درس لقاءاللہ:21
آیت اللہ میرزا جواد ملکی تبریزیؒ
موضوع: توبہ کیسے شروع کی جائے
موضوع سخن کتاب شریف لقاءاللہ ہے جسے آیت اللہ میرزا جواد ملکی تبریزیؒ نے لکھا ہے اور سلسلہ گفتگو توبہ ہے۔
گذشتہ درس میں بیان ہوا تھا کہ جس شخص نے بھی توبہ کرنی ہے اس کی توبہ چھ مراحل پر مشتمل ہو۔
اب بعض لوگ کہتے ہیں کہ جیسا کہ آپ نے کہا کہ وہ لذت جو اس شخص نے گناہ سے لی تھی اس لذت کے عوض میں اپنے آپ کو عبادتوں کی زحمت اور رنج دے یہاں اس سے کیا مراد ہے؟
انسان جو حقیقی معنوں میں ان برائیوں اور گناہوں کے جو نتائج ہیں کہ کیا کچھ اس نے اپنے بدن اور روح پر اکھٹا کیا ہوا ہے اور اگر وہ ان آلودگیوں کو جان لے اور پہچان لے۔ مثلاً اگر وہ اس بات پر یقین پیدا کرے کہ میں جو مال یتیم کھا رہا ہوں گویا میں آگ کھا رہا ہوں اور یہ آگ اسی طرح میرے بدن میں موجود ہے اور جب انسان مر جائے تو یہی آگ شعلہ ور ہوجاتی ہے اور اس کے پورے بدن کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے اور اس کی روح کو جو کچھ بھی اس کی حقیقت ہے اسے پھر یہ آگ جلاتی رہتی ہے۔ اگر انسان ان آلودگیوں اور ان گناہوں کے عذاب کو سمجھے اور پڑھے تو پھر وہ حقیقی معنوں میں پشیمان ہوگا اور کوشش کرے گا کہ وہ جلد ہی ان آلودگیوں سے چھٹکارا حاصل کرے کہ جنہوں نے کل قبر اور جہنم کی آگ بننا ہے۔
جب وہ اس نکتے کی جانب متوجہ ہوگا کہ ان آلودگیوں کو ختم کرنے میں کتنا لطف ہے اور پروردگار نے اس کے اندر کتنی برکات رکھیں ہوئیں ہیں تو پھر وہ شوق کے ساتھ بڑھے گا اور اس آگ کو اپنے اندر سے بجھائے گا۔ اور اس کی خاطر وہ سختی بھی برداشت کرے گا تاکہ اس کے اندر کی آلودگی ختم ہو اور اس کے اندر کی آگ بجھ جائے۔
اب اس سے بڑھ کر اور کیا لذت ہو سکتی ہے کہ پروردگار فرما رہا ہے کہ:
اگر کوئی سچے دل سے توبہ کرے تو وہ گناہوں کو کئی برابر نیکیوں میں بدل دے گا۔
مبدل السیئات باضعافھا من الحسنات
اور ادھر خداوند یہ بھی فرما رہا ہے کہ:
ان اللہ یحب التوابین
اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کو پسند بھی کرتا ہے ان سے محبت کرتا ہے۔
اب اس سے بڑھ کر کیا مقام ہوسکتا ہے کہ انسان توبہ کرتے ہوئے اپنے وجود کو جہنم کی آگ سے پاک کرتے ہوئے ساتھ ساتھ اللہ کا مقام محبت بھی حاصل کر لے اور جب انسان مقام محبت حاصل کر لیتا ہے تو پھر اللہ حجابات ہٹاتا ہے اور اپنے قرب میں کہ جسے لقاءاللہ کہتے ہیں اس سے اللہ اسے سرفراز کرتا ہے اور یہ یہ سارے کام اور سیروسلوک اور عرفانی فیض توبہ سے شروع ہوتے ہیں جو صدق دل سے ہو۔ ( اتوب الی اللہ) ۔
عارفِ کامل اور الہیٰ ربانی شخصیت آیت اللہ محمد بہاری ہمدانیؒ جو کہ آیت اللہ میرزا جواد ملکی تبریزیؒ کے ہم درس تھے اور ان کے استاد مرحوم آخوند مُلا حسین ہمدانیؒ تھے ۔
آیت اللہ محمد بہاری ہمدانیؒ بہت بڑی ہستی تھے صاحب کرامات عالیہ کے حامل تھے۔ انہوں نے توبہ کے حوالے سے فرمایا کہ:
یہ جو ہم توبہ کے بارے میں بیان کرتے ہیں اور اصرار کرتے ہیں کہ آپ راہ توبہ پر چلیں تو آپ کے ذہن میں ہونا چاہیے کہ حقیقیت میں خدا اس وقت توبہ کو قبول کرتا ہے جب انسان اپنی آنکھوں کے آنسوؤں سے اپنے دل پر پڑی کثافتوں کو دھوتا ہے۔
جتنی ندامت کی حرارت زیادہ ہوگی اتنی گناہوں کی بخشش زیادہ ہوگی۔ جتنا آپ نے گناہ کا مزہ لیا ہے اتنی آپ ندامت کی زحمت یعنی رنج و گریہ انجام دیں تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے ان کے گناہوں کو نیکیوں میں بدل دے۔ یعنی یہ توبہ دل سے ہو اور ظاہری نہ ہو۔
پھر انہوں نے اسرائیل کے ایک پیغمبرؑ کا قصہ بیان کیا۔
فرماتے ہیں کہ:
بنی اسرائیل کے ایک پیغمبرؑ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سوال کیا کہ اے پروردگارا ! تیرا ایک بندہ ہے جو کئی سالوں سے تیری عبادت میں مشغول ہے پہلے وہ گناہگار تھا لیکن اب اس نے توبہ کر لی ہے اور دن رات تیری عبادت میں مشغول ہے تو آیا تو نے اس کی توبہ قبول کر لی ہے اور اسے بخش دیا ہے۔
تو اللہ تعالیٰ کا جواب آیا:
کہ مجھے اپنی عزت کی قسم کہ اگراس کے حق میں تمام اہل آسمان اور زمین والے شفاعت بھی کریں تو میں اس کی توبہ قبول نہیں کروں گا۔ کیونکہ جن گناہوں سے اس نے توبہ کی تھی ان کا مزا ابھی بھی اس کے دل میں ہے اور جب تک وہ مزا اس کے دل سے صاف نہیں ہوتا میں اس کی توبہ قبول نہیں کروں گا۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ توبہ تو کرتے ہیں لیکن کچھ عرصے بعد دوبارہ گناہ کرتے ہیں کیونکہ یہ جو مزا دل میں ہوتا ہے وہ ان کو اس گناہ کی جانب کھینچتا ہوا لے جائے گا۔ توبہ اس وقت ہو گی کہ جب اس گناہ کا مزا تلخی اور ندامت میں بدل جائے۔ اسی لیے تو امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں کہ:
وہ گوشت جو تمھارے بدن کا حرام اشیاء سے بنا ہے وہ گھل جائے کیونکہ اس کے ساتھ گناہ ملے ہوئے ہیں اور پھر دوبارہ صحیح گوشت اگنا چاہیے۔
مراد یہ ہے کہ انسان دل و جان سے گناہ کو ترک کرنے کا ارادہ کرے۔ اور جو اس کے واجبات ہیں اس کو انجام دے اور مسلسل اسی کوشش میں لگا رہے یہاں تک کہ اسے موت آجائے۔
مثلاً وہ دیکھے کہ قبل از بالغ ہونے کے اب تک جو کچھ اسے یاد آرہا ہے جیسے کس کس کا مال کھایا ہے تو اس کے مالکان یا وارثان کو واپس کرے اور اگر واپس نہیں کر سکتا تو اس کے مالکان سے جا کر معافی مانگے کہ وہ اسے بخش دیں اور اگر اس نے کسی کو اذیت دی ہے تو اس سے بھی جا کر معافی مانگے اور اگر وہ موجود نہیں ہے تو پھر اللہ سے معافی مانگے اور صدقہ اور خیرات دے۔ اسی طرح جو اپنی نمازیں ہیں جو نہیں پڑھیں اگر یاد نہیں تو کم از کم اتنی نمازیں پڑھے اور اتنے روزے رکھے کہ یقین ہوجائے کہ ادا ہو گئے ہیں۔ زکوۃٰ و خمس جو اب تک ادا نہیں کیا تو ادا کرے۔
چونکہ دنیا کی زندگی کسی بھی وقت ختم ہو سکتی ہے اور انسان ابدی عذاب میں گرفتار ہو سکتا ہے۔
امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں کہ استغفار کے چھ معنی اور چھ مرحلے ہیں۔
جب بھی آپ صحیح معنوں میں توبہ کریں اور اپنے واجبات ادا کریں اور اپنے قدم صحیح معنوں میں اٹھائیں تو جناب محمد بہاری ہمدانیؒ فرماتے ہیں کہ:
ہر عمل خیر سے قبل صدقہ دیں چاہے تھوڑا ہی کیوں نہ ہو لیکن کوشش کریں کہ خفیہ دیں کیونکہ صدقہ خفیہ اللہ کے غضب کو رحمت میں بدلتا ہے۔ خدا کے غضب اور غصے کی حالت خاموش ہوجاتی ہے اور انسان اللہ کی رحمت و لطف و کرم کو پاتا ہے۔
فرماتے ہیں کہ:
انسان کو چاہیے کہ قبل از توبہ غسل توبہ کو انجام دے۔ اور اگر تو مرد ہے تو کسی بیابان صحرا میں چلا جائے اور اگر کوئی خاتون ہے تو وہ اکیلی خلوت میں زمین پر بیٹھے اور اپنے ایک ایک گناہ کو زبان پر لائے اور اللہ سے معافی مانگے اور کہے کہ میرے پروردگارا! میں نے فلاں گناہ فلاں مقام اور فلاں وقت پر انجام دیا اور تو دیکھ رہا تھا۔ تو چاہتا تو اسی وقت مجھے ہلاک کر دیتا کہ تو حلیم ہے اور تو نے مجھے وقت دیا کہ میں اپنے گناہوں پر پشیمان ہو جاؤں اور واپس آجاؤ۔ پھر گریہ کرے اور اپنے آنسوؤں سے اپنے گناہوں کی کثافت کو دھوئے اور پھر یہاں سے آغاز ہوگا اور پھر پروردگار اس پر اپنی نظر رحمت کرے گا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقیقی معنوں میں توبہ کی توفیق دے اور پروردگار ہمیں توبہ کرنے والوں میں سے قرار دے اور ہمیں اتنی مہلت دے کہ ہم دنیا سے توبہ کر کے جائیں۔ اگر ہم قبر والوں سے پوچھیں کہ ان کی خواہش کیا ہے تو وہ کہیں گے کہ ہمیں کاش کچھ لمحے کے لیے دنیا میں آنے دیا جائے تاکہ ہم صدق دل سے توبہ کر سکیں۔ اور توبہ کرنے والوں میں قرار پائیں۔
آمین۔
والسلام
عالمی مرکز مہدویت قم ایران۔