تازہ ترین پوسٹس

درس لقاءاللہ: 29_ موضوع:نئی زندگی اور اولیاء کے واقعات، کون سے مسائل پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے؟

کتاب لقاء اللہ سیر و سلوک
(آیت اللہ العظمی میرزا جواد ملکی تبریزی رح)

درس لقاءاللہ 29
نکات: نئی زندگی اور اولیاء کے واقعات
کون سے مسائل پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے؟

استاد محترم علامہ آغا علی اصغر سیفی صاحب

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
اللھم صلی علی محمدؐﷺ و آل محمدؑ ﷺ

موضوع سخن کتاب شریف لقاء اللہ ہے اور ہم سلسلہ گفتگو میں یہاں پہنچے کہ ایک شخص جو توبہ کر چکا ہو اور اب ایک نئی پاکیزہ زندگی کا آغاز کر رہا ہو تو اسے یہ چاہیے کہ وہ چار چیزوں کے ساتھ اپنی مومنانہ اور پاکیزہ زندگی کو شروع کرے اور وہ چار چیزیں کیا ہیں:
مشارطہ
مراقبہ
محاسبہ
معاتبہ

مشارطہ کیا ہے ؟؟
گذشتہ درس میں ہم نے مشارطہ پر گفتگو کی تھی۔
مشارطہ یعنی اپنے جو اعضاء خمسہ ہیں ان کو مشروط کرے ، پابند کرے کہ اب وہ گناہ نہ کرے یعنی آنکھ کو ، کان کو اسی طرح جو لمس کے اعضاء ہیں جیسے ہاتھ ہیں پاؤں ہیں اسی طرح جو ہے شکم ہے اور شہوات کا جو مرکز ہے جنسی اعضاء یعنی وہ اعضاء جن کے ذریعے گناہ ہوتا ہے ان اعضاء کو پابند کرنا مشارطہ کہلاتا ہے۔ اور کہتے ہیں کہ مومن کا دن مشارطہ سے شروع ہوتا ہے۔ اور یہاں سے اس کے کلمات کا آغاز ہوتا ہے۔

سُبُّوحٌ قُدُّوسٌ، رَبُّ الْمَلَائِكَةِ وَالرُّوحِ

ایک مومن پروردگار کو یاد کرتا ہوا سوتا ہے اور یاد کرتا ہوا اٹھتا ہے۔

یہ اصل انسان کی پاکیزہ زندگی ہے اور اب جب وہ صبح اٹھا نماز شب پڑھی ، نماز فجر پڑھی ، تلاوت قرآن کی اور اس کے ساتھ دعائے عہد امام زمانؑ عج کے ساتھ ایک عہد و پیمان باندھا یہ ایک طالب علم کے، مومن کے روز مرہ کے اعمال ہونے چاہئے۔

چونکہ اب اس نے پورا دن گزارنا ہے آپ گھر میں ہیں ، ھاسٹل میں ہیں یا آپ جہاں بھی ہیں آپ نے بالآخر باہر نکلنا ہے اور پورا دن لوگوں سے گفتگو، لین دین کے معاملات کئی مسائل آپ ان مسائل کے ساتھ چلیں گے۔ تو اس سب چیزوں میں شروع سے ہی اپنے اعضاء کو پابند کرنا ہے۔

خبردار !
اپنے رب کی نافرمانی نہیں کرنی اور میں نے بھی نافرمانی نہیں ہونے دینی اور اس طریقے سے اپنے تمام اعضاء سے گفتگو کرنی ہے۔

یہاں ہو سکتا ہے، بعض لوگ کہیں کہ آیا لازمی ہے کہ یہ گفتگو ہر روز ہو؟؟

جب تک آپ کے اعضاء نیک کاموں کی اور گناہ نہ کرنے کی عادت نہ کر جائیں، اس وقت تک یہ تلقینات ضروری ہیں۔

آنکھ کی پاکیزگی:
جب آپ سمجھ چکے ہیں کہ میری آنکھ پاکیزہ ہے وہ نامحرم کی طرف نہیں اٹھتی اور سامنے اگر کوئی نامحرم دیکھتے ہیں تو فوراً بے اختیار آپ کی آنکھ جھک جاتی ہے ۔ اسی طرح موبائل آپ نے کھولا اور اس کے اندر ایک غلط تصویر یا ویڈیو آگی آپ فوراً اس کو بدل دیتے ہیں اور آپ کی اس پر نظر ٹھہرتی ہی نہیں بلکہ اس کے برعکس اگر کوئی اچھی تصویر، پوسٹ یا ویڈیو ہے جس سے آپ نصحیت لے سکتے ہیں کوئی دعا وغیرہ ہو تو اس پر آپ کی نظر ٹھہرتی ہے وگرنہ ٹھہرتی ہی نہیں اور اس عمل کو آنکھ کی پاکیزگی کہتے ہیں۔

کان کی پاکیزگی:
اگر آپ محفل میں ہوں اور وہاں اگر غلط گفتگو رہی ہے یعنی! غیبت ہو رہی ہے، یا غلط مذاق ہو رہا ہے یا آپ موبائل کھولتے ہیں اور وہاں کوئی ایسی چیز کوئی گانا ہے یا کوئی ایسی گفتگو ہے جو مناسب نہیں ہے۔ تو آپ کے کان اس کو پسند نہیں کر رہے آپ فوراً اس کو بدل رہے ہیں یا آپ کی زبان جو ہے وہ کسی محفل میں بیٹھے ہیں آپ کی زبان خود بخود عادت کر چکی ہے نہ جھوٹ بولتی ہے نہ تہمت نہ غیبت نہ کسی کے خلاف ایسا کوئی مذاق کریں۔ اور اسی لیے کہا جاتا ہے کہ یہ جو اولیاء لوگ ہیں اکثر ساکِت رہتے ہیں۔ ان کے ساکت رہنے کی وجہ یہ ہے کہ دنیا میں اکثر باتیں مناسب نہیں ہوتیں اور وہ ان میں شریک ہی نہیں ہوتے اور جب کوئی اچھی بات شروع ہوتی ہے تو فقط اس میں شریک ہوتے ہیں۔ وگرنہ سکوت اختیار کرتے ہیں۔

کہتے ہیں کہ بزرگانِ اولیاء پاکیزہ لوگوں کا ایک انداز ہوتا ہے ان کے اندر سکوت زیادہ ہےاور وہ صرف وہی بات کریں گے کہ جو کرنی چاہیے۔ ورنہ وہ ساکت رہتے ہیں اور ایسی محافل سے اٹھ جاتے ہیں کہ جہاں گناہ ہو رہا ہو۔

حتی میں نے بعض علماء کی زندگی عجیب دیکھی ہے کہ بعض مرتبہ علماء آپس میں ضروری بات کرکے باقی سکوت سے بیٹھے ہوتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اورتھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد خدا حافظی کرتے ہیں۔

یہی جو ہم ایک دوسرے کے پاس بیٹھتے ہیں اور ایک روحانی تعلق ہوتا ہے ایک دوسرے سے ہمارا۔ جیسے ہم والدین کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور ان کی زیارت کرتے ہیں لازمی نہیں کہ ہم کوئی گفتگو کریں۔ والدین گفتگو کر رہے ہوتے ہیں اور ہم فقط سن رہے ہوتے ہیں۔ اور ہم صرف وہی چیز بولتے ہیں جس سے ماں باپ کو سکون ہو اور ایسی بات سے اجتناب کرتے ہیں کہ جس سے ان کو دکھ ہو۔

اور یہ جو ہستیاں ہیں جو ہمارے بزرگان ہیں ان کی ایک حسرت ہوتی ہے کہ کوئی ہمارے پاس بیٹھے اور ہماری باتیں ہی سن لے۔ لیکن! آج کل کے جو جوان ہیں ان کو اس چیز کی پرواہ نہیں ہوتی۔ وہ تو ہم سے کچھ بھی نہیں مانگ رہے ہوتے بس! تھوڑا سا آپ سے وقت مانگ رہے ہوتے ہیں۔ جب آپ جاتے ہیں سلام دعا کر کے بیٹھ جاتے ہیں ان کا حال پوچھ لیتے ہیں ان کی گفتگو سن لیتے ہیں اور بعد میں جب آپ دیکھیں کہ کافی ہو گیا اور وہ بھی تھگ گئے ہیں تو ان سے اجازت لیتے ہیں تو یہی جو چند منٹ آپ نے جا کے ان کا درد دل ان کے زندگی کے تجربات اور ان کی کوئی پچھلے قصے کہانیاں سن لیے ہیں اس سے ان کو بڑا سکون مل جاتا ہے۔

لیکن !
آپ کا یہ چند منٹ کی قربانی دینا۔۔۔ بس، یہی خدمتِ والدین ہے۔

خبردار !
ان کی گفتگو میں انہیں روکنے کی کوشش یا انہیں جھڑکنے کی یا انہیں کوئی طعنہ دینے کی یا کوئی زخم زبان لگانے کی کوشش ہو تو اس سے بہتر سکوت ہے۔

اور اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اسی مقام پر میرا تبصرہ ان کو نا راحت کردے گا۔ تو آپ وہاں سکوت کو مقدم کریں اور ان کے احترام میں خاموش رہیں۔ کیونکہ! جب ہم بوڑھے ہوں گے تو تب ہمیں احساس ہوگا۔

ضرب المثل ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔

آج ہم ان کو وقت دیں گے تو کل ہمارے بچے پوتے نواسے نواسیاں بھی ہمیں ٹائم دیں گے ورنہ وہ نہیں دیں گے

یہ قانونِ قدرت ہے اور تکوینات کا قانون ہے کہ آپ اگردوسروں کے لئے زحمت کریں گے آپ کے لئے بھی کوئی زحمت کرے گا آپ دوسروں پر رحم کریں گے تو آپ پر بھی کوئی رحم کرے گا۔

دو عظیم بزرگان دین روح اللہ آیت اللہ خیمنیؒ اور آیت اللہ گلپایگانیؒ کا واقعہ:

ایک مرتبہ دونوں بزرگان تشریف لائے ، سلام ہوا اور احوال پرسی ہوئی پھر بیٹھے اور عالم یہ تھا کہ حالت سکوت تھا۔ اور اس کے بعد اجازت چاہی اور چلے گئے۔ کہتے ہیں کہ یہ سکوت بامعنیٰ ہے اور یہ وہی سکوت اولیاء ہے کہ جس کے اندر بہت زیادہ کلام ہے۔ آدمی اگر ایک بڑے شخص کے سامنے حالت سکوت میں بیٹھا ہے تو وہ پھر بھی اس کے لیے دعاگو ہے اور اس کی توفیقات کے لیے دعاگو ہے اور اس کو روحانی فیض دے رہا ہے اور اس سے روحانی فیض لے رہا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اسی طرح میں نے ہاتھ کہاں لگانا ہے، کس کے پاس چل کے جانا ہے، میرے ہاتھ سے کسی کو ضرر نہ پہنچے تو گناہ آلود کام نہ ہو، اسی طرح جو ہے شکم میں کون سی غذا جانی چاہیے۔

یہ سب سے مہم ترین مسئلہ ہے:
بعض مرتبہ لوگ کہتے ہیں کہ آغا صاحب ہم بہت سے نیک اعمال کر رہے ہیں جیسے : مجالس کر رہے ہیں، اعمال خیر کر رہے ہیں بہت سارے کام کر رہے ہیں، ہمارے گھر پہ علم لگا ہوا ہے ہمارے گھر میں مجالس ہوتی ہیں، بڑے بڑے علماء پڑھنے آتے ہیں، ہمارے گھر کے اندر بھی حدیثِ کساء ہوتی ہے ،حدیث توسل ہے، دعا کمیل ، دعا ندبہ ہے الغرض بہت کچھ ہوتا ہے۔

لیکن! گھروں سے لڑائیاں اور اختلافات ختم نہیں ہو رہے اور گھر میں بے برکتی ، بیماریاں ہیں۔ یہ سب چیزیں ختم ہو سکتی ہیں اگر لقمہ حلال ہوگا۔ کیونکہ اصل میں جو مال گھر میں آ رہا ہے اور یہ جو کھا رہے ہیں وہ پاک نہیں ہے وہ حلال نہیں ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ ہمارے گھر میں کمانے والا شخص حلال مال کماتا ہے اور غلط کام نہیں کرتا تو وہ ظاہراً تو حلال مال کما رہا ہوتا ہے لیکن! اس مال کا منافع لینا ٹھیک نہیں ہوتا۔

جیسا کہ کچھ کاروباری لوگ ہیں جو بڑے نیک بھی ہوتے ہیں جن کے پیشانیوں پر بڑے بڑے محراب بھی ہوتے ہیں۔ لیکن! کیا آپ کو یقین ہوتا ہے کہ یہ جب آپ کے ساتھ کوئی معاملہ کر رہے ہیں جھوٹ نہیں بول رہے ؟ کیونکہ! کاروباروں میں اکثر ستر یا اَسی فیصد یہی ہوتا ہے کہ جھوٹ بولا جاتا ہے تاکہ زیادہ منافع لیں۔

بس یہ ایک اہم ترین نکتہ ہے کہ جو لوگ مال کما رہے ہیں اور زبان استعمال ہو رہی ہیں ہاتھ پاؤں استعمال ہو رہے ہیں اور یہ جو مال آ رہا ہے یہ کس طریقے سے آ رہا ہے اس کے اندر جھوٹ کا ایک شائبہ بھی ہو تو یہ مال پاک نہیں ہے ۔

مثال:
جو گاؤں کے لوگوں کے اندر جو زراعت اور زمین سے متعلق جو مسئلے اور جھگڑے ہوتے ہیں وہ پانی کے مسئلے پر ہوتے ہیں۔ اور آپ اگر گاؤں کی زندگی میں دیکھیں تو اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کا چند منٹ کا پانی یا ایک گھنٹے کا پانی چُرا لے تو وہ اس پر بڑا فخر کرتا ہے۔ کہ میں نے آج بڑا کمال کر دیا۔ اور اس فعل کو وہ اپنے لیے بڑی کامیابی سمجھتا ہے۔ حالانکہ یہ سب سے بڑی جہنم ہے جو اس نے اپنی لیے کمائی ہے۔

ہاتھ کے گناہ:
: جیسے کہتے ہیں
ایک بڑے صالح قسم کے شخص ایک بہت بڑے آیت اللہ کے گھر کھانا کھانے گئے تو اس آیت اللہ نے بازار سےچاول لیے اور مرغی کا گوشت لیا اور اس کے لئے پلاو پکا کے رکھ دیا تو اس ولی آدمی نے وہ نہیں کھایا اور اس نے کہا مجھے بس ایک سادہ پانی لا دیں پھر اس نے اپنے تھیلے میں سے اس نے روٹی کے خشک ٹکڑے نکالے اس میں بھگو بھگو کے کھانے لگا۔ میزبان نے کہا یہ آپ کے سامنے پلاؤ رکھا ہوا ہے لیکن! آپ یہ کھا نہیں رہے اور یہ روٹی کے ٹکڑے کھا رہے ہیں۔ تو اس نے کہا کہ اب میں آپ کو کیا بتاؤں! اس مرغے کی داستان۔۔ آپ رہنے دیجئے کہ ذبح کرتے وقت اس پر قصاب نے بسم اللہ ہی نہیں پڑھی ۔

آج کل کئی ممالک میں جتنے مرغے بازار میں آ رہے ہیں جو ذبح شدہ ہوتے ہیں یہ سارے مشینی کام ہے۔ بعض جو متدین کارخانے والے لوگ ہوتے ہیں انہوں نے وہاں ایک مولوی صاحب رکھے ہوتے ہیں جو مشین جب کاٹ رہی ہوتی ہے گردن اس کی وہ اس وقت کہہ رہا ہوتا ہے بسم اللہ۔ البتہ! بعض کارخانے والوں نے علماء رکھے ہوتے ہیں اور وہ طالب علموں کو لے جاتے ہیں اور ان کو کچھ ہدیہ دیتے ہیں۔ اس کا کام صرف یہی ہوتا ہے کہ جب مشینوں کے ذریعے ہزاروں مرغوں پر چھری پھیری جا رہی ہوتی ہے تو وہ بسم اللہ پڑھتا رہتا ہے۔

پاکستان اور انڈیا میں روزمرہ کے قصائی ہوتے ہیں وہ نظام یہاں نہیں ہے۔ کیونکہ صنعتی دنیا میں انہوں نے زندہ مرغوں کو لٹکایا ہوتا ہے وہ ترتیب سے آ رہے ہوتے ہیں اور آگے سے ایک تیز دھار آلہ ہوتا ہے جو ان کے سر کاٹ رہا ہوتا ہے اس وقت ایک شخص کا وہاں کھڑا ہونا ضروری ہے۔ کہ جب وہ آلہ چلے اور ذبح کرے تو وہاں بسم اللہ پڑھے یعنی اللہ کا نام لے۔ اور اگر وہ شخص کھڑا نہ ہو تو یہ سارے حرام ہو رہے ہیں۔ اب وہ جو شخص کھڑا ہے اس کو ظاہرہے ماہانہ پیسے دینے ہوتے ہیں بعض کارخانے والے لوگ رکھتے ہیں اور بعض یہ نہیں رکھتے اور یہ اس لیے بہت بڑا مسئلہ ہے اور شبہ ہو جاتا ہے۔

اسی طرح یہ ہمارے پاک و ہند کے اندر جو رواج ہے کہ قصائی مرغے کو پکڑ کر ذبح کرتا ہے۔ لیکنً بعض وہ بھی توجہ نہیں کرتا بس اسے چھری مارنے کی جلدی ہوتی ہے اور بعض اوقات وہ بسم اللہ نہیں پڑھتے۔ اس لیے وہاں کہنا پڑتا ہے کہ بسم اللہ پڑھو ورنہ میں یہ نہیں لے سکتا۔ یعنی! اس کو میرے سامنے ذبح کرو اور بسم اللہ پڑھو وگرنہ میں یہ نہیں لوں گا۔ اگر وہ نہ پڑھے تو پھر شک میں نہ خریدیں کیونکہ اب وہ نجس ہو چکا ہے۔

یہ تو تھی اس مرغے کی داستان کہ ان ولی نے جو کہ ایک آیت اللہ کے گھر گئے تھے انہوں نے کہا کہ اس مرغے کی داستان کو تو چھوڑیں اور اب جو چاولوں والی داستان ہے یہ آپ کو سناتا ہوں یہ جس شخص نے اپنے کھیت میں یہ چاول اگائے تھے اس نے ایک بار اپنے ہمسائے کا پانی چند منٹ زیادہ لگایا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کی ساری فصل نجس ہے۔ اب جب تک وہ اپنے ہمسائے سے معافی نہیں مانگے یا اس کا پانی واپس نہ کرے یا پھر اس کا دل راضی نہ کرے تب تک یہ نجس ہیں کیونکہ بے شک ہمسایہ اس کو نہیں جانتا لیکن! اللہ تو جانتا ہے۔

نتیجتاً ! اس کی یہ فصل حرام ہے۔ آپ لوگ کھائیں چونکہ آپ لوگوں کے لئے یہ جائز ہے آپ کو پتہ نہیں لیکن! میں جو ولیِ خدا ہوں اور جانتا ہوں۔

اب آپ غور فرمائیں کہ یہ جو گاؤں دیہاتوں کے اندر لوگ پانی چراتے ہیں وہ اپنی طرف سے اسے فتح سمجھتے ہیں لیکن! اپنے حلال مال کو حرام کر بیٹھتے ہیں ۔

اس لئے ہم کہتے ہیں یہ مبلغین ماہ رمضان اور ماہ محرم میں جاتے ہیں تو خدا کے لئے اپنی تقاریر میں لوگوں کو حلال و حرام کے بارے میں بتائیں کیونکہ اصل میں لوگوں کو حلال و حرام کا نہیں پتہ۔

استاد محترم فرماتے ہیں کہ میں نے یہی مسئلہ ایک گاؤں میں سنایا لوگ بڑے حیران ہوئے انہوں نے کہا ہم نے پہلی دفعہ یہ سنا ہے۔ تو لہذا اب جس جس نے کسی کا پانی چرایا ہے اور اس پر فخر بھی کیا تو اسے چاہیے کہ کچھ ہزار دے کر اس کو راضی کریں۔ اس سے پہلے کہ اگلے معاملات کام خراب ہوں ورنہ آپ کی فصل نجس ہو جائے گی کیونکہ اس فصل سے جو بیچیں گے اس میں اس کا بھی حصہ ہے کہ جس کا آپ نے پانی چرایا ہے۔

یہ چیزیں بیان کرنی چاہیے۔

یہ ہاتھ کے گناہوں میں سے ایک گناہ ہے کہ جس کے آگے آثار ہیں کہ پورا جو حلال کھیت حلال لہلہاتی فصل حرام میں تبدیل ہوجاتی ہے اس لیے کہتے مشارطہ کریں کہ پیٹ میں جو لقمہ جانا ہے وہ کون سا جانا ہے۔

جنسی گناہ:

ہمارے ہاں سب سے بڑا بحران جنسی مسائل کا ہے کہ علمائے دین کو اجازت نہیں دی جاتی کہ وہ منمبر سے لوگوں کی جنسی مسائل میں راہنمائی کرے اور اگر کوئی عالم ایسا کرے تو اسے برا بھلا کہا جاتا ہے۔ حالانکہ اس کے بچے بچیاں سب دنیائے انٹرنیٹ میں غلط چیزیں دیکھ رہے ہیں ایک دوسرے سے فحش گفتگو کرتے ہیں اور فحش چیزیں پڑھتے لیکن! والدین کے لیے یہ کوئی مسئلہ نہیں۔

لیکن !
اگر عالم دین بیان کرے تو بدنام ہو جاتا ہے۔ اس وقت ہمارے بچے بچیوں اور جوانوں کو سب سے بڑے مسئلے جو ہیں یقیناً وہ جنسی مسائل ہیں۔ لیکن! ان کے بارے میں کوئی رہنمائی نہیں اور وہ بھی شرم سے کسی سے نہیں پوچھتے اور جن جگہوں سے وہ معلومات لے رہے ہیں وہ ساری بری جگہ ہیں۔ جو ان کو غلط راہوں پر لے کر جارہے ہیں۔ اسی وجہ سے جنسی مسائل کے اندر غلط کاریاں بڑھ رہی ہیں۔ حتی کنوارے بچے بچیاں ناپاک ہوگئے ہیں۔

یعنی !
اب گھروں میں واقعاً ایسا بچہ بچی کہ جو پاک ہو وہ ڈھونڈنا وہ ایسا ہی ہے جیسے چراغ لے کے کسی کو ڈھونڈنا واقعاً بہت مشکل ہو گیا ہے کیونکہ ان کے ذہن آلودہ ہو چکے ہیں وہ انٹرنیٹ کے ذریعے کیا کیا دیکھ رہے ہیں اور پھر کیا ظلم اپنے اوپر کر چکے ہیں یا کروا چکے ہیں وہ تو پتہ نہیں ہے۔ لیکن! بعض دفعہ لوگ کہتے ہیں نہیں ماں باپ کو نہیں پتہ باقی پورے محلے کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ لڑکی کیسی ہے، لڑکا کیسا ہے۔ ہاں! اگر کسی کو نہیں معلوم تو وہ اس کے اپنے گھر والے ہوتے ہیں کہ جو سننا ہی نہیں چاہتے۔ اگر کوئی بتائے تو گھروں میں لڑائی ہوجاتی ہے۔

علماء کرام کی ذمہ داری یہاں یہ ہے کہ وہ اپنے وظائف ادا کریں یہاں جو معلمات ہیں ، عالم ہیں یہ سب کا وظیفہ ہے آپ جہاں تبلیغ کے لیے جارہے ہیں وہاں بچے بچیوں کے ساتھ علیحدہ نشست کریں ان کے لیے رہنما بنیں ورنہ روز قیامت یہ مسئلہ ہے۔

حتی! آپ لوگ جو انٹرنیٹ پر فعال ہیں اس مسائل میں ویڈیوز رکھیں اپنے گروپس کے اندر یہ رہنمائی کریں یہاں شرم کی بات نہیں ہے۔ آپ نے مسئلہِ حق بیان کرنا ہے خود ہماری توضیح المسائل میں، حدیث میں جنسی مسائل کے حوالے سے آئمہ کی رہنمائی بیان ہوئی ہوئی ہے اس میں اب کیا شرم کی بات ہے؟؟

آج کے جوان بے شرم ترین چیزیں دیکھ رہے ہیں اور بے شرموں سے ان کے رابطے ہیں اور بے شرمانہ کام کر رہے ہیں۔ اور ہم اگر شرم شرم کی بات کرتے رہے تو پھر یہ کام خراب سے خراب تر ہو رہا ہے۔

مشارطہ یعنی! اپنے اعضائے جنسی کو بھی پابند کرنا ہے اور بعنوانِ عالمِ دین آپ نے باقیوں کو بھی رہنمائی کرنی ہے۔ کیونکہ! اس وقت سب سے بڑے مسائل جو ہیں وہ مجرد لوگوں کے اندر ہے چاہے وہ بچیاں ہیں یا بچے ہیں وہ اپنے ہاتھ سے اپنے آپ کو نقصان دے رہے ہیں سب سے بڑا مسئلہ ہے حتی بچیوں میں۔

یہ جو لفظِ استمناء کہا گیا ہے یہ ذمہ داری سے کہا گیا ہے۔ اور مجرد طالب علم ہو، مجرد سکول یونیورسٹی کے لڑکے ہوں، یا لڑکیاں ہوں۔ سب اس گناہ کے اندر ہیں اور اکثریت ہمارے جوانوں کی جو زنا سے بچے ہوئے ہیں غلط کاریوں سے بچے ہوے ہیں یعنی کسی دوسرے شخص کے ساتھ غلط کاری سے بچے ہیں وہ خود اپنے ہاتھ سے اپنے آپ کو تباہ کر رہے ہیں۔

اپنی آئندہ ازدواجی زندگی کو تباہ کر رہے ہیں اور جب ان لوگوں کی شادی ہوتی اس وقت یہ کئی مسائل کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں اور بہت ساری طلاقوں کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ آگے جو ہے لڑکی یا لڑکا جو وہ جنسی ازدواجی آسودگی جو حاصل ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہو رہی اور یہ وجہ ان کے جھگڑوں اور طلاق تک پہنچی ہے۔ یا پھر اس خاتون کو یا اس مرد کو جو غلط عادتیں پڑی ہوئی ہیں ازدواجی زندگی کی وجہ سے ختم نہیں ہو رہی بلکہ اللہ نے جو کام حلال کیا تھا وہ نہیں کر رہے اور اس کے باوجود وہ حرام کام کر رہے ہیں چونکہ وہ عادتیں پختہ ہو چکی ہیں اور بعض دفعہ ایسے مسائل آتے ہیں شادی شدہ لوگوں کے اور ان کی طلاقوں کی جو وجوہات ہوتی ہیں جس ہم ان کو سنتے ہیں تو پھرانسان بس استغفار کرتا ہے۔
استغفراللہ !

یہ درسِ اخلاق کے نکات جو مبلغ ہیں یا خواتین جو مبلغہ ہیں خدا کے لیے اپنی مجالس کو صرف چند فضائل اور مصائب پر ختم کر کے یہ نہ سمجھے آپ نے آل محمدؐﷺ کی خدمت کر لی ہے اور دین کی خدمت کر لی ہے کیونکہ! اگر آل محمد کی خدمت کرنی ہے تو لوگوں کو حلال اور حرام بیان کریں اگر دین کی خدمت کرنی ہے حلال اور حرام بیان کریں اگر خدا کی بارگاہ میں ایک عالم دین یا عالمہ نے سرخرو ہونا ہے۔ لوگوں کے لیے حلال حرام بیان کریں۔

بسا اوقات! ممبر پر نماز کے فضائل بیان کئے جاتے ہیں اور آگے سے مجمع بھی نماز کے فضائل سننے کے لیے بیٹھا ہوتا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ توحید پر گفتگو کریں، نماز پر گفتگو کریں، ہمیں ایسی دعائیں بتائیں ایسا ذکر بتائیں مجرب اعمال بتائیں ہمارا رزق بڑھ جائے گھر سے پریشانیاں دور ہو جائیں یہ چیزیں سننے کے لیے حاضرین مجلس خواتین تیار بیٹھی ہوتی ہیں اور ہمارے آگے سے علماء سے سننے کے لیے مومنین تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔

لیکن! اگر آپ ان کے سامنے بازار کے معاملات میں حلال و حرام بیان کرنا شروع کریں تو ان کے چہرے بدلنے شروع ہو جائیں گے اور انہی خواتین کو اگر سکھائیں گے کہ اپنی زبان کو کنٹرول کر کے رکھیں جن کی وجہ سے سب سے زیادہ لڑائیاں گھروں میں ہو رہی ہیں یہی خواتین آپ سے ناراض ہو کر کہیں گی کہ اس عالم دین کو ہم نے نہیں سننا۔

وہ دکاندار آپ کی گفتگو کے درمیان اٹھ کے چلنا شروع جائیں گے کہ جب آپ ان کو بازار کا حلال و حرام بتائیں گے ، لین دین میں حلال و حرام بتائیں گے اور جب کسان کو آپ پانی کا مسئلہ بیان کریں گے حلال و حرام وہ اٹھ کے چلا جائے گا۔

وہ چلا بھی جائے توکل قیامت والے دن وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہمیں کوئی بتانے والا نہیں آیا تھا اس پر حجت تمام ہو چکی ہے یہ جو چار بیٹھے ہوئے ہیں ان کو سناؤ ان کو سناؤ کیونکہ ہو سکتا ہے آج یہ چار ہیں کل آٹھ اور کل بیس ہو جائیں گے۔

استاد محترم علامہ اختر عباس نجفیؒ کے بارے میں بیان فرماتے ہیں کہ انہوں نے چالیس سال ایک جگہ پہ محرم پڑھا۔ اور تو وہ فرماتے تھے کہ جب میں جب پہلی بار گیا تو وہاں صرف ایک بندہ بیٹھا ہوا تھا دور دور تک جو چٹائی بچھی ہوئی ہے، سپیکر لگے ہوئے ہیں اور فقط ایک بندہ بیٹھا ہوا ہے یعنی ایک تو سپیکر والا بیٹھا ہوا ہے اور ایک سامنے بیٹھا ہوا ہے اور کوئی بندہ ہی نہیں۔ میں نے پوچھا کہ مجمع کب آئے گا انہوں نے کہا آپ شروع کریں وقت ہو چکا ہے کیونکہ اس کے بعد پھر ذاکر صاحب کا بھی وقت ہے۔ سامنے بیٹھے شخص نے کہا یہ سارے لوگ ذاکروں کو سننے والے ہیں۔ یہاں کبھی کوئی عالم دین نہیں آیا۔ کہا: میں بانی ہوں آپ خطیب ہیں بس شروع کریں۔

تو کہتے میں نے پہلا محرم صرف اسی کو سنایا بانی کو اور اس سپیکر والے کو اور کبھی درمیان میں کوئی ایک آدھا آدمی آ بھی جاتا تھا تو بیٹھ کے پھر چلا جاتا تھا۔

جب دوسرے سال گئے تو چار پانچ بیٹھے ہوئے تھے اور جو میری سپیکر پر گفتگو تھی اس نے کچھ چند دلوں پر اثر کیا پھر اگلی دفعہ گئے تو دس بارہ ہو گئے۔ چالیس سال کے بعد اس جگہ کی حالت یہ تھی مجھے مومن بتا رہے تھے کہ میں قبلہ کی سیالکوٹ مجلس سننے گیا تو وہ پنڈال بھرا ہوا تھا اس کے گرد جو گلیاں تھی وہ بھری ہوئی تھی باہر سڑکوں پر لوگ گاڑیوں میں بیٹھے جگہ جگہ پر سکرینیں اور سپیکر لگےہوے تھے لوگ یعنی اتنی دور دور تک کئی کلو میٹروں تک مجمع تھا اس لیے ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور تبلیغ کرنی چاہیے آپ کو سننے والے لوگ پیدا ہو جائیں گے انہی لوگوں میں سے پیدا ہو جائیں گے ۔

اور کہتے تھے کہ میں حیران اس بات پر تھا کہ کلو میٹروں تک مجمع ہے اور قبلہ صاحب حیض کے مسائل بیان کر رہے تھے۔ ممبر پر آپ تعجب نہیں کریں گے حیض کے مسائل کہتا میں حیران تھا کہ مجمع اتنے غور سے سن رہا ہے۔ آغا فرما رہے تھے کہ یہ آپ کی خواتین کے مسائل ہیں اور یہ آپ نہ شوہر بتاتے ہیں نہ بچے بتاتے ہیں نہ یہ کسی عالم سے سنتی ہیں تو میں اپنا وظیفہ سمجھتا ہوں۔ آج میں اپنی مجلس میں حیض کے مسائل بیان کروں گا۔ پورا حیض کا مسائل اور اتنے بہترین انداز سے لوگ سن رہے ہیں اور لوگ خود کہہ رہے تھے کہ اصل چیزیں یہی ہیں سننے کی اگر ہمارے حلال حرام یہی ہیں۔

انسان اگر چاہے تو اپنا ذہن بنا سکتا اللہ نے طاقت دی ہے بیان ہونا چاہیے۔ ہاں قبلہ صاحب مصائب بھی بہت عمدہ پڑتے تھے آپ بشک ان کی مجالس سنیں درمیان میں کچھ اچھے اچھے جملے کہتے تھے ہوتے تھے اخلاقی جملے لیکن مجمع جو ہے وہ گلزار ہو جاتا تھا وہ ان کا ایک بیان تھا۔ لہذا اپنے بیان کو بڑھائیں بے شک خشک ترین گفتگو کریں لیکن! وہ گفتگو کریں جو ان کے لئے ضروری ان کی سمجھ میں بھی آرہی ہو ایسی خشک گفتگو جو ان کے سروں کے اوپر سے گزر رہی ہے۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں تو ابھی بھی علامہ اختر عباسؒ کی تقاریر ہوں گی یوٹیوب پر سنیں ان کا انداز سنیں بہت اچھا تھا مختلف علماء کا بیان سنیں۔

علامہ نقن کا بیان سنیں، مولانا محمد حسین نجفی صاحب کا بیان سنیں یعنی! بزرگان کا بیان سنیں آپ کو فن بیان کا اندازہ ہوگا۔

تاریخ میں بڑے بڑے ہمارے ایسے علماء اور واعظ گزرے ہیں حافظ کفایت مرحوم اور حافظ سیف اللہ جعفری صاحب مرحوم ہیں۔ اور دیگر علمائے کرام کہ جنہوں نے حلال حرام بیان کئے۔

ہمارا وظیفہ بعنوان معلم اور معلمہ یہ نہیں کہ ہم فقط فضائل اور مصائب بیان کریں مگر لوگوں کی جو ضرورت ہے یعنی احکام اور حلال و حرام بیان کریں۔ اور فضائل اور مصائب بیان کریں۔ ہر روز کم از کم اتنے حلال و حرام اور احکام بیان کریں کہ لوگ آپ سے کچھ نہ کچھ لے کر اٹھیں۔

مشارطہ سے اگلا مرحلہ مراقبہ ہے۔

مراقبہ :
یعنی یعنی جب آپ نے صبح مشارطہ کیا تو پورا دن مراقبہ کریں اور اپنے اعضاء پہ نظر رکھیں اپنی آنکھ اپنے کان یا جو لقمہ آپ کھا رہے ہیں یعنی! خلاصہ یہ ہے کہ ہر چیز پہ نظر رکھیں اپنے اعضاء کے استعمال پہ نظر رکھیں۔ کہیں شیطان تو نہیں استعمال کروا رہا، نفس تو نہیں استعمال کروا رہا۔

رحمانیت کے زیرِ اثر استعمال ہو اور پروردگار کے زیرے نظر استعمال ہو ہمیں اس پہ نظر رکھنی ہے۔

حرم جانے کا فلسفہ:
اگر کہیں آپ محسوس کر رہے ہیں کہ میری گرفت اپنے اعضاء پہ ختم ہو رہی ہے اور اعضاء میری بات نہیں مان رہے اور نفس کے زیر اثر زیادہ جا رہے تو پھر اٹھ کے حرم چلے جائیں اور ایران کے لوگوں کو بہت بڑی سہولت ہے۔

یہ ہے فلسفہ حرم جانے کا کیونکہ وہاں محل نزول ملائکہ اور محل نزول برکات ہے۔ کچھ دیر حرم میں رہیں۔

اور وہ لوگ جن کو یہ توفیق حاصل نہیں اور وہ حرم سے دور ہیں تو وہ باوضو ہو کر قرآن کھولیں اور آیات قرآنی کی تلاوت شروع کر دیں کیونکہ قرآن ہمارا امام ہے، حجت صامت ہے، ہمارا امام ہے۔ قرآن پڑھیں اور سجدے میں گر جائیں اور توفیق مانگیں۔

جاری ہے۔۔۔۔

پروردگار کی بارگاہ میں دعا ہے خدایا ہم سب معمولی سے طالب علم ہیں ہم گنہگار ہیں۔ اے ہمارے رب ! ہمارے اعضاء ہمارے کان ، آنکھ، زبان ، ہاتھ پاؤں، شکم سب گناہوں سے آلودہ ہیں۔ پروردگار! ہمیں حقیقی معنوں میں توبہ کی توفیق عطا فرما اور ہمیں توبہ نصوح کرنے کی توفیق عطا فرما۔ ہمیں توبہ کے بعد جس طرح ایک مومن کی ولایت اور ولی اللہ الکامل کے زیر نظر ایک پاکیزہ، صالحانہ اور عارفانہ زندگی ہے پروردگار ہمیں وہ زندگانی طیبہ عطا فرما۔
پروردگار ہمیں محمدؐﷺ و آل محمدؑﷺ کے خیمہ اور آج خیمہ امام زماںؑ عج بپا ہے اس خیمہ میں محشور فرما
الہیٰ آمین۔

والسلام
عالمی مرکز مہدویت_ قم ایران

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *