﷽
درس اخلاق:
دعا کی عظمت اور فلسفہ اور آیۃ اللہ ابو الحسن اصفہانی کا واقعہ
24 اکتوبر 2025 ، بروز جمعہ مدرسہ الامام المنتظر قم مقدس میں دعائے ندبه کے بعد طلاب مدرسہ سے خطاب
استاد محترم قبلہ علامہ علی اصغر سیفی صاحب
سورہ غافر آیت 60
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِـىٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ
اور تمہارے رب نے فرمایا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔
اللھم صلی علی محمدﷺ و آل محمدﷺ
قرآن کی تلاوت کے بعد سب سے بڑا مقام دعاؤں کا ہے۔
قرآن مجید:
قرآن پروردگارِ عالم کا اپنے بندوں کے ساتھ کلام ہے۔
دعا:
دعا اللہ کے ساتھ اس کے بندوں کا کلام ہے اور اللہ کو اپنے بندوں کی کلام بڑی پسند ہے۔سبحان اللہ۔
قرآن مجید میں اللہ نے متعدد بار اپنے بندوں کی دعاؤں کا ذکر کیا ہے۔
سورہ غافر کی آیت نمبر 60 ہے:
وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِـىٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ
اور تمہارے رب نے فرمایا ہے مجھے پکارو میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔
یعنی! یہ حکم پروردگار ہے کہ اے میرے بندوں مجھ سے دعا کرو، اپنے رازو نیاز مجھ سے کرو، مجھ سے کلام کرو، میں اسے قبول کروں گا۔
اب یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔ بسا اوقات ہماری دعا قبول نہیں ہوتی، بلکہ بعض لوگ تو شکوہ کرتے ہیں کہ دشمنان خدا کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور وہ زیادہ آسانیوں اور عیش میں ہیں تو فلسفہ یہ ہے چونکہ دشمنان خدا وہ لوگ ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں اگر انہوں نے چھوٹا سا بھی کوئی کار خیر کیا ہو تو خدا اسے دنیا میں لے کر ان کا حساب ختم کر رہا ہے۔ لیکن! ہمارے لیے تو ابھی زندگی کا آغاز ہے، دنیا مسلسل چلے گی جیسے اس کے بعد برزخی زندگی ہے، پھر اخروی زندگی ہے۔ یہ تو آغاز ہے اور انسان کی زندگی جاودانی ہے، چونکہ اللہ کو ہم سے محبت ہے، تو بسا اوقات وہ ہماری دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور بعض اوقات نہیں کرتا تاکہ اس کا اجر اُس جہاں میں دے اس لیے کہتے ہیں کہ، انسان روز قیامت دیکھے گا کہ اتنا سارا اسے اجر ملا ہے وہ کہے گا یا اللہ یہ میرے کون سے اعمال ہیں میں نے تو شائد اتنے عمل کیے ہی نہیں۔
تو پروردگار کہے گا کہ:
یہ جو تم بسا اوقات دعائیں کرتے تھے۔اور وہ قبول نہیں ہوتی تھیں تو اس کا اجر تمھیں روز اخرت دے رہا ہوں لہذا دعائیں کبھی بھی ضائع نہیں جاتیں یا تو وہ قبول ہوگی یا پھر آخرت میں اجر کی شکل میں ذخیرہ ہوگی تو قرآن مجید انسانوں کی دعاؤں کو اور ان کی مختلف حالتوں کو بیان کرتا ہے جیسے دعائے ندبہ اجتماعی دعا ہے لیکن! بعض دعائیں مخفی ہوتی ہیں اور اللہ ان کو بھی بہت پسند کرتا ہے۔
جیسے سورہ اعراف کی آیت نمبر 55 میں پروردگار نے حکم دیا ہے کہ:
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً ۚ (55)
اپنے رب کو عاجزی اور چپکے سے پکارو۔
اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے آئمہ(ع) کی بعض دعائیں خِلوت میں ہوتی تھیں۔ یہ بھی نقل ہوئیں ہیں۔ بعض آئمہ(ع) کے اصحاب نے جو اُن کی حالتیں نقل کیں ہیں اُس میں ایسی دعاؤں کا ذِکر ہے کہ جو ان کی اپنی خلوتیں تھیں کہ رات کی تاریکیاں حتیٰ شہر سے باہر نکل جاتے تھے یا مثلاً! رات کو اٹھ کر مسجد میں جاتے یا خانہ کعبہ۔۔ جیسا کہ خانہ کعبہ کے پردے کو پکڑ کر سید سجاد(ع) کی دعائیں ہیں۔
دعاؤں کے مختلف اوقات:
خود پروردگار نے قرآن مجید میں ذکر کیا ہے سورہ کہف کی آیہ نمبر 28 ہے اس میں اللہ ہمارے نبی(ص) کو حکم دے رہا ہے کہ:
وَاصْبِـرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّـذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّـهُـمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَه
تو ان لوگوں کی صحبت میں رہ جو صبح اور شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اسی کی رضامندی چاہتے ہیں۔
یعنی اے پیغمبرتو محبت کر تو ان لوگوں کی جانب توجہ کر کہ جو طلوع فجر سے شام تک اپنے رب کو پکارتے ہیں۔
الْغَدَاةِ کہتے ہیں:
طلوع فجر سے لیکر طلوع شمس تک یعنی یہ درمیانی وقت بہت اہم ہے اور اسے عربی کے اندر الْغَدَاةِ سے تعبیر کرتے ہیں۔ عموماً ہمارے لوگ اسے سو کر گذار دیتے ہیں۔ جبکہ اللہ کی بے پناہ رحمتیں اور برکات اس وقت ہوتی ہیں۔
اہل معرفت کبھی بھی اس وقت کو نہیں سوتے یہ تاکید بھی ہے کہ اس وقت کو انسان جاگ کر گذارے اس وقت میں قرآن کی تلاوت کی جائے یا دعاؤں کے ساتھ یا مطالعہ کیا جائے۔
اگر ہم آئمہ(ص) کی زندگی کو دیکھیں کہ وہ مسلسل تعقیبات کی حالت میں ہوتے تھے حتی کہ سورج طلوع کرے اور اس کے انسانوں کی زندگی میں بہت آثار ہیں آج لوگ اتنا سارا پیسہ ہونے کے باوجود بھی پریشان ہیں کہتے ہیں کہ اتنی آسودگی ہونے کے باوجود بھی گھروں میں پریشانیاں ختم نہیں ہوتیں اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم اس وقت کی رعایت نہیں کرتے۔ یہ وقت آرامش کا ہے، یعنی! یہ وقت انسان کی زندگی میں سکون آنے کا وقت ہے گھروں سے مسائل، پریشانیاں، جھگڑے ختم ہونے کا وقت ہے۔
دوسرا وقت ہے الْعَشِيِّ
اس کے بارے میں بعض فرماتے ہیں کہ یہ اول ظہر سے لے کر غروب آفتاب تک ہے اور بعض کہتے ہیں کہ ظہر سے لیکر اگلی صبح تک ہے۔ اللہ کو یہ دونوں اوقات بہت پسند ہیں۔
اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ صحیفہ سجادیہ کے اندر صبح شام کی دعائیں ہیں، صحیفہ سجادیہ ہمارے پاس خزانہ ہے دعاؤں کا۔ اس کے اندر 54 دعائیں ہیں اور امام سجاد(ع) نے ہر موضوع کے لی دعا تعلیم فرمائی ہے اگر ہم اس کی فہرست کی جانب نگاہ ڈالیں تو کس طرح مولا(ع) دعاؤں کو فرما رہے ہیں۔ مثلاً:
. اللہ کی حمد و ثنا ،
. محمدؐ ﷺ و آل محمدؑ ﷺ کے لیے دعا۔
. حاملین عرش کے لیے دعا۔
. انبیا(ع) پر ایمان لانے والوں کے لیے دعا۔
. اپنے لیے اور دوستان کے لیے دعا۔
. صبح و شام کی دعا۔
. پریشانی و مصیبت کے وقت کے لیے دعا۔
. برے اعمال اور برے اخلاق سے بچنے کے لیے دعا۔
. اچھے انجام کی دعا۔
. گناہوں کا اعتراف اور توبہ کرنے کی دعا۔
. اللہ سے حاجت مانگنے کی دعا۔
یہ 54 کے قریب دعائیں ہیں۔ صحیفہ سجادیہ ہمارے لیے خزانہ ہے۔
مظلومیت صحیفہ سجادیہ:
عجیب بات ہے کہ مجھے کسی شخص نے بتایا کہ کراچی میں دوسرے مکتب والوں نے ہمارے امام کی صحیفہ سجادیہ کو مناجات صدیقیہ کے عنوان سے خود اپنے کسی بزرگ کے نام سے چھاپ دی کیونکہ شیعوں کے اندر اس خزانے کی قدروقیمت نہیں ہے خرید تو لیتے ہیں لیکن بعض کے پاس اس کتاب کے مطالعہ کا وقت نہیں۔ ہماری محفلوں میں صحیفہ سجادیہ نہیں پڑھی جاتی۔ یعنی انہوں نے دیکھا کہ یہ کتاب شیعوں کے ہاں ناقدری کا شکار ہے۔ البتہ جیسے پیسوں کی چوری ہوتی ہے، علم کی چوری ہوتی ہے یہ کتابوں اور دعاؤں کی چوری ہے۔ امام سجاد(ع) ہر مکتب کے امام تھے۔ لیکن جب دوسرے مکتب نے دیکھا کہ شیعہ تو پڑھتے نہیں تو انہوں نے اس کتاب کو اپنے کسی بزرگ کے نام سے چھاپ دیا یہ ہمارے لیے ناقدری ہے۔ جیسے کہتے ہیں کہ خود امام زمان عج کی غیبت کا ایک فلسفہ ناقدری ہے۔
مولا امام محمد باقر(ع) سے نقل ہوا ہے کہ:(اللھم صلی علی محمدﷺ و آل محمدﷺ ) امام سے سوال ہوا: امام قائم عج کی غیبت کا فلسفہ کیا ہوگا؟ فرمایا: نا قدری ہے۔
اللہ کسی قوم میں ہماری ہمنشینی سے جب خوش نہ ہو۔ یعنی! ہم لوگوں کے درمیان ہوں اور لوگ ہماری قدر نہ کریں تو پھر یہ سنت الہٰی ہے کہ پھر خدا لوگوں سے وہ نعمت واپس لے لیتا ہے۔ اللہ نے گیارہ عظیم نعمتیں پیغمبر اسلام(ص) کے بعد ان کے گیارہ اوصیا(ع) ہمارے درمیان حاضر حالت میں بھیجے۔ لیکن امت نے ناقدری کی کچھ لوگوں نے ظلم کیا اور کچھ لوگوں نے دیکھا لیکن! نصرت نہیں کی جس طرح ان کے لیے نصرت کرنے کا حق تھا ان کے مشن میں اور ان کے اہداف کے لیے جس طرح قدم اٹھانے چاہیے تھے وہ قدم نہیں اٹھائے۔ اور پھر خدا نے وہ نعمت ظاہری طور پر لے لی۔
آج بھی امام ع کی غیبت کیوں طولانی ہو رہی ہے
کیونکہ مولا عج کے حضور کا اور ان کے ظاہر ہونے کا وہ اشتیاق نہیں ہے ہمارے اندر وہ شوق نہیں ہے، یہ تو آپ کا اظہار محبت ہے کہ آپ نے دعا کا اہتمام کیا لیکن کتنے ہی شیعہ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم امام عج کی امت ہیں لیکن ان کو پتہ بھی ہے کہ روز جمعہ کس قدر تاکید ہوئی ہے دعائے ندبہ کی اور امت غافل ہے یہ وہی ناقدری والی حالت ہے۔ آج تو ماشاءاللہ کتنے ہی لوگ ہیں کہ جو اس دعا کا اہتمام کرتے ہیں کیونکہ روز جمعہ اس دعا کی بہت تاکید ہے۔ دعائے ندبہ خزانہ ہے اور ویسے بھی کہتے ہیں کہ انسان کو ہر دن اپنے مولا عج کے لیے دعا پڑھنی چاہیے بالخصوص دعا عہد۔ کیونکہ یہ مومن کی نشانیوں میں سے ہے اور بالخصوص زمانہ غیبت کے مومنین کی نشانیوں میں سے ہے۔ کہ وہ اپنے دن کا آغاز اپنے مولا کے عہد سے کرے۔
دعائے عہد:
بعض مرتبہ دعائے عہد پڑھنے کا وقت نہیں ہوتا تو آپ اپنی زبان میں مولا عج سے عہد کریں کہ مولا پورا دن آپ کی منشاء کے مطابق گذاروں گا۔ اور اگر آج آپ عج کا ظہور آج ہوگیا تو میں کھلم کھلا آپ کا ناصر بنوں گا اور اگر آپ کا ظہور درک نہ کر سکا تو:
اَللّٰھُمَّ إنْ حالَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ الْمَوْتُ الَّذِی جَعَلْتَہُ عَلَی عِبادِکَ حَتْماً مَقْضِیّاً فَأَخْرِجْنِی مِنْ قَبْرِی
اے معبود اگر میرے اور میرے امام(ع) کے درمیان موت حائل ہو جائے جو تو نے اپنے بندوں کے لیے آمادہ کر رکھی ہے تو پھر مجھے قبر سے اس طرح نکالنا۔
مُؤْتَزِراً کَفَنِی شاھِراً سَیْفِی مُجَرِّداً قَناتِی مُلَبِّیاً دَعْوَةَ الدَّاعِی فِی الْحاضِرِ وَالْبادِی
کہ کفن میرا لباس ہو میری تلوار بے نیام ہو میرا نیزہ بلند ہو داعی حق کی دعوت پر لبیک کہوں شہر اور گاؤں میں
پروردگارا مجھے موت کے بعد رجعت عطا فرمانا یہاں تک کہ میں اپنے مولا عج کی رکاب میں جام شہادت پیوں۔ یہ ہے دعائے عہد۔ یہ دعائے عہد ہمارے پاس خصوصی تحفہ ہے جو ہمیں امام صادق(ص) نے ہدیہ کیا ہے۔اللھم صلی علی محمدﷺ و آل محمدﷺ
ہمارے سارے آئمہ علیہم السلام امام مہدی عج کا ذکر کرتے تھے البتہ امام صادق(ع) وہ امام (ع) ہیں جو بہت زیادہ ذکر کرتے تھے ہمارے پاس جو کچھ پہنچا ہے اس میں امام صادق(ع) کے بہت سارے کلمات ہیں۔ بہت ساری احادیث اور دعائیں جو امام زمان عج کے حوالے سے ہیں جس میں دعائے عہد اور دعائے معرفت ہے۔ یہ بھی مولا صادق(عج) نے ہی تحفہ دیا ہے کہ وقت کے امام عج کی معرفت آسان نہیں اور اللہ سے ہی مدد مانگیں کہ اللہ آپ کو امام وقت عج کی معرفت عطا کرے اور یہاں مولا نے دعائے معرفت کی تعلیم دی۔
اَللّٰہُمَّ عَرِّفْنِی نَفْسَکَ فَإِنَّکَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی نَفْسَکَ لَمْ أَعْرِفْ نَبِیَّکَ اَللّٰہُمَّ عَرِّفْنِی
رَسُولَکَ، فَإِنَّکَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی رَسُولَکَ لَمْ أَعْرِفْ حُجَّتَک اَللّٰہُمَّ عَرِّفْنِی حُجَّتَکَ
فَإِنَّکَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِی حُجَّتَکَ ضَلَلْتُ عَنْ دِینِی۔
اے معبود تو مجھے اپنی معرفت عطا کر کہ یقینا اگر تو نے مجھے اپنی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کو نہ پہچان پاؤں نگا اے معبود مجھے اپنے رسول کی معرفت عطاکر کہ یقینا اگر تو نے مجھے اپنے رسول کی معرفت نہ کرائی تو میں تیری حجت (ع)کو نہ پہچان پاؤں گا اے معبود مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا کر کہ اگر تو نے مجھے اپنی حجت کی پہچان نہ کرائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاؤں گا۔
ہمارے چھٹے مولا ؑ کی تاکید ہے کہ ہر نماز کے بعد دعائے معرفت کی تلاوت کی جائے۔
دعائے عہد کے بارے میں امام صادق(ع) کا اعلان
یہ امام صادق(ع) کا اعلان ہے۔ کسی عام شخص کا نہیں۔۔ امام فرماتے ہیں کہ:
اگر کوئی شخص چالیس دن تک نماز صبح کے بعد دعائے عہد کو خالصتاً الی اللہ اپنا ذکر قرار دے تو اس دعا کا اثر یہ ہے کہ یا تو خدا اسے طولانی عمر عطا کرے گا تا ظہور امام زمان عج وہ زندہ رہے گا۔
یا فرض کریں کہ اگر وہ دنیا سے رخصت ہو جائے تو اس کی رجعت ہوگی فرشتے اس کی قبر میں آئیں گے کہ اے مومن تو نے چالیس دن امام مہدی عج سے عہد کیا تھا تو وہ ہستی ظہور فرما چکے ہیں اور اللہ تعالیٰ تجھے اختیار دیتا ہے کہ دنیا کی طرف پلٹ (رجعت) اور جس امام کی بیعت کی ان کی رکاب میں شامل ہو اور ان کی نصرت میں ایک سعادت مند زندگی اور ایک سعادت مند موت یعنی شہادت پائے۔
اس لیے کہتے ہیں کہ بہت سارے لوگ رجعت کریں گے اور فقط وہ نہیں ہونگے کہ جو زمانہ غیبت میں بیعت کرتے تھے بلکہ گذشتہ امتوں اور زمانوں سے بھی لوگ آئیں گے امام صادق(ع) اپنے زمانے کے لوگوں کو فرما رہے ہیں چونکہ جناب زرارہ نے شکوہ کیا تھا کہ مولا ہم تو آپ کے زمانے میں ہیں تو کیسے قائم عج کی حکومت دیکھیں گے تو مولا امام صادق نے یہ ہدیہ کیا تھا کہ کوئی بھی شیعہ چاہے کسی بھی امام کی امت سے ہو اگر وہ چالیس دن اس عہد کی تلاوت کرے تو اس کا اثر یہ ہے کہ اللہ اسے قائم کے ناصرین میں سے قرار دے گا، انہیں خدا دوبارہ پلٹائے گا، البتہ قبر میں اس مومن کو اختیار ہوگا، اگر چاہے تو برزخ کی نعمات میں رہے ورنہ اللہ حسب وعدہ اسے رجعت نصیب کرے گا، اللہ تعالیٰ قادر ہے، ہم قرآن میں پڑھتے ہیں اللہ نے کتنے مُردوں کو زندہ کیا اور کتنے انبیاء کو پلٹایا۔سبحان اللہ۔
رجعت
عقیدہ تشیع ہے اور دعائے عہد، زیارت آل یسین، دعائے ندبہ و دیگر زیارات امام قائم عج میں یہ عقیدہ بیان ہوا ہے۔
چالیس کا عدد بہت اہم ہے۔
دعائے عہد کی تلاوت کو کبھی بھی نہیں چھوڑنا چاہیے اور میرا نقطہ یہ ہے کہ یہ جو مولا امام صادق(ع) نے ہمیں چالیس دنوں کی مشق دی ہے تاکہ ہمیں عادت ہو جائے کیونکہ جو کام چالیسویں دن ہو وہ اکتالیسویں دن بھی ہوتا ہے۔
ویسے بھی کہتے ہیں کہ آپ نے اپنے اندر اگر ملکہ یعنی وہ صفت جو راسخ ہو اگر اس تک پہنچنا ہے تو ایک کام کو چالس مرتبہ کریں جیسے بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے وجود سے برائیاں نکلتی نہیں کیونکہ انہوں نے اتنی بار کی ہوتی ہیں تو اگر برائی کے خلاف جنگ کرنی ہے تو کم از کم چالیس بار جنگ کریں اور اگر آپ نے اپنے اندر کوئی اچھی صفت پیدا کرنی ہے تو چالیس بار وہ کام کریں جیسے کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص چالیس دن اپنی زبان کو آلودگی سے بچا لے تو پروردگار خود اس کا معلم بن جائے گا اور اس کے وجود میں خود پروردگار علم و حکمت کے چشمے کھول دیتا ہے۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو شخص دعائے عہد پڑھ کر چالیس دن عہد کرے گا وہ اکتالیسویں دن بھی بیعت کے بغیر نہیں گذار سکتا امام وقت عج ہمارے اردگرد موجود ہیں اور بلخصوص طلباء پر امام عج کی خصوصی نگاہ ہے۔
عرض کریں کہ ہم سب امام زمان عج کی نگاہوں میں ہیں۔ کیونکہ یہ ان کی غیبت کا زمانہ ہے اور دینی تعلیم کو زندہ رکھنا ہے۔ کچھ علماء پیدا ہوں جو پڑھیں معارف کو پڑھیں اور ان کو نشر کریں۔ یہ امام زمان عج والی ڈیوٹی ہے یہ یعنی وہی ہدایت والا سلسلہ ہے، اسی لیے طلباء کا تھوڑا سا کام بھی مولا عج کو بڑا پیارا ہوتا ہے۔ اور یہ جو ہم بعض مرتبہ طلبگی کے دور میں مشکلیں دیکھتے ہیں اس میں سب سے بڑی مشکلات ہیں وہ مادی ہیں۔ یہ ہماری اپنی پرورش ہے کیونکہ ہمارے آئمہ(ع) بھی ایسے ہی تھے جب کسی نے ھادی اور معلم والا مقام پانا ہو تو اس میں بسا اوقات ایسے ایسے مراحل آتے ہیں تاکہ ہم مستحکم رہیں اور یہ تب ممکن ہے جب ہم طلبگی میں ان مشکلات پر تحمل کرنا سیکھیں۔
آیت اللہ ابوالحسن اصفہانی(رح)
دنیائے تشیع کی ایک بہت بڑی ہستی آیت اللہ ابو الحسن اصفہانی(رح) کہ آیت اللہ بروجردی(رح) سے پہلے ان کا بڑا مقام تھا۔
یہ وہ ہستی ہیں کہ جن پر غیبت کے زمانے میں جن ہستیوں پر توقیعاتِ امام زمان عج صادر ہوئیں ہیں آیت اللہ ابو الحسن اصفہانی ان ہستیوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے خود فرمایا کہ انہیں امام زمان عج کا لکھا ہوا ایک خط موصول ہوا جو ایک با اعتماد شخص محمد علی کوفی نے دکھایا۔ جس میں امام عج نے فرمایا کہ: آپ اپنے گھر کے اندر نہیں بلکہ گھر کی دہلیز پر بیٹھیں تا کہ جو مسائلِ فقہی پوچھنے کے لیے آتے ہیں اور اپنے اگر مجتہد سے ملنا چاہے تو اُنہیں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
جیسے آجکل دفتر بنے ہوئے ہیں اور کئی مراحل ہیں اور اصل فقیہ تک پہنچنا مشکل ہے، امام عج فرماتے ہیں کہ: نہیں، بلکہ دہلیز پر بیٹھ تاکہ لوگ براہ راست آپ سے ملیں اور آپ ان کی ہدایت کریں۔ جیسے کہتے ہیں کہ مولا علی علیہ السلام دارالامارہ کے باہر بیٹھتے تھے تاکہ کسی کو اتنی بھی زحمت نہ ہو اور کسی کو اتنا بھی انتظار نہ کرنا پڑے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام عج کو اپنے شیعوں کی کتنی فکر تھی اور خود اصفہانی سے کتنی محبت ہے اور مولا عج انہیں اپنے شیعوں کے حوالے سے خصوصی تاکید فرما رہے ہیں۔
آیت اللہ ابوالحسن اصفهانی جب خود طالب علم تھے۔ اس وقت ایک واقعه ہوا (فقط اشاره کریں گے۔)
کہتے ہیں کہ کہ میں اصفہان کے ایک مدرسے میں تھا، مدرسوں کے حالات مادی اعتبار سے اچھے نہیں ہوتے، سخت سردیاں تھیں کوئلے وغیرہ جلانے کا اہتمام نہیں تھا اور کھانے پینے کے بھی مسائل تھے۔
کہتے ہیں کہ جب میرے والد مجھ سے ملنے آئے اور انہوں نے میری حالت دیکھی تو بڑے ناراض ہوئے پہلے بڑا منع کرتے رہے تھے کہ طالب علم نہ بنیں کہ طالب علمی میں بڑی سختی اور مشکلات ہیں، گھر میں آسائشیں ہیں، آپ گھر میں رہیں یہ عالم والا کام سخت ہے تو جب وہ میرے مدرسے میں آئے تو دیکھا کہ سب طالب علم تھے اور خصوصاً اس دن بہت سردی تھی اور کوئی انگیٹھی، کوئلے وغیرہ نہیں تھے یہ سب حالات دیکھ کر والد بہت ناراض ہوئے اور وہ مجبور کر رہے تھے کہ گھر چلو لیکن میں نہیں جانا چاہتا تھا اور یہ چاہتا تھا کہ میں یہیں رہوں درس پڑھوں اور امام زمان عج کا سپاہی بنوں اور اب والد کا بھی حکم تھا جو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا تو اسی عالم میں میں نے رونا شروع کر دیا اور میرے والد کا یہ جملہ تھا کہ یہاں کوئی آپ کا والی وارث نہیں ہے نہ تو آپ کے کمرے گرم ہیں اور نہ آپ کی مناسب جگہ ہے اسی دوران کسی نے مدرسے کا دق الباب کیا، خادم نے باہر جا کر مجھے آواز دی کہ اے ابوالحسن اصفہانی آپ سے کام ہے، اب میں دوڑتا ہوا باہر گیا تو دیکھا کہ ایک شخصیت تھی، ان کے ہاتھ میں ایک تھیلا تھا کہ جس میں کوئلے تھے، اور کچھ پیسے تھے کہا: ابوالحسن اصفہانی یہ کوئلے ہیں اور آپ کے کمرے میں فلاں مقام پر انگیٹھی پڑی ہے۔ آپ نے خود رکھی تھی۔ آپ رکھ کر بھول گئے ہیں وہ انگیٹھی اٹھائیں اور ان کوئلوں سے اپنا کمرہ گرم کریں، اور ان پیسوں سے کھانے پینے کا سامان خریدیں، اور یہ جو آپ کے کمرے میں صاحب آئے ہوئے ہیں ان سے کہیں کہ ان طلاب کا وارث ہے۔ اور یہ بے وارث نہیں۔اللہ اکبر۔ یا صاحب الزمان عج۔
یہ تربیت کا حصہ ہے کہ تھوڑی مشکلات دیکھیں کیونکہ کل کو جب اس نے عالم اور فقیہ بننا ہے تو پتہ نہیں کتنی مشکلات دیکھنی ہیں جیسے ہمارے آئمہ ع نے بھی دیکھی ہیں تو ان سے کہو کہ یہ نہ کہیں کہ ان کا کوئی وارث نہیں۔
اب جب آغا ابوالحسن اصفہانی نے اندر آکر وہ ساری چیزیں رکھیں اور والد کو بتایا تو ان کے والد دو زانو بیٹھ گئے اور انہون نے بڑا گریہ کیا کہ یہ تو وقت کے امام وقت عج تھے کیونکہ یہاں میں صرف اپنے فرزند سے بات کر رہا تھا کیسے وہاں تک پہنچی۔
ہماری خدمتیں، ہمارے اعمال، ہمارا مطالعہ، ہمارا مباحثہ کوئی اور دیکھے نہ دیکھے امام وقت عج دیکھتے ہیں۔ یا صاحب الزمانؑ عج۔
پروردگار ہمیں توفیق دے کہ ہم اسی طرح کے طالب علم بنیں جس طرح کے مولا عج چاہتے ہیں۔ پروردگار ہمیں عالم با عمل بننے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین۔
والسلام
عالمی مرکز مہدویت قم۔ ایران