درس اخلاق
ہم ہر وقت کن کی نگاہوں میں ہوتے ہیں؟
خطاب مدرسہ الامام المنتظر قم مقدس۔ بعد از دعائے ندبہ
استاد محترم قبلہ علامہ علی اصغر سیفی صاحب
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَقُلِ اعْمَلُوْا فَسَيَـرَى اللّـٰهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُوْلُـهٝ وَالْمُؤْمِنُـوْنَ۔
اور پیغمبرؐﷺ کہہ دیجئے کہ تم لوگ عمل کرتے رہو کہ تمھارے عمل کو اللہ ، رسولؐﷺ اور صاحبان ایمان سب دیکھ رہے ہیں۔
دعائے ندبہ:
اسے دعا بھی کہتے ہیں اور ندبہ بھی۔ ندبہ یعنی استغاثہ ہے اور یہ وہ دعا ہے کہ جس کے اندر مکمل طور پر تمام شیعہ عقائد موجود ہیں، اور مولا امام زمانؑ عج کی غیبت پر اللہ کی بارگاہ میں استغاثہ ہے۔
اب یہاں علماء بحث کرتے ہیں بعض کہتے ہیں یہ دعا جو ہے خود امام صادقؑ سے نقل ہوئی ہے۔ بعض کہتے ہیں یہ خود امام زمانؑ عج سے نقل ہے۔
دعا کرنے کا فلسفہ کیا ہے
جیسا کہ امام صادقؑ کا فرمان ہے کہ حدِ عقل ہر روز قران مجید کی پچاس آیات کی تلاوت ہو ۔ صرف تلاوت ہو یا جیسے ہر روز کے اذکار لکھے جاتے ہیں۔ ہر روز کی دعائیں ہیں اور ہر نماز کے بعد کی دعائیں ہیں۔
قطع نظر اس کے کہ ان کے جو مفاہیم ہیں جو معنی ہیں اس کے اندر تو دریائے معرفت ہے اور اگر کوئی ان چیزوں کی طرف توجہ کر کے پڑھے یہ تو بہت بلند مقام ہے یہ تو اولیاء کا مقام ہے۔ لیکن! اگر ہم صرف ظاہری طور پر عربی ہی پڑھ لیتے ہیں جیسے ابھی دعائے ندبہ کی تلاوت ہوئی یا باقی جو اذکار ہیں جیسے آج روز جمعہ ہے، سب سے بہترین ذکر خود صلوات بر محمدؐﷺ و آل محمدؑﷺ ہے۔
دعاؤں اور اذکار کے فوائد:
کہتے ہیں اس کا جو فائدہ ہے وہ یہ ہے کہ انسان کے اندر کی جو روحانی اور فکری بیماریاں ہیں ان کا اثر ٹوٹتا ہے یعنی! یہ شفا ہے۔
تلاوت قرآن کے فوائد:
امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ :
اگر کوئی ہر روز قرآن مجید کی پچاس آیات کی تلاوت کرے تو وہ غافلین میں سے نہیں ہوگا۔اللہ اکبر۔
غفلت خود ایک بیماری ہے کہ انسان اللہ سے اور اپنے فرائض سے غافل ہو جائے۔ فرماتے ہیں کہ: پھر وہ انسان غافلین میں سے نہیں ہوگا یعنی یہ پچاس آیہ مجیدہ کی تلاوت اسے اپنے رب کی طرف، اپنے فرائض کی طرف اور اپنے امام کی طرف متوجہ کرے گی۔
دعاؤں کے فوائد:
دعاؤں کی اگر کچھ سمجھ بھی نہ آرہی ہوں اور فقط عربی جو متن ہے اس کے اندر اتنا نور اور رحمت ہے کہ ہماری بہت ساری روحی بیماریوں، بہت ساری بری عادات بہت سارے فکری اضطراب سب کے لیے یہ بہترین شفا ہے اور یہ ایک قسم کی دوا ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ وہ لوگ جو اضطراب کا شکار ہیں یا جو شرِ نفس کا اور شرِ شیطان کا شکار ہیں تو کہتے ہیں انسان پر جب شیاطین کے حملے ہوں تو معوذتین کی تلاوت کرے، آیت الکرسی کی تلاوت کرے تو یہ ساری چیزیں اسی عنوان سے ہیں۔
دعائے ندبہ کے تو بے پناہ آثار ہیں اور برکات ہیں اور سب سے بڑا اثر جو ہمارے لیے ہے وہ یہ ہے کہ روز جمعہ جو اس دعا کا اہتمام کرتے ہیں وہ مولا امام زماں کی نگاہ لطف میں آجاتے ہیں۔
ویسے تو ہماری بعض آیات جو ہیں وہ ہمیں یہ بتاتی ہیں کہ انسان ہمیشہ نگاہوں میں ہوتا ہے اللہ کی نگاہ، میں رسول کی نگاہ میں، امام کی نگاہ میں لیکن ایک دفعہ خصوصی نگاہ، نگاہِ لطف میں ہو۔ جیسے سورہ توبہ کی 105 نمبر آیا ہے کہ پروردگار فرما رہا ہے کہ:
وَقُلِ اعْمَلُوْا
اور پیغمبرؐﷺ کہہ دیجئے کہ تم لوگ عمل کرتے رہو
فَسَيَـرَى اللّـٰهُ عَمَلَكُمْ
کہ تمھارے عمل کو اللہ،
وَرَسُوْلُـهٝ
رسولؐﷺ بھی ہمارے اعمال کے شاہد ہیں
وَالْمُؤْمِنُـوْنَ
اور صاحبان ایمان سب دیکھ رہے ہیں۔
یعنی! تین ہستیاں ہمیشہ ان کی نگاہوں میں ہم رہتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ ہم اکیلے بیٹھے ہیں۔ کوئی شخص آج کے دور میں اکیلے کونے میں موبائل لے کر بیٹھا ہے تو وہ سمجھتا ہے میں تنہا ہوں۔ لیکن! اسی لحظے میں تین نگاہیں اور بھی ہیں۔ البتہ! نگاہیں زیادہ ہیں ہمارے جو کندھوں پر ملائکہ ہیں وہ بھی ہمارے اعمال کو دیکھ رہے ہیں اور لکھ رہے ہیں۔ ان کے علاوہ خود پروردگار ہمیشہ ہمارے ہمیشہ ہمارے اعمال کا شاہد ہے۔
اس لیے ہمارے آئمہؑ یہ کثرت سے فرمایا کرتے تھے اور ہمارے بزرگان کی گفتگو میں بھی ہے کہ گناہ کرتے وقت انسان کو شرم کرنی چاہیے، چونکہ! ہم خالق کی نگاہوں کے سامنے ہیں۔ مثلاً! ہو ہی نہیں سکتا کہ میں کوئی عمل کروں اور اس کی نگاہ نہ مجھ پہ پڑ جائے ہمیشہ مالک کی نگاہوں میں ہیں۔
یہ تو پروردگار کا لطف اور رحمت ہے کہ ہماری اتنی معصیت ہماری اتنی نافرمانیاں دیکھنے کے باوجود وہ رحمت کا سلسلہ ختم نہیں کرتا، وہ رزق کا سلسلہ ختم نہیں کرتا، وہ ہماری حیات کا سلسلہ ختم نہیں کرتا یہ اس کی بےپناہ محبت ہے۔ اسی لیے تو کہا جاتا ہے (اَرحَمَ الرَّاحِمِین) اس لیے تو کہا جاتا ہے کہ وہ کریم ہے۔
اللہ کے علاوہ کون ہستی ہمارے اعمال کے شاہد ہیں
ہمارے پیغمبرؐﷺ ہیں اگرچہ وہ عالم برزخ میں ہیں لیکن! امت کے اعمال کے شاہد ہیں۔ اب وہ خدا کیسے ان تک پہنچاتا ہے؟ وہ خود دیکھتے ہیں، خدا ان تک پہنچاتا ہے یہ ایک نظام ہے۔ ہمیں اس کا شاید دقیق علم نہیں ہے۔ لیکن ! یہ علم ہے کہ وہ دیکھ رہے ہیں۔
اللہ اور پیغمبرؐﷺ کے علاوہ ہمارے اعمال کی تیسری ہستی شاہد کون ہے؟؟
پروردگار عالم نے فرمایا: گروہ مومنین۔
اب اس کے ذیل میں جو روایات ہیں تفسیر برہان میں آجائیں، تفسیر صافی میں آجائیں، جو ہماری دوسری تفاسیر ہیں تفسیر روایی اس میں معصومینؑ فرماتے ہیں کہ: یہاں مومنین سے مراد ہم آئمہؑ علیہم السلام ہیں۔ ہر دور کا امامؑ اپنے زمانے کے لوگوں کے اعمال کا شاہد ہے۔ کیونکہ یہ ہیں مومنون۔ اصل میں ایمان کامل یہ ہیں، اصل میں جس پر لفظ مومن کا اطلاق ہو وہ یہ ہیں۔ ہم تو ان کی اتباع میں ہیں۔ ورنہ اصل مومن تو یہ ہیں۔ ہر زمانے کا امامؑ جو انسان کامل ہے اور ایمان کامل رکھتا ہے کہ جس خدا مومن کہے گا۔ وہ تو ہم ایک دوسرے کو مومن کہتے ہیں۔ لیکن! نگاہ خدا میں تو وہ مومن ہے نا کہ جو واقعاً منزل ایمان پر فائز ہو کامل ہو۔
فرماتے ہیں کہ:
یہاں مومنون سے مراد تم عام لوگ نہیں ہو۔ ہم تو ایک دوسرے کے اعمال دیکھتے ہی نہیں ہیں۔ وہ جو نگاہوں کے سامنے کوئی کرے ورنہ ہمیں کیا پتہ کہ تنہائی میں یہ کیا کر رہا ہے۔ لیکن! وہ ہستی جو تنہائی کے ہمارے اعمال جو ہم پوشیدہ کرتے ہیں دیکھتی ہے وہ امامؑ وقت عج ہیں۔ اسی لیے آپ دیکھیں کہ امام کا ایک لقب «حجت» ہے۔ حجت یعنی جو امت کے اعمال کا شاہد ہو۔ جو امت کے اعمال کا گواہ ہو۔
امام ہمارے اعمال کے شاہد ہمارے اعمال پر گواہ ہیں۔ اور روایات کہتی ہیں کہ ہر روز ہمارے اعمال صبح و شام امامؑ عج کی خدمت میں پیش ہوتے ہیں۔ اب یہاں نظام کیا ہے وہ ہمیں معلوم نہیں کہ امامؑ عج ان اعمال کو خود دیکھتے ہیں یا ان تک پہنچائے جاتے ہیں۔ یہ ہمیں معلوم نہیں ہے، نہ ہم اس میں بحث کریں گے۔ لیکن! یہ پتہ ہے کہ احادیث اور روایات موجود ہیں جو عرضِ اعمال کو بیان کر رہی ہیں۔ بعض کہتے ہیں ہفتے میں ایک دن مثلاً جمعرات یا جمعہ بعض کہتے نہیں ہر روز بلکہ ہر روز دو مرتبہ، تو اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہمارے اعمال ان کی نگاہوں کے سامنے پیش ہوتے ہیں اور وہ ہمارے اعمال کو دیکھتے ہیں۔
اور پھر یہ شکوہ جو امام کا ہم تک پہنچتا ہے وہ بھی اسی عنوان سے ہے امام زمانؑ عج کا یہ مشہور شکوہ ہے جو ان کی توقیعات مبارکہ میں ہے:
فَما يَحْبِسُنا عَنْهُمْ إلاّ ما يَتَّصِلُ بِنا مِمّا نُكْرِهُهُ
فرماتے ہیں کہ:
میری غیبت اور آپ کے درمیان یہ جو حجاب ہیں یہ جو سلسلہ غیبت بڑھ رہا ہےاورختم نہیں ہو رہا۔
فرماتے ہیں:
تمھارے اعمال، یعنی تمھارے وہ اعمال کہ جنہیں ہم پسند نہیں کرتے۔
یعنی! اعمال بڑے اہم ہیں۔ اسی لیے آپ دیکھیں کہ ہمارے پاس جو ہے یہ بزرگان کے ایسے ایسے واقعات اور ہدایات ہیں جس میں یہ بیان ہوتا ہے کہ یہ ہستیاں ہمارے اعمال لکھتی ہیں۔ حتیٰ اور بھی۔
انسان اگر اس موضوع کو شروع کر دے تو محسوس کرے گا پتہ نہیں کتنی آنکھیں ہیں اسے جو دیکھ رہی ہیں۔ انسان کہیں بھی ہو، کسی جگہ پہ تنہا نہیں ہے۔
صاحب تفسیر میزان علامہ طباطبائیؒ اور شاہ حسین ولیّؒ کا واقعہ
علامہ طباطبائیؒ جن کی قبر مبارک حرم حضرت معصومہؑ سلام اللہ علیہا میں ہے۔ آپ جب بھی جائیں وہاں ضرور ان کی قبر مبارک پر ایک فاتحہ یا حدِ اقل ایک صلوات پڑھیں۔ اللھم صلی علی محمدؐﷺ و آل محمدؑﷺ۔
بہت بلند اور بہت عرفانی ہستی ہیں۔ جامع العلوم ہیں۔ میں ان کا ایک واقعہ پڑھ رہا تھا جو انہوں نے بیان کیا۔
آقا ایک مرتبہ نجف میں تھے اور ان کا پیچھے سے تعلق تبریز سے تھا اور عراق ایران جنگ ابھی شروع ہوئی تھی تو پریشان ہوئے کہ تبریز سے اپ پیسے کیسے آئیں گے۔ چونکہ جنگ طولانی ہو رہی ہے۔ بس کہتے ہیں میرے ذہن میں یہ خیال آیا اب یہاں میں عرض کروں گا کہ یہ جو ہستیاں جو مقرب ہوتی ہیں ان پر پروردگار اور اولیاء خدا کی زیادہ نگاہ ہوتی ہے چونکہ یہ وہ لوگ جو نگاہوں میں آچکے ہیں جو مورد لطف ہیں۔ جو ایسے کام کرتے ہیں کہ بالآخر مقربین میں شمار ہونے لگتے ہیں۔ علامہ طباطبائیؒ جو صاحب عرفان اور علمی، معنوی اعتبار سے بہت بلند ہستی ہیں کہتے ہیں کہ:
ایسے میرے ذہن میں خیال آیا کہ جنگ طولانی ہو رہی ہے اور نجف میں بالآخر ایک زندگی ہے۔ تو اب پیچھے گھر یعنی تبریز سے پیسے کیسے آئیں گے؟۔ کہتے ہیں ایسے میرے ذہن میں بھی خیال آیا تو ایک دم کسی نے دروازے پہ دستک دی۔ جب میں نے جا کر دروازہ کھولا تو سامنے ایک انسان دیکھا جو بڑا خوبصورت تھا لیکن! ان کے احلیہ سے لگ رہا تھا کہ وہ کسی قدیم زمانے کا انسان تھا۔ انہوں نے کہا کہ ان اٹھارہ سالوں میں ہم نے کب آپ کو بھوکا رہنے دیا ہے۔ کہ جو ابھی اپ پریشان ہو رہے ہیں کہ پیسہ کیسے آئیں گے، آج تک تم ایک شب بھی بھوکے سوئے ہو اس کے بعد انہوں نے کہا خدا حافظ اور چلے گئے۔ یہ واپس گھر میں آئے اور سوچنے لگے یہ کون تھے یہ کیا مسئلہ ہے!۔ اچھا اس ہستی نے اپنا نام بھی بتایا انہوں نے پوچھا آپ کون ہیں انہوں نے کہا میں شاہ حسین ولیّؒ ہوں۔ یہ اب گھر میں آئے اور سوچنے لگے کہ یہ شاہ حسین ولیؒ کون ہے؟۔ لیکن ایک چیز ان کے ذہن میں آئی کہ یہ جو اٹھارہ سال انہوں نے کہے ہیں تو مجھے نجف میں آئے ہوئے خود اٹھارہ سال ہو گئے ہیں، واقعاً ان 18 سالوں میں ہمیشہ مورد لطف پروردگار ہیں اور کبھی بھی کوئی رات بھوکے نہیں سوئے، فوراً یہ ذہن میں آیا کہ جب سے میں نے یہ علمِ دین کے حوالے سے قدم رکھا اب جیسے یہاں قم میں ہمارے علمائے کرام آتے، بعض دفعہ بڑے پریشان ہوتے ہیں۔ لیکن! ہم یہی کہتے ہیں اور یہی حقیقت بھی ہے کہ یہاں ان ہستیوں کا کرم ہے کہ یہاں بڑی بڑی بزرگ ہستیاں یہاں دفن ہیں اور بالخصوص حضرت معصومہؑ سلام اللہ علیہا کہ مقامِ شان ہے ان کا۔ (اللھم صلی علی محمدؐﷺ و آل محمدؑﷺ) یہاں کچھ بھی نہیں ہوگا بعض اوقات پریشانیاں ہوتی ہیں وہ ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں، یا آزمائش الٰہی ہیں ورنہ انسان جن اہداف کے ساتھ یہاں آیا ہے چاہے وہ دنیاوی ہو یا اخروی وہ کامیاب ہو گیا۔ یہاں جو بھی ہے وہ اسے ان اہداف میں مدد کرتے ہیں۔
سبحان اللہ۔
درست ہے یہاں ایک رحمت کا سلسلہ ہے اب اس سے وہ غلط استفادہ کرے وہ علیحدہ بات ہے ایک رحمت جاری اور ساری ہے۔ درست ہے کہ میری اپنی تربیت نہیں ہوئی۔ جیسے کہتے ہیں جب باران رحمت آتی ہے باغوں پر جب گرتی ہے باغ زمین پر تو خوشبوئیں اٹھتی ہیں۔ لیکن! جب نجس جگہوں پہ گرتی ہے تو وہ جگہ کا قصور ہے نا اس نے اپنے اپ کو نجس رکھا ہوا ہے۔ میرا ظرف کیسا ہے وہ ایک علیحدہ بات ہے لیکن! یہاں رحمت ہے اور آگے سے آگے لے جا رہی ہے، تو علامہ طباطبائؒی فرماتے ہیں کہ میں حیران ہوا کہ یہ اٹھارہ سال جو کہا ہے یعنی! میں جب سے نجف آیا ہوں اب تک اٹھارہ سال گزر گئے۔ پھر کہتے ہیں کہ ہمیں پیچھے گھر یعنی تبریز سے پیغام آیا کہ اپ واپس گھر آجائیں کیونکہ ایران عراق کے حالات خراب ہو رہے تھے تو میں نے صبح سوچا کہ جاؤں ذرا وادی السلام کیونکہ ہر روز قبور مبارک کی زیارت کی عادت تھی۔ کہتے ہیں کہ جب میں وادی السلام گیا تو ایک قبر جیسے مجھے اپنی جانب کھینچ رہی ہے۔ بعض قبروں میں بڑی وہ جاذبہ والی کیفیت ہوتی ہے انسان کا دل کرتا ہے بار بار وہاں جائے۔ جب میں گیا تو وہ قدیم زمانے کی قبر تھی وہاں میں نے فاتحہ پڑھی تو دیکھا وہاں قبر کے کتبے پر لکھا ہوا ہے شاہ حسین ولیّؒ اور میں نے جب اس کی تاریخ پڑھی تو وہ تین سو سال پہلے کے فوت ہو چکے ہیں۔
یہی ارواحِ طیبہ جو کہ امامؑ نہیں ہیں بلکہ صالحین میں سے تھے کوئی نیک آدمی تھے لیکن! انہیں پروردگار نے کتنی عظمت دی تھی کہ وہ دنیا سے چلے گئے ہیں لیکن! دنیا کی امور پر ان کی کتنی نگاہ تھی۔ اب عظمتِ امام کو آپ دیکھیں وہ کہاں ہیں کس مقام پر ہے۔اللہ اکبر۔
یعنی یہ نکتہ جو وہ ہے کہ یہ جو صالحین ہیں کہ موت عدم نہیں ہے یعنی ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا سے چلا گیا ہے۔ وہ اصل میں ہماری انکھیں اسے درک نہیں کر رہی ہوتیں۔ وہ یہیں موجود ہیں دنیا کے امور پر ان کی نگاہ ہے، بالخصوص صالح افراد جو اولیائے خدا ہیں وہ اس دنیا سے جانے کے باوجود دنیا پر ان کی نگاہ ہے۔
کہتے ہیں میرے ذہن میں ایک خیال آیا تو یہ ولی خدا نے آکر مجھے تنبیہ کی کہ 18 سال میں تو ایک رات بھی بھوکا سویا ہے کہ تجھے آج رزق کی فکر پڑ گئی ہے۔ یہ ایک عام آدمی یعنی امامؑ عج کی نسبت یہ عام آدمی تھے۔ اگرچہ ولی خدا تھے۔
مقام امام زمانؑ عج
اب تصور فرمائیں کہ امامؑ عج کس مقام پر ہیں یہ جودنیا کے امور پر جو ان کی نگاہ ہے۔ اور نبیؐﷺ کس اس مقام پر ہے اور خدا۔اللہ اکبر۔خدا تو پھر خدا ہے۔ مثلاً وہ تو قابل قیاس ہی نہیں بلکہ ہم کہیں گے کہ آئمہؑ علیہم السلام کا مقام بھی ہمارے لیے ہمارے لیے قیاس اور عقل سے بڑھ کر ہے۔ آٹھویں مولا امام علی ابن موسیٰ رضاؑ کا یہی تو فرمان تھا:
جب یہ مسئلہ خلافت ہوا تھا، اسی مسئلے کی طرف اشارہ ہے کہ جو اوائل پیغمبؐر اسلامﷺ کی رحلت کے بعد جو تنازعہ خلافت ہوا تھا، اور کچھ لوگوں نے کسی کو بنایا تو فرمایا:
تم سمجھتے ہو مقام امامت کو؟؟ تم ایک شخص کو خلیفہ یا امام بنا رہے ہو، مثلاً تمھاری عقل سے بڑھ کر ہے اسے کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا۔
درست ہے امام بالآخر ایک بشر ہے، انسان ہے لیکن بشر اور بشر میں بہت فرق ہے۔ ہم خود اپنے عام معاملات میں ایک عام انسان کو دوسرے عام انسان کے درمیان بڑا فرق پاتے ہیں، اور وہ جو حجت خدا کے مقام پر فائز ہیں۔ معصومؑ کے حوالے سے ایک واقعے کی جانب اشارہ کرتے ہیں۔
آیت اللہ میرزا حبیب اللہ گلپائیگانیؒ کا واقعہ
ایک بہت بڑی ہستی گذرے ہیں۔ میرزا حبیب اللہ گلپائیگانی آیت اللہ تھے، مجتہد تھے اور مشہد کے تھے۔ اگر آپ گوگل پر تلاش کریں تو اُن کی تصویر مبارک بھی نظر آئے گی ان کے دائیں ہاتھ کو کیمیا کہتے تھے۔ جو لوگ جاتے تھے بیمار وہ بدن پہ رکھتے تھے شفا ہو جاتی تھی یعنی ان کا دستِ راست کیمیا تھا۔ البتہ یہ واقعہ آیت اللہ وحید خراسانیؒ حفظہ اللہ انہوں نے بیان کیا میں ان کی زبان سے بیان کررہا ہوں۔
فرماتے ہیں کہ:
میں نے خود اُن کو دیکھا اور ان کی خدمت میں پہنچا تو میں نے پوچھا کہ یہ کس طرح ہوا؟ کہنے لگے میں بیمار ہو گیا تھا ایک دفعہ بڑا سخت اور مشہد کے ہسپتال میں داخل تھا۔ حالت ایسے ہی تھی کہ آج وفات ہوتی ہے کل ہوتی ہے اسی حالت میں تھا اور ایت اللہ حبیب اللہ گلپائیگانیؒ یہ وہ عظیم عالم تھے کہ جنہوں نے چالیس سال صبح سب سے پہلے زائر امام رضاؑ تھے۔ جیسے یہ آیت اللہ مرعشی نجفیؒ کے بارے میں کہتے ہیں ساٹھ سال پہلے زائر حضرت معصومہ سلام اللہ علیہا تھے یعنی حرم کے بند دروازوں کے پیچھے وہ نماز پڑھتے تھے۔ میرزا حبیب اللہ گلپئگانی مشہد میں تھے۔ صبح صبح چاہے گرمی ہو یا سردی ہو اُن کی عادت تھی کہ وہ تہجد کی نماز حرم کے بند دروازے کے پیچھے پڑھتے تھے۔ اب حرم کے دروازے چوبیس گھنٹے کھلے رہتے ہیں۔ پہلے رات کو حرم کے دروازے بند ہو جاتے تھے۔ انہوں نے صبح اپنا سجادہ اٹھانا نماز فجر سے پہلے انہوں نے حرم کے دروازے پہ پہنچنا اور پشتِ دروازہ انہوں نے تہجد پڑھنی، اور جب فجر کے لیے حرم کا دروازہ کھلتا تو وہ سب سے پہلے زائر ہوتے تھے۔ ابھی اُن کی عقیدت یہ بالآخر ان کی نگاہ تھی کہ میں مولا امام رضؑا علیہ السلام کے جوار میں جاکر اور ان کے حرم کے دروازے پر جا کر تہجد پڑھوں گا۔ تو کہتے ہیں وہ جب بیمار ہوئے تو اسی عالم میں کہ جب بڑی سخت اذیت تھی کہ ڈاکٹر ایک قسم کا جواب دے چکے تھے تو انہوں نے ایک توسل کیا کہنے لگے مولا میں چالیس سال سے آپ کے حرم مبارک کے دروازے پر میں تہجد پڑھنے والا ہوں۔ گرمی سردی کوئی پرواہ نہیں کرتا تھا بارش ہو جو اس عالم میں انہوں نے وہاں نماز پڑھنی ہے تو اپ کا پہلا زائر تھا، مولاؑ اگر میری زندگی ہے تو مجھے اپنے دست عنایت سے کرم فرمائیے میں آپ کی بارگاہ میں توسل کرتا ہوں۔ تو کہتے ہیں ایسے ہی میں توسل کر رہا تھا ایک دم وہ جو ہسپتال کے کمرے کی فضا ہے وہ تبدیل ہو گئی یعنی حالت مکاشفہ شروع ہو گئی کہنے لگے میں نے دیکھا بالکل دنیا تبدیل ہو گئی میرے سامنے ایک بڑا سا باغ ہے اور ایک بڑی خوبصورت اور زیبا اور ایک بہت بڑی معنوی روحانی شخصیت تشریف فرما ہیں، ارد گرد پھول ہیں تو کسی نے کہا آپ اس وقت آٹھویں مولا امام ہشتم صلوات اللہ علیہ کی بارگاہ میں ہیں۔ (اللھم صلی علی محمدؐﷺ و آل محمدؑﷺ) پہلی مرتبہ مکاشفے کی حالت میں چہرہ مبارک کی زیارت ہو رہی تھی تو وہی بات دوبارہ مولاؑ کی خدمت میں کہی تو انہوں نے مسکرا کر وہاں سے ایک پھول توڑا اور میرے حوالے کر دیا۔ کہتے وہ پھول میں نے وصول کیا اس کے بعد وہ حالت مکاشفہ ختم ہوگئی۔ یعنی دیکھا کہ میرا دائیاں ہاتھ ٹھیک ہو گیا یعنی پورا بدن درد کر رہا تھا اب یہ ہاتھ ٹھیک ہو گیا جس سے میں نے پھول وصول کیا تھا۔ پھر میں بدن کے جس جس حصے پہ وہ ہاتھ لگا رہا تھا وہاں وہاں سے یعنی ابھی مولاؑ کے دست مبارک سے میرا ہاتھ مس نہیں ہوا بلکہ امامؑ نے جس چیز کو ہاتھ لگایا تھا میں نے صرف اس چیز کو پکڑا ہے تو کہتے ہیں کہ ان کا یہ دست مبارک بھی صحیح ہو گیا اور میرے اس ہاتھ سے پتہ نہیں ہزاروں مریضوں کو شفا ہوئی۔ یعنی اب توجہ فرمائیں یہ ہستیاں اس دنیا کا جو نظام ہے ہم اسے شاید چند باتوں میں خلاصہ کر دیتے ہیں کہ صبح شام چند ایک ہماری آرزوئیں خواہشیں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے پتہ نہیں اس کائنات کے اندر کتنی ظرافت اور کتنی وسعت رکھی ہوئی ہے۔سبحان اللہ۔
پروردگار کی بارگاہ میں دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو وقت کے مولاؑ امام زمانؑ عج کے دست مبارک اور ان کی نگاہِ شفقت اور ان کی نگاہِ کرم اور مولا ع کی جو توجہ ہے اس کا ہمیں مستحق اور اس کا دوسرے لفظوں میں موردِ لطف ہمیں قرار دے۔آمین
امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں کہ:
«إِذَا قَامَ قَائِمُنَا، وَضَعَ اللّهُ يَدَهُ عَلى رُؤُوسِ الْعِبَادِ، فَجَمَعَ بِهَا عُقُولَهُمْ وَكَمَلَتْ بِهِ أَحْلامُهُمْ»
کہتے ہیں امام زمانؑ عج جب ظہور فرمائیں گے تو لوگوں کے سروں پہ اپنا دست مبارک رکھیں گے کہ جب عصر ظہور شروع ہوگا اور اللہ ہم سب کو وہ زمانہ دکھائے لوگوں کے سروں پر اپنا دست مبارک رکھیں گے۔ البتہ میں اس کی جو تعبیر کرتا ہوں وہ یہ کرتا ہوں کہ لازمی نہیں ہے ہر آدمی کے سر پہ ہاتھ رکھیں یعنی یہاں دست سے مراد قدرت اور حکومت ہے یعنی مولاؑ عج کا جب زمانہ قدرت اور حکومت شروع ہوگا تو ان کے زیر سایہ لوگوں کی عقلیں کامل ہوں گی لوگوں کے اخلاق کامل ہوں گے تو یہ ان کی نگاہ مبارک ہوگی ان کی وہ حکومت، حکومت عالیہ حکومت علوی ہے۔
پروردگار ہم سب کو زمانے کے امام ع کی نگاہوں میں قرار دے ان کی دعاؤں میں قرار دے ان کی زیارت کا شرف ہمیں عطا فرمائے انشاءاللہ مولا کا زمانہ ظہور دیکھیں ان کے ناصر بنے خدمت گزار بنیں۔
آمین۔
عالمی مرکز مہدویت قم_ ایران