمدؐﷺ وآل محمدؑﷺ کے پیروکاروں میں قرار دے۔
الہیٰ آمین!۔

والسلام
عالمی مرکز مہدویت_ قم ایران

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *