تازہ ترین پوسٹس

درس اخلاق منتظرین:18۔ کیسے گناہ سے بچیں

درس اخلاق منتظرین:18

کیسے گناہ سے بچیں

آج کا ہمارا موضوع نفس امارہ ہے اور یہ برائیاں اور خطائیں جو ہم سے ہوتی ہیں اور ختم ہی نہیں ہوتیں۔

اس حوالے سے قرآن تو ہمیں ڈرا رہا ہے لیکن ہمارے اندر یہ خوف کیوں نہیں پیدا ہوتا جو کہ دنیاوی لحاظ سے ہمارے اندر بسا اوقات پیدا ہوتا ہے اور ہم اس خوف کی وجہ سے اپنے دنیاوی معاملات ٹھیک کرتے ہیں۔ لیکن جہاں قرآن مجید ہمیں ہمارے اخروی معاملات کو ٹھیک کرنے کے لیے بار بار خبردار کر رہا ہے ہم اس جانب کوئی توجہ نہیں دیتے۔

مثلاً سورہ یونس میں آیت نمبر 27 میں ارشاد رب العزت ہو رہا ہے کہ:

وَالَّـذِيْنَ كَسَبُوا السَّيِّئَاتِ جَزَآءُ سَيِّئَةٍ بِمِثْلِهَا وَتَـرْهَقُهُـمْ ذِلَّـةٌ ۖ مَّا لَـهُـمْ مِّنَ اللّـٰهِ مِنْ عَاصِـمٍ ۖ كَاَنَّمَآ اُغْشِيَتْ وُجُوْهُهُـمْ قِطَعًا مِّنَ اللَّيْلِ مُظْلِمًا ۚ اُولٰٓئِكَ اَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُـمْ فِيْـهَا خَالِـدُوْنَ (27)
اور جنہوں نے برے کام کیے تو برائی کا بدلہ ویسا ہی ہوگا کہ ان پر ذلت چھائے گی، اور انہیں اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا، گویا کہ ان کے مونہوں پر اندھیری رات کے ٹکڑے اوڑھا دیے گئے ہیں، یہی دوزخی ہیں، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔

گناہگار انسان کی عزت لوگ بظاہر کرتے ہیں وگرنہ دلی طور پر ایسے انسان کی کوئی عزت نہیں کرتا۔ اور قیامت والے دن بھی یہ گناہگار شخص ذلیل ہوگا۔ اور پروردگار فرماتا ہے کہ: مَّا لَـهُـمْ مِّنَ اللّـٰهِ مِنْ عَاصِـمٍ ۖ ایسے لوگوں کو پھر اللہ سے بچانے والا کوئی نہ ہوگا۔ یعنی جب خدا ان کو سزا دے گا تو پھر کوئی ان کو بچانے والا نہیں اور پھر بھلا پروردگار کے مدمقابل کون ہو سکتا ہے جو ہمیں خدا کے عذاب سے بچائے۔

نظریہ شفاعت:
شفاعت کے نظریے کی اپنی شرائط ہیں۔ یعنی شفاعت کی صلاحیت، شائستگی یا شرائط رکھتے ہیں۔ اور وہ بھی کچھ حد تک ہمارے ایسے اعمال ہوں کہ جن کی شفاعت ملے لیکن جس شخص کی ساری زندگی ہی گناہوں میں گذری ہو اور اگر اس نے کبھی کوئی اچھا عمل کیا ہو اور وہ بھی اپنے گناہوں کی وجہ سے ضائع کر بیٹھا ہو تو ایسے لوگوں کو اب اللہ کے عذاب سے کون بچا سکتا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ اس آیت میں پروردگار فرما رہا ہے کہ ایسے لوگوں کے چہرے تاریک راتوں کے ٹکڑوں کی مانند سیاہ ہیں۔ اور یہ لوگ اہل جہنم ہیں اور ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔

اسی طرح اور بھی آیات ہیں کہ جن میں پروردگار ہمارے نفس کی کارستانیوں کے حوالے گفتگو فرماتا ہے کہ جن کی وجہ سے ہم مختلف قسم کے گناہوں میں مبتلا ہیں اور یہ دنیاوی مختصر سی زندگی جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کی تاکہ ہم رشد و کمال تک پہنچیں اور اپنے آپ کو بہشتی لوگوں میں سے قرار دیں لیکن ہم بلآخر کہاں سے کہاں پہنچے۔

پروردگار اچھے لوگوں کی صفات اور اعمال بھی بیان کر رہا ہے۔

اللہ نے ہمیں تمام راہیں قرآن میں دکھائیں ہیں اور ان قرآنی نکات کی جو تفسیر و تشریح فرامین اور احادیث محمدؐ و آل محمدؑ میں ہوئی ہے۔ اس کے اندر یہ سب کچھ موجود ہے۔

حتی کہ پروردگار گناہگار لوگوں سے فرما رہا ہے کہ اگر آپ توبہ اور استغفار کریں تو آپ لوگوں کے لیے راہیں کھلیں ہوئی ہیں۔ صرف آپ صِدق دل سے اپنے رب کی جانب آئیں۔

ہم لوگ چونکہ پروردگار کو بھول چکے ہیں اور بلخصوص قرآن مجید جو کلام پروردگار ہے اس کو بھول چکے ہیں۔

سورہ ہود کی آیت نمبر 3 میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں جو امید دی ہے اور پروردگار کس طرح سے ہمیں دعوت دے رہا ہے۔ فرما رہا ہے کہ:
وَاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكُمْ ثُـمَّ تُوْبُـوٓا اِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى وَّيُؤْتِ كُلَّ ذِىْ فَضْلٍ فَضْلَـهٝ ۖ وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّـىٓ اَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيْـرٍ (3)
اور یہ کہ تم اپنے رب سے معافی مانگو پھر اس کی طرف رجوع کرو تاکہ تمہیں ایک وقت مقرر تک اچھا فائدہ پہنچائے اور جس نے بڑھ کر نیکی کی ہو اس کو بڑھ کر بدلہ دے، اور اگر تم پھر جاؤ گے تو میں تم پر ایک بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں۔

اجل مسمی یعنی موت تک اللہ تعالیٰ آپ کی زندگی کو اچھے اثرات دے گا اور آپ کی بہت ساری آرزوئیں پوری ہونگی ۔ اور اللہ ایسے لوگوں و اچھی صفات اور اچھے اعمال کی توفیق دے۔ بلآخر یہ لوگ اپنے اچھے اعمال کی بدولت لوگوں میں بھی عزت پائیں گے اور بارگاہِ خداوندی میں بھی عزت پائیں گے۔

لیکن ❗️
اگر ہم دوبارہ یہ نعمات پروردگار چھوڑ کر نفس امارہ اور شیطان کی راہ پر چل پڑیں تو پھر ظاہر ہے کہ وہی عذاب والی آیات ہمیں خبردار کرتی ہیں۔

اب یہاں عام طور پر ایک سوال ہے کہ ہم گناہ کیوں کرتے ہیں اور گناہ کی وجہ کیا ہے ؟
اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے گناہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ شیطان ہمیں بار بار بھٹکاتا ہے۔ اور ابلیس نے یہ کہا تھا کہ میں تیرے بندوں کو راہ حق سے گمراہ کروں گا۔ لہذا دن رات شیطان پر بھی لعنتیں ہوتی ہیں اور ہم شیطان پر اپنے سارے گناہوں کا بوجھ ڈال دیتے ہیں۔

لیکن ❗️
اگر ہم غور کریں تو یہ شیطان بھی کسی زمانے میں اللہ کا بندہ تھا۔ اور اس نے بڑی عبادات کئیں کہ جن کی وجہ سے فرشتوں کی صف میں شامل ہوا اور ان میں سے بھی ممتاز قرار پایا۔ یہ ایک جن تھا اس نے سینکڑوں اور ہزاروں سال عبادت کی اور کہاں سے کہاں پہنچ گیا۔ یعنی فرشتوں میں بھی بلند مقام تک پہنچ گیا۔ لیکن پھر بھی چونکہ اس کے اندر بھی نفس امارہ تھا یعنی نفس امارہ انسان اور جنات دونوں میں ہے۔ اور اسی نفس امارہ کی بدولت یہ ابلیس تکبر میں مبتلا ہو گیا۔ اور چونکہ یہ اپنے تکبر سے ہٹا نہیں اور توبہ نہیں کی لہذا یہ بارگاہ پروردگار سے دھتکارا گیا۔ کہ جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت آدمؑ کو بعنوان قبلہ سجدہ کریں تو یہاں اس نے تکبر اور خود پسندی کا ثبوت دیا۔ اور یہ نہیں دیکھا کہ یہ حکم مجھے میرا پروردگار دے رہا ہے اور نتیجتاً اس کے نفس نے اس کو بغاوت پر ابھارا اور اس نے بغاوت کی۔ اور پھر اس نے توبہ بھی نہیں کی جس کی وجہ سے اللہ نے اس کو اپنی بارگاہ سے نکال دیا اور یہ دشمن خدا بن گیا۔ اس کے بعد بھی اس نے توبہ نہیں کی اور ڈٹا رہا یہاں تک کہ کچھ انبیاؑء کے زمانے میں اسے خیال آیا تو اللہ نے فرمایا کہ میں توبہ قبول کرتا ہوں کیونکہ جب تک زندگی ہے اللہ توبہ قبول کرتا ہے لیکن! میری شرط یہی ہے کہ جاؤ اور قبر آدمؑ کو بعنوان قبلہ سجدہ کرو۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا تکبر ختم کرنا چاہتا تھا اس کا علاج کرنا چاہتا تھا لیکن شیطان علاج پر آمادہ نہ ہورہا تھا اور جب کوئی مریض علاج پر آمادہ نہ ہو تو پھر اس کا مرض بڑھتا جاتا ہے اور اس کا انجام ہلاکت ہے۔

شیطان کی ہلاکت یہی ہے کہ جب امام زمانہؑ عج ظہور فرمائیں گے تو جس طرح اور ظالمیں مارے جائیں گے اس وقت اس کو بھی اور اس کے لشکر شیاطین کو بھی حاضر کیا جائے گا اور ان کو بھی سزا دی جائے گی اور وہ بھی مارے جائیں گے اور یہ جو قرآن کے اندر شیطان نے وقت معلوم تک مہلت مانگی ہے اس حوالے سے ہمارے آئمہؑ نے فرمایا کہ یہ وہی وقت ظہور ہے۔

گناہوں کے اسباب:
شیطان ہمارے گناہوں کا ایک سبب ہے۔ لیکن سارے گناہوں کا سبب نہیں ہے۔ اور انسانوں اور جنات میں جتنے بھی شیاطین ہیں انہیں ان کے نفس نے گمراہ کیا ہوا ہے ۔

فرض کریں کہ یہ سارے شیاطین امام مہدیؑ عج کے وقت ظہور میں مارے جائیں گے تو آیا پھر بھی انسان گناہ نہیں کرے گا؟

تب بھی انسان گناہ کرے گا کیونکہ یہ نفس امارہ ہمیں گناہ کی جانب ابھارے گا لیکن مولاؑ عج کی جانب سے ایسے اعلیٰ ترین تربیت کی انتظام ہونگے اور وہاں عدالت ہوگی اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے حوالے سے دنیا میں بہت زیادہ کام ہوگا تو دنیا میں برائیاں کم ہونگی۔ لیکن ہونگی۔ کیونکہ اس کی وجہ یہی نفس امارہ ہوگا۔ درست ہے کہ شیطان باہر سے وسوسے کرتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ مختلف لوگوں کو ابھارتا ہے اور ہمارے پاس بھیجتا ہے اور وسوسے ڈالتا ہے اور سارے کام کر رہا ہے۔

لیکن❗️
پھر ہمارے اندر کا نفس اس کے ہمراہ ہو جاتا ہے اور اس سے بھی زیادہ ہمیں ابھارتا ہے اسی لیے نفس امارہ کی اصلاح ہونی چاہیے۔

نفس امارہ یعنی وہ نفس جو گناہوں پر ابھارے۔ اور اس نفس کی اصلاح کے اندرسب سے پہلا نکتہ:

عزم تربیت کی پہلی سیڑھی ہے:

لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں وظائف تعلیم کریں تو جتنے مرضی وظائف کریں اور چلے کاٹیں گناہ اسی وقت ہم سے چھوٹے گا کہ جب ہم عزم کریں گے کیونکہ دنیا میں ہم تبھی کامیاب ہوتے ہیں کہ جب ہم عزم مصمم کریں اور کوئی بھی کام عزم اور کوشش کے بغیر ممکن نہیں۔

اسی طرح تربیت اور گناہ سے دوری اور آخرت کو بہتر بنانے کے لیے بھی عزم ضروری ہے۔ کہ ہم یہ پکا ارادہ کریں کہ ہم نے گناہ نہیں کرنا ہے۔ لیکن اس عزم کے مدمقابل نفس امارہ ہمیں ابھارے گا کہ ہم نے گناہ کریں ۔

نفس امارہ سے اپنے اندر مقابلہ کرنا ایک جہاد اکبر ہے کہ جس سے ہماری اپنی نجات بھی وابستہ ہے اور بہت سارے لوگوں کی نجات ہے۔ کیونکہ نفس امارہ ایک انسان کی ایسی حالت کر سکتا ہے کہ وہ دوسرے لوگوں کے لیے خطرہ ہے۔

واجبات کی جانب توجہ کرنا۔

واجبات ہمیں قوت عطا کرتے ہیں۔ مثلاً اپنی نمازیں درست اور بموقع ادا کرنا اور گناہوں سے بچنے کی کوشش کرنا اپنے مالی حقوق پورے ادا کرنا اور جو حقوق العباد ہیں وہ سارے ادا کرنا۔
واجبات کی ادائیگی عزم کو قوت بخشتی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اگر ہم مستحبات بھی انجام دینے شروع کردیں ۔ جس طرح آئمہ معصومینؑ نے فرمایا کہ کم از کم پچاس آیات قرآن پاک کی تلاوت کریں اور اس کے علاوہ نوافل پڑھیں۔ صدقہ ، خیرات وغیرہ اس نیت سے دیں کہ خدا ہمیں گناہوں سے دور رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور اللہ ہمیں یہ شائستگی عطا فرمائے کہ ہم گناہوں سے پاک رہیں تو اب یہ نفس امارہ ضعیف ہونا شروع ہو جائے گا اور اس کی جگہ پر نفس مطمئنہ آنا شروع ہو جائے گا۔ جو کہ اللہ کے نیک بندوں کی نشانی ہے کہ نفس مطمئنہ کی بدولت نہ ان پر کوئی حزن طاری ہوتا ہے اور نہ ہی وہ خوف سے ڈرتے ہیں بلکہ صبر کرتے ہیں اور اعمال صالح انجام دیتے ہیں اور دنیا میں بھی اللہ ان کو اپنے لطف و کرم میں رکھتا ہے اور آخرت میں بھی ان کا بلند مقام ہے۔
انشاءاللہ❗️

جیساکہ ہم نے آئمہؑ معصومین کی عصمت کے بارے میں بھی یہی پڑھا ہے کہ ان کی عصمت کی بنیادی وجہ بھی یہی عزم تھا کہ اگر انسان عزم کرلے اور پکا ارادہ کرلے کہ میں گناہ کبھی نہیں کروں گا تو یہ وہ چیز ہے کہ انسان کو عصمت تک پہنچا دیتی ہیں۔ اورپروردگار عالم ہماری گذشتہ زندگی کے سارے گناہ اس عزم ، استغفار اور توبہ کے ذریعے نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔
سبحان اللہ ❗️

اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق دے کہ آج سے ہی ہم خدا کی بارگاہ میں ارادہ کریں کہ عزم کرتے ہیں کہ گناہ نہیں کریں گے تاکہ تیرے پاک بندوں میں سے شمار ہوں اور تیرے ولیؑ عج کے پاک ناصرین میں سے شمار ہوں کیونکہ جب تک ہم اپنے اندر سے جنگ کا آغاز نہیں کریں گے تب تک باہر سے اچھے سپاہی نہیں بن سکتے۔ ہمیں پہلے اندر کی جنگ جیتنی ہے تاکہ اللہ کے ولیؑ کے مخلص ناصرین اور مددگاروں میں شمار ہو سکیں۔
انشاءاللہ ❗️
آمین۔

والسلام
عالمی مرکز مہدویت قم

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *