حدیث شریف معراج
گیارھواں حصہ
یا أَحْمَدُ! وُجُوهُ الزّاهِدینَ مُصْفَرَّةٌ مِنْ تَعَبِ اللَّیْلِ وَ صَوْمِ النَّهارِ، وَأَلْسِنَتُهُمْ کِلالٌ مِنْ ذِکْرِ اللهِ تَعالى، قُلُوبُهُمْ فى صُدُورِهِمْ مَطْعُونَةٌ مِنْ کَثْرَةِ ما یُخالِفُونَ أَهْوآئَهُمْ; قَدْ ضَمَّرُوا أَنْفُسَهُمْ مِنْ کَثْرَةِ صَمْتِهِمْ; قَدْ أَعْطَوُا المَجْهُودَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ لا مِنْ خَوْفِ نار، وَلا مِنْ شَوْق إِلَى الجَنَّةِ [شَوْقِ جَنَّة] وَلِکنْ یَنْظُرُونَ فى مَلَکُوتِ السَّماواتِ وَالأَرْضِ، کَما یَنْظُرُونَ إِلى مَنْ فَوْقَها، فَیَعْلَمُونَ أَنَّ اللهَ سُبْحانَهُ أَهْلٌ لِلْعِبادَةِ.
اے احمد : زاہدوں کے چہروں کا رنگ رات کی (بیداری کی) تھکاوٹ اور دن کے روزوں کی وجہ سے زرد ہوچکا ہے ، انکی زبانیں غیر خدا کے ذکر سے بند ہوچکی ہیں اور انکے دل نفسانی خواہشات کی کثرت سے مخالفت کی وجہ سے سینے میں زخمی ہیں، عاقلانہ سکوت کی وجہ سے اپنے اندر غرق ہیں (اور انکے خیالات باقیوں سے پنہاں ہیں)، بےپناہ کوشش و جدو جہد کرتے ہیں نہ جھنم کی آگ کا خوف اور نہ جنت کا اشتیاق ہے، لیکن آسمانوں اور زمین کے ملکوت(عالم مجرد اور عالم مثال جہاں ارواح بغیر اجسام بارگاہ الٰہی میں پہنچتی ہیں) کی طرف دیکھتے ہیں اور پرودگار کی طرف آنکھیں لگائے ہیں اور جان چکے ہیں کہ اللہ سبحانہ ہی ہے جو لائق عبادت ہے۔
قالَ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ: هَلْ یُعْطى فى اُمَّتی مِثْلُ هَذا؟ قالَ: یا أحْمَدُ! هذِهِ دَرَجَةُ الأَنْبِیآءِ وَالصِّدّیقینَ مِنْ اُمَّتِکَ وَاُمَّةِ غَیْرِکَ وَأَقْوام مِنَ الشُّهَدآءِ. قالَ: یا رَبِّ! أَىُّ الزُهّادِ أَکْثَرُ؟ أَزُهّادُ اُمَّتى أَمْ بَنی إِسْرائیلَ؟ قالَ: إِنَّ زُهّادَ بَنی إِسْرائیلَ فی زُهّادِ اُمَّتِکَ، کَشَعْرَة سَوْدآءَ فی بَقَرَة بَیْضآءَ. فَقالَ: یا رَبِّ! وَکَیْفَ ذلِکَ، وَعَدَدُ بنى إِسْرائیلَ أَکْثَرُ؟ قال: لاَِ نَّهُم شَکُّوا بَعْدَ الیَقینِ، وَجَحَدُوا بَعْدَ الاِْقْرارِ. قالَ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ: فَحَمَدْتُ اللهَ کَثیراً، وَشَکَرْتُهُ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عرض کی ؛ پروردگارا آیا یہ چیز(زاہدوں کی خصوصیات ) میری امت میں بھی کسی کو عطا ہوگی؟
پروردگار نے فرمایا: اے احمد ؛ یہ پیغمبروں اور صدیقوں کا درجہ(زھد) تیری امت کے لوگوں کا اور تیرے علاوہ دوسری امتوں کے لوگوں کا اور شہداء کے ایک گروہ کا بھی ہے,
نبی کریم (ص) نے عرض کیا پروردگارا کس امت کے زاہد زیادہ ہیں میری امت کے یا بنی اسرائیل کے؟ پروردگار نے فرمایا: تیری امت کے زاہدوں میں بنی اسرائیل کے زاہدوں کی مثال ایسے ہے جیسے سفید گائے پر سیاہ بال ہوں۔
نبی کریم (ص) نے عرض کی : پروردگارا اسکی وجہ کیا ہے حالانکہ بنی اسرائیل کی امت تعداد میں میری امت سے زیادہ ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اسکی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے یقین کے بعد شک کیا اور اقرار کے بعد انکار کیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں میں نے اللہ کی بہت حمد و ثناء کی اور اسکا شکر ادا کیا ۔۔۔۔
جاری ہے
ترجمہ و تشریح: استادِ محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
عالمی مرکز مہدویت قم