﷽
درس لقاءاللہ: 23
حقیقی توبہ کیسے کی جاتی ہے؟
استاد محترم قبلہ علامہ علی اصغر سیفی صاحب
موضوع سخن کتاب شریف رسالہ لقاءاللہ جو بہت بڑی علمی اور عارفانی شخصیت مرحوم آیت اللہ جواد ملکی تبریزیؒ کا نوشتہ ہے۔
ہم نے اس سے پہلے عرض کیا کہ بالآخر انسان جائز الخطا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں اور اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی رحمت جو ہم انسانوں پر ہے کہ اللہ نے توبہ کا دروازہ ہم پر کھولا ہوا ہے اور یہ توبہ کا دروازہ تا مرگ کھلا ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ہمارے سارے گناہوں کو معاف کرے گا فقط شرک کے۔ اللہ شرک کو معاف نہیں کرتا یا وہ گناہ کہ جن کا تعلق حقوق العباد سے ہو کیونکہ جن لوگوں کے ساتھ ظلم ہوا ہے وہ اللہ کیسے معاف کردے پھر ان لوگوں کے ساتھ کیسے عدالت ہوگی۔ اسی لیے ہمارے آئمہؑ فرماتے ہیں کہ ہم حقوق الناس کے حوالے سے آپ کی شفاعت نہیں کریں گے۔
شفاعت حقوق اللہ کے حوالے سے ہے ، حقوق الناس کے حوالے سے شفاعت نہیں ہے۔ آخر جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے وہ بھی امامؑ کی ہی امت کا فرد ہے اور وہ بھی امام کو اتنا ہی عزیز ہے کہ جتنا آپ عزیز ہیں۔
اس لیے فرمایا کہ مسلمانوں اور مومنین کے ساتھ اپنے حساب کتاب آپ نے خود صاف کرنے ہیں جو چیزیں پروردگار سے تعلق رکھتی ہیں وہاں شفاعت ہے۔ اور یہ چیز اہل ممبر کو مومنین کو بتانی چاہیے کہ ہم سب شفاعت کے قائل ہیں ۔ شفاعت ہوگی لیکن! حقوق اللہ میں ہے ۔ حقوق العباد میں نہیں۔ اگر کسی کا حق کھایا تو اسے ہر صورت میں واپس کرنا پڑے گا، کسی پر ظلم کیا ہے تو اس کا کفارہ ادا کرنا پڑے گا ، کسی کا دل دکھایا ہے تو اس سے رضائیت لینی ہو گی۔ اسی لیے حکم یہی ہے کہ جو حقوق العباد کے مسائل خود حل کرنے ہیں۔
فقہی مسئلہ : بعض مرتبہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں پتہ نہیں تھا اور ایسے کام ہوگئے جیسے لوگوں نے راہ چلتے کسی کی چیز اٹھا کر کھا لی۔ کسی کے پیسے واپس نہیں کئے کسی کی چیز بغیر بتائے استعمال کر لی۔ یا کسی کی قلم کاپی کتاب اٹھا لیتے ہیں بعض دفعہ رشتہدار چیزیں استعمال کر لیتے ہیں اور جب وہ انسان جس کی چیز استعمال ہوئی ہو جب وہ چیختا ہے تو کوئی ماننے کو بھی تیار نہیں ہوتا کہ استعمال کی ہے۔ بعض مرتبہ لوگ شرارتاً اور طاقت کے بل بوتے پر کرتے ہیں۔
تو لوگ فقہی سوال کرتے ہیں کہ آغا صاحب اب ہم کیا کریں اس وقت تو ہمیں معلوم نہیں تھا کہ اس بات کی اتنی سختی ہے۔ اور اب ہم کیا کریں کہ پروردگار کی بارگاہ میں جائیں تو ہم پر حقوق العباد نہ ہوں۔
کہتے ہیں کہ اس حوالے سے جو حکم ہے شریعت کا کہ جو جو آپ کو یاد ہے وہ آپ ادا کریں چاہے نئی لے کر دیں اور ساتھ معذرت خواہی کریں۔
اب اگلا آدمی بھی دو حال سے خارج نہیں ہے
۔ یا تو وہ ہمیں معاف کر دے گا
۔ یا نہیں کرے گا۔ کیونکہ جو ذہنی اذیت اس نے اٹھائی ہوگی چیز کھو جانے کی وجہ سے اسے ہوئی۔
تو اب بھی آخری حد تک ہمیں معذرت خواہی کرنی ہے۔ اگر وہ پھر بھی راضی نہ ہو تو پھر آپ اللہ پر معاملہ چھوڑ دیں تو یہاں شفاعت ممکن ہے۔ کیونکہ یہاں اللہ کہے گا کہ میرے بندے نے کوشش کی تھی۔
اب یہاں ایک اور نکتہ بھی ہے کہ فقط کوشش نہ کریں بلکہ اس کے حق میں مزید کار خیر کریں۔ اور اس کو جو واپس کریں بہترین اور معیاری چیز لوٹائیں۔ اور اگر پیسے اٹھائے تھے تو تھوڑے زیادہ لوٹائیں تاکہ وہ راضی ہو جائے۔ یعنی! فقط الفاظ سے کسی کو راضی نہیں کیا جا سکتا بلکہ! عملی طور پر اس کے حق میں احسان یا کارخیر انجام دیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی گنجائش رہتی ہے اور وہ شخص راضی نہیں ہوتا تو پھر اللہ پر چھوڑ دیں۔
ایک مرتبہ مسئلہ پوچھا گیا کہ جناب جن کی چیز ہم نے اٹھائی تھی وہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں یا ہمیں معلوم نہیں کہ وہ کون تھے؟
جواب:
اگر وہ شخص دنیا میں نہیں تو اس کے شرعی وارثان کے حق میں کارخیر کریں اور معذرت خواہی کریں۔ اور اگر معلوم نہیں ہے کہ وہ کون ہے اور اسکے وارثان نہیں ہیں تو پھر آپ اللہ کی راہ می اس کی جانب سے صدقہ کریں۔ اور اتنا صدقہ کریں کہ آپ کو یقین ہو جائے کہ اب میں نے اپنا حق ادا کر دیا ہے۔ کہ اس صدقے کا ثواب اس کے حق میں ادا کیا جائے۔
مسئلہ : میں نے کسی کا زبان کے ساتھ دل دکھایا تھا۔
پیغمبرؐ کا فرمان ہے کہ:
جہنم میں جو لوگ کثرت کے ساتھ دو چیزوں کی وجہ سے داخل ہونگے
1۔ زبان
2۔ مال
*زبان کا فقہی مسئلہ:
اپنی موت سے قبل جس جس کا دل دکھایا ہے اس سے معذرت خواہی کریں۔ جس پر تہمت لگائی یا غیبت کی معافی مانگیں۔
یہاں لوگ کہتے ہیں کہ کیسے معافی مانگیں بڑی شرمندگی ہوتی ہے۔
یہاں پر شرمندہ ہونا بہتر ہے آخرت میں شرمندہ ہونے سے اور جہنم میں جانے سے بہتر ہے۔ اور اس کے برعکس اگلے بندے کے دل میں ہوسکتا ہے کہ آپ کا احترام آجائے۔ اورجب ہم قدم اٹھائیں گے تو اللہ بھی اس کے دل میں رحم پیدا کر دے گا۔ بالآخر انسان ہی انسان کو معاف کرتا ہے۔
اگر ہم نے کثرت سے یہ عمل کیا ہے اور اب یاد ہی نہیں کہ کس کس کے ساتھ یہ عمل کیا ہے۔ پھر لازمی ہے کہ ان لوگوں کے لیے خیرات اور صدقہ کریں۔ تاکہ روز قیامت اگر وہ شکایت کرے کہ اس نے میرے حق میں برا کیا ہے تو ہمارے پاس کچھ اچھا دکھانے کے لیے ہو۔ تاکہ وہ اچھا اس برے سے ہمارا دفاع کرے۔
پروردگار غفور رحیم ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے۔
روایت :
مجالس صدوقؒ
جناب صدوقؒ نے اس واقعہ کو اپنی کتاب مجالس صدوقؒ میں لکھا اور آیت اللہ ملکی تبریزیؒ نے اس واقعہ کو اپنی کتاب میں نقل کیا۔
یہ واقعہ روح کی پرورش اور تذکیہ ہے۔
دخل معاذ بن جبل على رسول الله (صلى الله عليه وآله) باكيا فسلم فرد عليه السلام،
جناب معاذ ابن جؒبل کہتے ہیں کہ میں رسولؐ اللہﷺ کی خدمت میں آیا اور جناب معاذؒ رو رہے تھے۔
ثم قال: ما يبكيك يا معاذ؟
فرمایا: اے معاؒذ تجھے کس چیز نے رلایا۔
قال: يا رسول الله، إن بالباب شابا طري الجسد، نقي اللون، حسن الصورة، يبكي على شبابه بكاء الثكلى على ولدها يريد الدخول عليك
کہا : یا رسولؐ اللہﷺ میں نے مسجد کے دروازے پر ایک جوان کو دیکھا جو بہت شاداب اور خوبصورت تھا لیکن! اس عورت کی مانند گریہ کر رہا تھا کہ جس کا جوان بیٹا دنیا سے چلا گیا ہو۔
فقال النبي (صلى الله عليه وآله): أدخل علي الشاب يا معاذ
پیغمبرؐﷺ نے فرمایا: اے معاذؒ اس جوان کو میرے پاس لے کر آؤ۔
وہ جوان پیغمبرؐ کی خدمت میں آیا۔ اور
فسلم
سلام کیا۔
ثم قال: ما يبكيك يا شاب؟
پھر پیغمبرؐ ﷺ نے فرمایا:
کہ اے جوان تجھے کس چیز نے رلایا
قال: كيف لا أبكي وقد ركبت ذنوبا إن أخذني الله عزوجل ببعضها أدخلني نار جهنم،
کہا:
کیوں نہ روؤں میں اپنے گناہوں پر رو رہا ہوں۔
کہتے ہیں کہ یہ ایک جوان آدمی کی عظمت ہے کہاگر کوئی جوانی کے عالم میں گناہوں کی فکر میں روئے تو یہ شیوہ انبیاءؑ ہے۔
در جوانی توبہ کردن شیوہ انبیاءؑ است
کہنے لگا کہ مجھے اپنے گناہوں پر رونا آ رہا ہے۔ اور میرے بعض گناہ ایسے ہیں کہ اگر مجھے اللہ عذاب دینا چاہے تو مجھے جہنم میں ڈال دے اور میں نے ایسے ایسے بھی گناہ کئے ہیں کہ جن کی بخشش مجھے دور دور تک نظر نہیں آتی۔
تو پیغمبؐر ﷺ نے پہلا سوال کیا؟
فقال رسول الله (صلى الله عليه وآله) : هل أشركت بالله شيئاً ؟.
آیا تو نے خدا کا کوئی شریک تو نہیں ٹھہرایا؟
کہنے لگا نہیں ، ہرگز نہیں۔
قال : أقتلت النفس التي حرم الله ؟.
قال : لا .
فرمایا: کہ آیا کسی بے گناہ کو قتل کیا ہے؟
کہا : نہیں
فقال النبي (صلى الله عليه وآله) : يغفر الله لك ذنوبك وإن كانت مثل الجبال الرواسي .
فرمایا: پھر تجھے پریشانی کی صورت نہیں اے جوان پھر چاہے تیرے گناہ پہاڑ جتنے ہی کیوں نہ ہوں۔
قال الشاب : فإنها أعظم من الجبال الرواسي .
کہا: میرے گناہ ان پہاڑوں سے بھی بڑے ہیں۔
فقال النبي (صلى الله عليه وآله) : يغفر الله لك ذنوبك وإن كانت مثل الأرضين السبع وبحارها ورمالها واشجارها وما فيها من الخلق .
فرمایا:
اگرچہ تیرے گناہ سات زمینوں کے برابر ہوں، دریا، سمندر، ریت، اور تمام مخلوقات کے برابر بھی ہیں تو بھی معاف کر دے گا۔
کہتے ہیں کہ توبہ نصوح بہت بڑا اکسیر ہے اگر انسان اللہ کی بارگاہ میں خالص توبہ کا ارادہ کر لے تو خدا بہت بڑے بڑے گناہ معاف کر دے گا۔ بس شرک نہ ہو اور کسی بے گناہ کا قتل نہ کیا ہو۔
(فقال : إنها أعظم من الأرضين السبع وبحارها ورمالها وأشجارها وما فيها من الخلق) .
کہا: میرے گناہ ان سات زمینوں اور اس سے بھی زیادہ ہیں۔
فقال النبي (صلى الله عليه وآله) : يغفر الله لك ذنوبك وإن كانت مثل السماوات ونجومها ومثل العرش والكرسي .
اللہ تیرے گناہوں کو معاف کرے گا چاہے تیرے گناہ سات آسمانوں ، ستاروں جتنے کیوں نہ ہوں۔ عرش عظیم و کرسی جتنے کیوں نہ ہوں معاف کر دے گا۔
ابھی تو ہماری نگاہ نیچلے آسمان تک ہے اور اس کی وسعت کسی کی نگاہ میں نہیں آرہی۔
قال : فإنها أعظم من ذلك .
کہا: میرے گناہ اس سے بھی زیادہ ہیں۔
قال : فنظر النبي (صلى الله عليه وآله) كهيئة الغضبان
اب پیغمبرؐ اسلامﷺ ناراض ہو گئے اور اسے غصے سے دیکھا
ثم قال : ويحك يا شاب ذنوبك أعظم أم ربُّك ؟.
اے جوان تجھ پہ افسوس مجھے یہ بتا تیرے گناہ بڑے ہیں یا رب بڑا ہے
فخر الشابُ لوجهه وهو يقول سبحان ربي ما شيء أعظم من ربي ، ربي أعظم يا نبي الله من كل عظيم .
اب وہ جوان منہ کے بل گر گیا۔ کہا میرا رب منزہ ہے۔ کون سی چیز ہو سکتی ہے جو میرے رب سے بھی بڑی ہے۔ یا رسولؐ اللہﷺ میرا رب سب سے بڑا ہے۔
فقال النبي (صلى الله عليه وآله) : فهل يغفر الذنب العظيم إلا الرب العظيم ؟!
تو رسولؐ اللہﷺ نے فرمایا: تو جو کہتا ہے میرے گناہ بڑے ہیں۔ تو اس عظیم گناہ کو معاف کرنے والا بھی عظیم ہے۔
قال الشاب : لا والله يا رسول الله !.
جوان نے کہا: کیوں نہیں یا رسولؐ اللہﷺ
ثم سكت الشابُ
اب وہ جوان خاموش ہوگیا۔
فقال له النبي (صلى الله عليه وآله) : ويحك يا شابُ ! أتخبرني بذنب واحدٍ من ذنوبك ؟.
پیغمبرؐ اسلام نے فرمایا: اے جوان تجھ پر افسوس۔ آیا تو مجھے بتا نہیں سکتا کہ تو کیا کر کے آیا ہے۔
عزیزان،
یہ جو ہم کہتے ہیں کہ ہمارے اعمال وقت کی حجتؑ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔ تو جی ہاں! بلکل ہوتے ہیں لیکن ! خدا ہمارے گناہ نہیں پیش ہونے دیتا۔ اور پروردگار اتنا رحیم ہے کہ اپنے گناہ گار بندے کے گناہ حتی نبیؐ کو بھی نہیں دکھاتا
اللہ اکبر!
کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰؑ آرہے تھے تو دیکھا کہ ایک جوان بہت رو رہا تھا۔
پوچھا : تو کیوں رو رہا ہے۔
جوان: موسیٰ آپ تو کوہ طور پر جا رہے ہیں اللہ سے میری سفارش کریں۔ میں آپ کو بتاتا ہوں میں نے کیا کیا۔
اس نے اپنا گناہ نبیؐ کو بتا دیا
جس طرح لوگ علماء کو بتاتے ہیں انبیاءؑ اور آئمہؑ کو بتاتے ہیں۔ چونکہ ان کو اپنے حق میں مہربان سمجھتے ہیں اور مانتے ہیں کہ وہ آگے نشر نہیں کرے گا۔
بعض اہل ممبر اس طرح کرتے ہیں کہ ممبر سے کسی کی بات کو نشر کر دیتے ہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ حتی اگر کوئی لفظا بات بتاتا ہے تو اس کی اصلاح کریں لیکن! اس کا راز نشر نہ کریں۔
حضرت موسیٰؑ کو بتا دیا۔ حضرت موسیٰؑ جب کوہ طور پر پہنچے تو واقعہ اللہ کی بارگاہ میں پیش کیا اور اس کی شفاعت پیش کی۔
اللہ نے فرمایا: اے موسیٰؑ تو نے میری بارگاہ میں اس کی شفاعت پیش کی تو میرا نبیؑ ہے میں تیری شفاعت قبول کرتا ہوں۔ لیکن! اس بندے سے جاکر شکوہ کرنا کہ اے میرے بندے جب میں نے تیرے گناہ کو چھپایا ہوا تھا پھر تو نے کیوں موسیٰؑ کو بتایا۔
تیرا گناہ میرے سے متعلق تھا میں تیرا رب تھا۔ میں نےتو تجھے معاف کر دیا لیکن! اب تو ساری عمر کے لیے موسیٰؑ کی آنکھوں کی جانب شرمندگی سے نہیں دیکھ سکتا۔
اے میرے بندے مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میرا بندا کسی کے سامنے بے عزت ہو حتی وہ نبیؑ کے سامنے ہی کیوں نہ ہو۔
کہتے ہیں کہ جب بندہ گناہ کرتا ہے تو اللہ ملائکہ کو فرماتا ہے کہ اسے مخفی کردو۔ اور حکم دیتا ہے کہ اسے نہ لکھو۔
روایات میں ہے کہ سات گھنٹے تک خدا کی ربوبیت منتظر رہتی ہے کہ شائد یہ میرا بندہ توبہ کر لے۔
اور جب وہ مدت گذر جاتی تو اللہ اس شخص کے مرتے دم تک منتظر رہتا ہے کہ کب یہ اس گناہ کی معافی طلب کرتا ہے۔ کہ اسے مٹا دیا جائے۔
اور یہ جو کہتے ہیں کہ یہ جو اللہ ہر روز ملائکہ کو تبدیل کرتا ہے اس کا فلسفہ بھی یہی ہے کہ اگلے دن یہ ملائکہ ہمارے گناہ کو نا دیکھیں چونکہ اگر ہر روز یہی رہیں گے تو ممکن ہے کہ یہ اللہ کی معصوم مخلوق ہم پر نفرین شروع کردے کہ تجھے تیرا پروردگار اتنا دے رہا ہے اور تو ہے کہ ناشکری کرتا ہے۔
قال : بلى ، أخبرك إني كنتُ أنبش القبور سبع سنين، أخرج الأموات وأنزع الأكفان ، فماتت جارية من بعض بنات الأنصار ، فلما حُملت الى قبرها ودفنت وانصرف عنها أهلها وجن عليهم الليل أتيت قبرها فنبشتها ثم استخرجتها ونزعت ما كان عليها من أكفانها وتركتها مجردة على شفير قبرها ومضيت منصرفاً فأتاني الشيطان فأقبل يزينها لي ويقول : أما ترى جسدها و .. أما ترى .. فلم يزل يقول لي هذا حتى رجعت إليها ، ولم أملك نفسي حتى قاربتها ، وتركتها مكانها ، فإذا أنا بصوت من ورائي يقول : يا شابُ ويل لك من ديان يوم الدين ، يوم يقفني وإياك كما تركتني عريانه في عساكر الموتى ، ونزعتني من حفرتي وسلبتني أكفاني ، وتركتني أقوم جنبة إلى حسابي ، فويل لشبابك من النار .
فرمایا: اے جوان تو نے کیا کیا ہے تو اس نے ایک گناہ سے پردہ ہٹایا۔ کہ یا رسولؐ اللہ میں قبر کھودتا تھا پھر مردے کو عریاں کرتا تھا اور اس کا کفن چراتا تھا۔ اور بیچتا تھا۔ یہ گناہ میں سات سال سے کر رہا تھا۔
یعنی! جیسے ہم کتنی غیبت کرتے ہیں۔ شمار ہی نہیں ہوتا۔
کہتا ہے کہ ایک دن میں نے ایک تازی قبر کھودی تو وہ انصار میں سے ایک جوان لڑکی کی تھی۔ اور جب میں نے اس کا کفن اتارا تو شیطان نے مجھے اکسایا پھر اس نے مردے کے ساتھ زنا کیا۔
اس وقت اس میت کے بدن سے آواز آئی کہ تجھ پر نفرین و لعن ہو اور روز قیامت میں اللہ سے مطالبہ کروں گی کہ تو نے اس طرح مجھے قبر میں عریاں پھینکا اور میرا کفن بھی چرا لیا اور مجھ سے زنا کیا۔ اب میں روز قیامت فریاد کروں گی کہ خدا تجھے جہنم میں ڈالے۔
جب اس نے مردے سے آواز سنی اس وقت یہ جوان فوراً لرز گیا۔
فما أظنّ انّي أشم ريح الجنة ابداً ، فما ترى لي يا رسول الله ؟!
اور کہتا ہے کہ اب مجھے یقین ہوگیا میں کبھی بھی جنت کی خوشبو نہیں سونگھ سکتا۔
فقال رسول الله (صلى الله عليه وآله) : تنحّ عنّي يا فاسق انّي أخاف أن أحترق بنارك فما أقربك من النار ؟! .
رسولؐ اللہﷺ نے فرمایا: اے فاسق دور ہو جا مجھ سے کہیں تیری آگ میں میں بھی نہ جل جاؤں۔ جہنم کی آگ تیرے نزدیک ہے۔
حوزہ کی مشہور شخصیت آیت اللہ جواد آملیؒ حفظ اللہ
فرماتے ہیں کہ یہ جو جہنم کی آگ ہے یہ ہمارے اردگرد ہے اور ہم اسے فقط محسوس نہیں کر رہے وہ آگ ہمارے گناہوں کے سبب بھڑک چکی ہے اور فقط موت اس تک منتقل کرے گی۔ اور اس حجاب کو ختم کر دے گی جو ہمارے اور جہنم کے درمیان ہیں۔
ہم قرآن میں پڑھتے ہیں کہ جو لوگ یتیم کا مال کھا رہے ہیں وہ جہنم کے انگارے کھا رہے ہیں ابھی تو اسے محسوس نہیں ہو رہا لیکن موت کے بعد اسے محسوس ہوگا۔
ثم لم يزل (صلى الله عليه وآله) يقول ويشير إليه حتى أمعن من بين يديه ، فذهب فأتى المدينة فتزوّد منها ، ثم أتى بعض جبالها فتعبّد فيها ، ولبس مسحاً
پیغمبرؐﷺ نے اسے نکال دیا۔
اسی لیے نبیؐ سے بھی پروردگار کہتا ہے کہ راز رکھو
اب وہ جوان مدینہ سے نکلا اور پہاڑوں میں چلا گیا، وغلّ يديه جميعاً إلى عنقه ونادى يا رب هذا عبدك بهلول ، بين يدك مغلول ، يا ربّ أنت الذي تعرفني ، وزلّ منّي ما تعلم سيدي ، يا ربّ أصبحت من النادمين ، وأتيت نبيك تائباً فطردني وزادني خوفاً ، فأسألك باسمك وجلالك وعظمة سلطانك أن لا تخيّب رجائي سيدي ، ولا تبطل دعائي ، ولا تقنّطني من رحمتك .
فلم يزل يقول ذلك أربعين يوماً وليلة ، تبكي له السباع والوحوش ، فلمّا تمت له أربعون يوماً وليلة رفع يديه إلى السماء وقال : اللهم ما فعلت في حاجتي ان كنت استجبت دعائي وغفرت خطيئتي ، فأوح إلى نبيك ، وان لم تستجب لي دعائي ، ولم تغفر لي خطيئتي ، وأردت عقوبتي فعجّل بنار تحرقني ، أو عقوبة في الدنيا تهلكني ، وخلّصني من فضيحة يوم القيامة .
اب اس نے اپنے گلے اور ہاتھ میں رسی باندھ لی اور جنگلوں اور بیابانوں میں پھرنے لگا اور پکارتا تھا اے میرے پروردگار یہ تیرا بندا بہلول ہے جو تیری بارگاہ میں ہے اور میں خود کو باندھ کر تیری بارگاہ میں پیش ہو۔ اے اللہ تو تو میری لغزشوں سے آگاہ ہے۔ میں اپنے گناہوں پر پشیمان ہوں میں تیرے پیغمبرؐ کی بارگاہ میں پیش ہوا تیرے پیغمبرؐﷺ نے تو مجھے نکال دیا ہے لیکن! مجھے یقین ہے کہ تو مجھے اپنی بارگاہ سے نہیں نکالے گا۔ اور میری ناامیدی کو امیدی میں بدلے گا کیونکہ تو نے تیری رحمت کی خبر دی ہے۔
کہتے ہیں کہ وہ چالیس شب و روز تک فقط اللہ کی بارگاہ میں گریہ کرتا رہا یہاں تک کہ اس کا بدن تحلیل ہوا۔ ایک ڈھانچے کی مانند ہوگیا۔ کہتےہیں کہ وہ اتنا گریہ کرتا تھا کہ صحراؤں اور جنگلوں کے پرندے بھی اسے دیکھ کر روتے تھے۔ اور جب چالیس دن گذر گئے تو اس نے بارگاہ پروردگار میں ہاتھ اٹھائے اور کہا اے پروردگارا! اب میرا کیا بنے گا۔ اگر تو نے مجھے بخش دیا ہے تو اپنے پیغمبرؐﷺ کو وحی فرما۔ اور اگر تو نے مجھے نہیں بخشا اور چاہتا ہے کہ مجھ پر عذاب کرے تو پھر ابھی مجھے دنیا میں عذاب بھیج۔ تاکہ میں قبول کرو۔
فأنزل الله تبارك وتعالى على نبيه (صلّى الله عليه وآله) :
اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبرؐﷺ پر آیت نازل کی۔
سورہ آل عمران 135
وَالَّـذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوٓا اَنْفُسَهُـمْ ذَكَرُوا اللّـٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُـوْبِهِـمْۖ وَمَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُـوْبَ اِلَّا اللَّهُۖ وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَهُـمْ يَعْلَمُوْنَ (135)
اور وہ لوگ جب کوئی کھلا گناہ (زنا) کر بیٹھیں یا اپنے حق میں ظلم کریں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں اور اپنے گناہوں سے بخشش مانگتے ہیں، اور سوائے اللہ کے اور کون گناہ بخشنے والا ہے، اور اپنے کیے پر وہ اڑتے نہیں اور وہ جانتے ہیں۔
اللہ نے پیغمبرؐﷺ سے شکوہ کیا۔
اے محمدؐﷺ میرا بندہ آپؐ کے پاس آیا تھا اور آپﷺ نے اسے دھتکار دیا تو پھر وہ میرے سوا کہا جاتا۔
یعنی! اگر کسی نے کوئی گناہ کیا ہو تو اسے دھتکارنا نہیں چاہیے ۔ ہمارے بعض علماء ، والدین حتی بزرگ یہ غلطی کرتے ہیں کہ اگر کسی کے گناہ کا پتہ چل جائے تو کہتے ہیں کہ یہ تو حتماً جہنمی ہے۔ ہمیں یہ کہنے کا حق نہیں حتی ! پیغمبرؐﷺ کو بھی نہیں۔
اللہ نے فرمایا: اے پیغمبرؐﷺ پھر وہ میرے سوا کہاں جاتا۔ اور اس نے توبہ کی اور میں اس کی توبہ کو قبول کر رہا ہوں۔
اور اس شخص کے ان گناہوں کو معاف کر رہا ہوں اور اسے بہشت میں داخل کروں گا۔
جو بھی گناہوں کے بعد توبہ کرتے ہیں اللہ نے وعدہ کیا ہے انہیں معاف کردیتا ہے اور وہ بہشت میں جائیں گے۔
فلمّا نزلت هذه الآية على رسول الله (صلّى الله عليه وآله) خرج وهو يتلوها ويتبسّم ، فقال لأصحابه : من يدلني على ذلك الشاب التائب ؟
جب یہ آیت نازل ہوگئی تو پیغمبرؐﷺ اسلام نکلے اور اس حال میں کہ اپنے لبوں پر اس آیت کی تلاوت بھی فرما رہے تھے۔ پھر اپنے اصحاب سے کہا کہ تم میں سے کون ہے جو مجھے بتائے کہ وہ جوان اس وقت کہاں ہے۔
فقال معاذ : يا رسول الله بلغنا انّه في موضع كذا وكذا .
جناب معاذؒ نے کہا: یارسولؐ اللہﷺ ہمیں پتہ ہے کہ وہ کہاں ہے۔
فمضى رسول الله (صلّى الله عليه وآله وسلّم) بأصحابه حتى انتهوا إلى ذلك الجبل فصعدوا إليه يطلبون الشاب ، فاذا هم بالشاب قائم بين صخرتين ، مغلولة يداه إلى عنقه ، قد اسود وجهه ، وتساقطت أشفار عينيه من البكاء ، وهو يقول : يا سيدي قد أحسنت خلقي ، وأحسنت صورتي ، فليت شعري ماذا تريد بي ؟ , أفي النار تحرقني ، أو في جوارك تسكنني ؟ , اللهم انّك قد أكثرت الاحسان إليّ وأنعمت عليّ ، فليت شعري ماذا يكون آخر أمري ؟ , الى الجنة تزفّني ؟ أم إلى النار تسوقني ؟
بالآخر وہ پہنچے اس جگہ پر اور اس جوان کو بلایا تو وہ کس حالت میں تھا کہ وہ دو پتھروں کے درمیان کھڑا ہے اور اس خوبصورت جوان کا چہرہ سورج کی تپش سے سیاہ ہو چکا تھا اور اس کی پلکیں کثرت گریہ سے گر چکی تھیں۔
اللهم انّ خطيئتي أعظم من السماوات والأرض ، وكرسيّك الواسع ، وعرشك العظيم ! , فليت شعري تغفر خطيئتي أم تفضحني بها يوم القيامة ؟ .
فلم يزل يقول نحو هذا وهو يبكي ويحثو التراب على رأسه ، وقد أحاطت به السباع ، وصفّت فوقه الطير ، وهم يبكون لبكائه .
فدنا رسول الله (صلّى الله عليه وآله وسلّم) فأطلق يديه من عنقه ، ونقض التراب عن رأسه ، وقال : يا بهلول ! أبشر فانّك عتيق الله من النار.
اب وہ جوان اللہ کی بارگاہ میں کیا کہہ رہا تھا۔ اے اللہ تو نے مجھے کتنا خوبصورت خلق کیا تھا کاش مجھے پتہ ہوتا کہ میری عاقبت کیا ہوگی۔ کاش !
کہتے ہیں کہ انسان کی سب سے بڑی فکر یہ نہیں ہونی چاہیے کہ مجھے مال ملے ۔ اولاد کا کیا بنے گا۔ مجھے کھانے میں کیا ملے گا؟ وغیرہ یہ تو نظام قدرت ہے اور ہر چیز اپنے نظام پہ چل رہی ہے ۔ اگر فکر کرنی ہے تو وہ عاقبت کی ہے۔ کہ میرا کیا بنے گا۔ کاش مجھے پتہ ہوتا اے پروردگارا! تو نے مجھے جنت میں جہنم میں بھیجنا ہے۔
اور تو تو گناہوں کا بخشنے والا ہے۔ اس کی ایسی حالت تھی۔ وہ خاک پر سر مارتا تھا۔ سب درندے اس کے اردگرد بیٹھے تھے۔ اور گریہ کرتے تھے۔
کہتے ہیں کہ پیغمبرؐاسلامﷺ اس کے پاس گئے اس کی رسی کھولی اس کے سر سے خاک صاف کی اور فرمایا :
ثم قال (صلّى الله عليه وآله وسلّم) لأصحابه : هكذا تداركوا الذنوب كما تداركها بهلول ، ثم تلا عليه ما أنزل الله عزّ وجلّ فيه ، وبشّره بالجنّة
اے بہلول میں تجھے خبر دینے آیا ہوں کہ اللہ نے تجھے معاف کر دیا۔ اور پھر اصحاب سے ہم کلام ہوئے کہ اگر توبہ کرنا چاہتے ہو تو بہلول سے سیکھو۔
پروردگار ہمیں توفیق دے کہ ہم بھی اپنے گناہوں کی طرف اپنی زندگی میں ہی توجہ کریں اور دعا ہے کہ اللہ ہمیں خالص توبہ کی توفیق دے اور ہم اس کے توبہ گذار بندوں میں سے قرار پائیں۔ پروردگار ہمیں ایسے علماء اور ایسے مبلغ میں سے قرار دے جو تیرے بندوں کو تیری رحمت سے مایوس نہ کریں بلکہ! تیری رحمت کے قریب لائیں۔ پروردگارا! ہمیں دین حق کی صحیح معنوں میں تبلیغ نصیب فرما اور امام زماںؑ عج کے ناصرین میں شمار فرما۔
الہیٰ آمین!
والسلام۔
عالمی مرکز مہدویت قم ایران