گلستان غیبت میں انتظار کے پھول کھلانے والی جانی پہچانی شخصیت کے مالک قبلہ جناب سید معمار منتظرین سے ان کے قیمتی اوقات میں سے کچھ وقت لیتے ہیں ۔
قبلہ بہت شکریہ آپ نے بہت مصروفیت کے باوجود ہمیں کچھ وقت دیا ،ہم آپ سے پہلا سوال یہ کرتے ہیں کہ فرمائیے ہمارے معاشرے میں امام زمان (عج)کی طرف توجہ کے کیا اثرات ہیں اور یہ ہماری کس ضرورت کو پورا کرسکتی ہے ؟
اگر دیکھا جائے تو انسان کی اہم ترین ضرورت سکون اور پر امن مقام ہے اسی لئے انسان ہمیشہ پر امن جگہ کی تلاش میں رہتا ہے اور قرآن مجید کے مطابق امن اس زمانہ میں حاصل ہوگا کہ جب انسان کا وجود شرک سے پاک ہوجائے گا، الذین آمنوا الم یلبسوا ایمانھم بظلم اولئک لھم الامن (سورہ انعام آیت ۷۲)
ترجمہ وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں ان کے ایمان نے لباس ظلم نہیں پہنا ان کے لئے امن ہے۔
ایک اور آیت میں اللہ تعالی شرک کو ظلم سے تعبیر فرماتا ہے کہ ان الشرک لظلم عظیم (سورہ لقمان آیت ۱۳)
تو پھر لم یلبسوا ایمانھم بظلم سے مراد لم یلبسوا ایمانھم بشرک ہوگا اور شرک سے پاک ہونے کی ایک راہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ولایت کے راستہ سے توحید لی جائے کیونکہ ولی خدا کے علاوہ کوئی بھی مطھر اور پاک کرنے والا نہیں ہے اور آیت تطھیر صرف اھل بیت(ع) کی شان میں نازل ہوئی چونکہ وہ مطھر ہیں کہ اللہ نے ان کو پاک کیا ہے لہذا مطھر بھی ہیں یعنی پاک کرنے والے۔
تو ان ہستیوں سے انس ، ان ہستیوں کی تعلیمات کو سمجھنا اور ان کے دائرہ ولایت میں داخل ہونے سے یہ ہستیاں انسان کو آہستہ آہستہ پاک کردیتی ہیں اور جس قدر انسان زیادہ سے زیادہ پاک ہوتا جاتا ہے، مقام امن کے زیادہ قریب ہوتا جاتا ہے اور اس زمانہ میں وہ مکمل پاک ہوگا کہ جب پہلے سے لیکر آخری تک کی ولایت کامل طور پر قبول کرے اور یہ وہ مقام ہے کہ بعض روایات کے مطابق ولایت اپنے عروج تک پہنچے گی اور اس سے لباس ظلم کو کھینچ لے گی، اب اس کا دل ایسا دل ہوگا جو اللہ تعالی کی طرف توجہ سے بھر جائے گا بلکہ عشق الہی سے لبریز ہوجائے گا، لہذا غیر خدا کسی طرح بھی وہاں اپنی جگہ نہیں بنا سکے گا اگر کوئی سارے ائمہ ھدی (ع) کو قبول کرلے لیکن حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا لہ الفدا کی ولایت کو قبول نہ کرے تو اس خلا کی بنا پر اس کا ایمان ناقص رہ جائے گا اور اتنی مقدار میں وہ مشرک ہوگا اور اس کا ایمان لباس ظلم میں لپٹا ہوا ہوگا اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ سکون و اطمینان اور امن کی نعمت سے محروم ہوجائے گا، پھر وہ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے پریشان کن خیالات اور گمراہ کن نظریات میں گھر جائے گا ۔
حضرت ولی عصر ارواحنا لہ الفداء کی طرف توجہ امن و سکون کے حصول کے لئے بہت بڑا سرمایہ ہے اگرچہ حضرت بقیۃ اللہ کا وجود پر فیض اس جہان اور تمام موجودات کے وجود کا سبب ہے ،کیونکہ بادل ہوا ستارے سورج وغیرہ یہ سب اپنی حرکت میں ایک ھدف و مقصد رکھتےہیں ان کا ہدف یہ ہے کہ وہ ایک کامل اور معصوم انسان کی خاطر حرکت میں ہیں نہ کہ ناقص خطاکار اور گناہ گار انسان کی خاطر، سب موجودات جہان حضرت بقیۃ اللہ ارواحنا لہ الفداء کی برکت سے قید وجود میں ہیں اور اپنا رزق لے رہے ہیں ،جس طرح کہ دعائے عدیلہ میں آیا ہے و بیمنہ رزق الوری و بوجودہ ثبتت الارض والسماء (دعائے عدیلہ مفاتیح الجنان) یعنی اس کے پربرکت وجود کی بنا پر دوسرے سب رزق لے رہے ہیں اور اس کی پربرکت وجود کی بنا پر زمین و آسمان قائم ہیں یہ جو حدیث قدسی میں جملہ آیا ہے خلقت الاشیاء لاجلک اسی چیز کو بیان کررہا ہے کہ اشیاء عالم کو تیری خاطر خلق کیا ۔
پس ہماری حرکت ہمارا کردار اور ہمارا سب کچھ حضرت بقیۃ اللہ کی محبت اور عشق میں ہونا چاہیے خواہ ہم جانیں یا نہ جانیں خواہ ہم چاہیں یا نہ چاہیں خواہ انسان مومن خواہ مشرک، خواہ انسان موحد خواہ منافق، وہ امام مظہر رحمت رحمانیہ حضرت حق ہے اور حضرت حق کی رحمت و رحمانیت سب مخلوقات کے لئے ہے، ہم کہتے ہیں کہ حضرت ولی عصر (ع) اللہ کے ولی ہیں قرآن مجید کو دیکھیں وہ ان لوگوں کے برخلاف کہ جو کسی کا تعارف کرواتے ہوئے اتنے القاب بیان کرتے ہیں قرآن صرف ایک کلمہ کہتا ہے بقیۃ اللہ خیر لکم ان کنتم مومنین (سورہ ھود آیت ۸۶)
اگر تم مومنین ہو تو بقیۃ اللہ تمہارے لئے خیر ہے کون وہ کہ جو تمام صفات الہی کا خلاصہ ہے ،اگر ہم یہ کہتے ہیں کہ ھو معکم اینما کنتم (سورہ حدید آیت ۴)
یعنی تم جس جگہ پر بھی ہو وہ تمہارے ساتھ ہے تو اسی طرح حضرت بقیۃ اللہ (ع) تمام حالات اور لحظات میں ہمارے ساتھ ہیں، جیسا کہ کتاب بصائر الدرجات میں روایت ہے کہ ہمارے وجود کی کوئی چیز امام زمان (عج) سے پوشیدہ نہیں ہے، یہ قانون تو ہم سورہ یس کی اس آیت سے بھی سمجھ سکتے ہیں کہ و کل شی احصیناہ فی امام مبین (سورہ یس آیت ۱۲)
معرفت یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ امام زمان (عج) ہر لمحہ ہم پر توجہ رکھے ہوئے ہیں اور ہم سب کا مشاہدہ فرمارہے ہیں، امیر المومنین(ع) فرماتے ہیں من احب شی لھج بذکرہ جو کسی سے محبت کرتا ہے وہ ہمیشہ اس کا ذکر کرنا چاہتا ہے، لہذا اس کو یاد کرتا رہتا ہے پھر یہ مقام آجاتا ہے کہ ہمیشہ خود کو اپنے دوست و محبوب کے حضور میں پاتا ہے پھر اس کے اور اس کے در میان جدائی نہیں سمھجتا، لہذا سب سے بہتر یہ ہے کہ ہم معرفت حاصل کریں اور معرفت کئی راستوں سے حاصل ہوتی ہے، ایک راستہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ حضرت کے بارے میں مطالعہ رکھیں مثلا مرحوم آیت اللہ اصفہانی کی کتاب مکیال المکارم اور مرحوم علامہ مجلسی کی بحار الانوار کی ۵۱، ۵۲، ۵۳ جلد جو کہ امام مہدی علیہ السلام کے عنوان کے تحت لکھی گئی ہیں مطالعہ کریں ایسی بعض کتابیں جو آج کے دور میں لکھی گئی ہیں مثلا محمد رضا حکمیی کی کتاب خورشید مغرب یا ابراھیم امینی کی کتاب دادگستر جھان وغیرہ، تو ان کتابوں کا مطالعہ ایک طرف ہماری مدد کرے گا اور دوسری طرف امام مہدی علیہ السلام کے فرامین اور ان کی طلب کردہ چیزوں پر عمل آہستہ آہستہ ان کی محبت کو بڑھائے گا اور ساتھ ان کی متعلقہ دعائیں اور زیارات جو کہ مفاتیح الجنان میں ہیں یہ جاری رکھے، یعنی انسان پہلے اپنے دل کو پاکیزہ کرے تاکہ حضرت ولی عصر (عج) کی توجہ پیدا ہو اور پھر وہ بھی عنایت فرمائیں اس صورت میں محبت کئی درجہ بڑھتی رہے گی ۔
امام مہدی علیہ السلام کے مکتب کی ترویج میں مطبوعات اور میڈیا کا کیا کردار ہے؟
میرا خیال ہے کہ اس سے پہلے کہ مطبوعات اور میڈیا اس سلسلہ میں کوئی کردار ادا کرے ،دانشوروں اور صاحب نظر حضرات کو چاہیے کہ وہ پہلے امام مہدی علیہ السلام اور ان کے متعلقہ مسائل میں ہر حوالے سے ایک صحیح تحقیق پیش کریں ،التبہ ایسا نظریہ نہ ہوکہ جو بعض احکام الھی کے مانع ہوجائے تو اس صورت میں مطبوعات اور میڈیا بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں اور امید بخش فضا قائم ہوگی کہ جس میں ایک روشن حقیقت کو دیکھنے کے لئے لوگوں کا فکری مطلع صاف و شفاف ہوگا۔
بعض کتابیں جو ا نہی دنوں میں شائع ہوئیں ہیں ان میں حضرت مہدی علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ جب تشریف لائیں گے تو آیا آپ جدید ٹیکنالوجی ، کیمپوٹر اور انٹرنیٹ وغیرہ کو بھی استعمال کریں گے یانہ؟ تو بعض لوگوں نے جواب دیا چونکہ حضرت ولی عصر (عج) علم اور علمی ترقی کے مانع نہیں ہیں لہذا ان سے ضرور فائدہ اٹھایں گے تو اس جواب میں دو نکتوں پر غفلت برتی گئی ہے، جواب دینے والے نے یہ فرض کیا کہ گویا جب امام زمان (عج) تشریف لائیں گے تو انٹر نیٹ کا زمانہ باقی ہوگا یہی پچھلے بیس یا تیس سالوں کا زمانہ دیکھ لیں کتنے دور گذر گئے پرواز کرنے کا دور ، ایٹم کا دور اور آجکل انٹرنیٹ کا دور بشر علمی ترقی میں مشغول رہا ہے اور قدم پر قدم بڑھا رہا ہے ہر روز نئی سے نئی ایجاد سامنے آرہی ہے ۔۔۔۔ (آپ کو کیا معلوم انہوں نے کس دور میں تشریف لانا ہے)دوسری بات یہ کہ امام زمانہ(عج) کے انقلاب لانے کا مطلب کیا ہے ؟ آیا اس کا مطلب اسی طرح ہے کہ جس طرح ایران میں انقلاب آیا؟ یا انہوں نے پوری کائنات میں انسانی زندگی کو یکسر بدلنا ہے پوری دنیا کے انسانوں کو ایک نئی زندگی سے آشنا کرنا ہے اگر یہ بات درست ثابت ہوکہ انہوں نے تشریف لا کر صرف لوگوں کی موجودہ وضیعت کی اصلاح کرنی ہے تو ان لوگوں کا جواب صحیح ہے لیکن اگر یہ ہو و نرید ان نمن علی الذین استضعفوا فی الارض، (سورہ فتح آیت ۵)
تو پھر اس صورت میں یہ ہے کہ کائنات کی اس زندگی میں ہر حوالے سے تبدیلی اور انقلاب پیدا ہو ادھر ہمارے پاس مسلم روایات میں ہے کہ ائمہ معصومین علیھم السلام نے فرمایا قام قائمنا بالسیف کہ حضرت بقیۃ اللہ تلوار کے ساتھ قیام فرمائیں گے ان روایات کی سند بھی صحیح ہے، تو یہ روایات ان کے اس جواب کے ساتھ جس میں کہا گیا کہ امام زمان(عج) کیمپیوٹر اور ایٹمی بمب وغیرہ کو استعمال کریں گے کوئی مطابقت نہیں رکھتیں اگرچہ ائمہ علمی ترقی کے بھی مخالف نہیں ہیں۔
تیسری بات یہ کہ ہم دیکھ رہے ہیں انسانی زندگی کا نظام آہستہ آہستہ جس سمت میں جا رہا ہے تو اس صورت میں مکمل طور پر انسانی زندگی بدل کر رہ جائے گی ممکن ہے آنے والے بیس سالوں میں انسان آج کی زندگی سے مکمل مختلف زندگی گزار رہا ہو مثلا یہ جو کوشش کی جارہی ہے کہ دوسری انرجی کی بجائے سورج کی انرجی سے فائدہ اٹھایا جائے اور یہ بتایا جارہا ہے کہ کتنی مدت میں زمین کی انرجی کے منابع اور تیل جیسے منابع ختم ہوجائیں گے اور زور دیا جارہا ہے کہ ان چیزوں کا کم سے کم استعمال کیا جائے ۔ ۔ ۔ ۔
چوتھی بات یہ کہ روایات میں آیا ہے کہ زمانہ ظہور تک ۲۷ حروف علم میں سے فقط دو حروف روشن ہوں گے تو یہ ایجادات کا سلسلہ کہاں تک پہنچے ہر روز ایک نئی چیز کی ایجاد ہم ملاحظہ کررہے ہیں، تو یہ صرف ان دو حروف کی برکت سے ہے ابھی دوسرے ۲۵ حروف نے امام زمانہ(عج) کے ظہور کے بعد کشف ہونا ہے تو ان ۲۵ حروف پر بشری ترقی کسی صورت میں بھی ان دو حروف کی ترقی سے مقایسہ نہیں ہوسکتی جس طرح کہ یان گیٹون نے اپنے انٹرویوں میں کہا کہ بیسویں صدی میں انسانی ترقی کا گذشتہ تین ہزار سالہ انسانی ترقی سے مقایسہ نہیں ہوسکتا ۔
پانچویں بات یہ کہ اللہ تعالی کا ارادہ ہے امام کے زمانہ ظہور میں کائنات کی تمام طاقتیں اور مخلوقات امام مہدی(عج) کے حامی و ناصر ہوں گی، زمین و آسمان بلکہ روایات کے مطابق بادل امام کے مطیع ہوں گے، حضرت ایک یہودی کا تعاقب کریں گے وہ ایک پتھر کے پیچھے پوشیدہ ہوگا تو پتھر بول پڑے گا اے مولا ایک یہودی میرے پیچھے مخفی ہے کتاب سفینۃ البحار میں آیا ہے کہ ایک دن متوکل نے چاہا کہ امام نقی علیہ السلام کو مرعوب کرے تو اپنے لشکریوں کو یعنی سواروں پیادوں تیر اندازوں کو تیار ہوکر امام کے سامنے آنے کا حکم دیا تاکہ امام اس کی طاقت سے خوفزدہ ہوں ،جب اس نے ایسا کیا تو امام نے فرمایا اب ہم چاہتے ہیں کہ تجھے اپنی طاقت دکھلائیں ایک لحظہ کے بعد ا امام نے فرمایا دیکھو اس نے دیکھا ملائکہ دو صفوں میں کھڑے ہیں پھر ہر صف میں ایک صف زمین سے لیکر آسمان تک ملائکہ کی لا محدود فوج جمع ہے اور سب امام کی خدمت میں عرض کررہے ہیں کہ ہم تیار ہیں، تو روایت میں آیا کہ جب متوکل نے یہ منظر دیکھا تو ہوش و حواس کھو بیٹھا ۔ ۔ ۔ پس جو ایسی طاقتوں کا مالک ہو میزائلوں ،کیمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی کیا ضرورت ہے؟ امام ان چیزوں کا محتاج ہو تو یہ توہین ہے البتہ میں یہ نہیں چاہتا کہ میں ان چیزوں کی افادیت کا انکار کروں ان کی افادیت اپنی جگہ پر مسلم ہے لیکن امام کی عظمت ان سے بالاتر ہے
فرماتے ہیں وللہ جنود السماوات والارض بہرحال یہ غلط بات ہے جو آج کل ہورہی ہے کہ چونکہ وہ علمی ترقی کے مخالف نہیں ہیں، لہذا اس کو استعمال کریں گے اگرچہ وہ علمی ترقی کے مخالف نہیں ہیں یہ درست ہے لیکن زمانہ ظہور میں تو حرکت فی الارض ہوگی تمام تر موجودہ وضیعت تبدیل ہوکر رہ جائے گی، لہذا توجہ رکھنی چاہیے کہ اس تبدیلی کا آغاز تو خود انسان کے ہاتھوں میں ہورہا ہے، یہ جو سبز ٹیکنالوجی کی بات ہورہی ہے ممکن ہے آیندہ چند عشروں میں یہ پوری دنیا میں پھیل جائے تو ہم اس طبعی زندگی کی طرف لوٹ سکتے ہیں، تو مطبوعات کا کردار اس صورت میں اہم ہے کہ جب امام کے حوالے سے صحیح تحقیقی رائے دی جائے تو انسان کے اندر نشاط اور امید کے جذبات پیدا ہوں گے اور اس کا اضطراب ختم ہوگا اور وہ اطمینان و سکون کے مقام پر پہنچے گا ۔
احادیث اور زیارات میں ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت کو حجت کے نام سے یاد کیا گیا ہے تو اس حوالے سے وضاحت فرمائیں ؟
اصل میں لفظ حجت حج سے ہے اور حج کا معنی قصد ہے۔ جب اللہ کی طرف قصد ہو تو اسے حج کہتے ہیں اور جو قصد الی اللہ کرے وہ حاجی کہلاتا ہے تو حجت وہ دلیل ہے کہ جو آپ کو ہدف تک پہنچائے، اب اگر ھدف و مقصد اللہ ہے تو یہ اس مقصد تک آپ کو پہنچائے گا حجت کا معنی دلیل اور رہنما ہے لہذا تمام آئمہ(ع) حجج اللہ البالغہ ہیں کہ یہ تمام موجودات جہان کو ایک اعلی مقصد تک پہنچاتی ہے۔
امام مہدی علیہ السلام کس طرح زمانہ غیبت میں حجت ہیں اور جب کہ لوگوں کے درمیان نہیں ہیں وہ کیسے انہیں مقصد اور ہدف تک پہنچا سکتے ہیں؟
روایت میں ہے کہ معصوم(ع) نے فرمایا : زمانہ غیبت میں ہم حضرت ولی عصر (عج) سے اس طرح فیض یاب ہوں گے کہ جس طرح بادل کے پیچھے سے سورج سے فائدہ اٹھایا جاتاہے، یعنی اگر سورج کا نور نہ ہوتا تو بخارات کا عمل نہ ہوتا جس کے نتیجہ میں بادل نہ بنتے یعنی یہ بارش جو کہ باران رحمت ہے اسی سورج کی برکت سے ہے تو ہر الہی فکر جو انسانی ذہن تک آتی ہے وہ خیر ہے برکت ہے اور اللہ کی طرف راستہ کھولنے والی ہے ،دوسرا یہ کہ حضرت ولی عصر (عج) کے وجود مبارک کا اس جہان میں سب سے بڑا نقش یہ ہے کہ وہ مطلق مستفیض ہے یعنی ہمیشہ اللہ تعالی کا فیض لیتے رہتے ہیں پھر وہ مفیض مطلق بھی ہیں یعنی سب کو اللہ کی طرف ہدایت دینے کے لئے فیض بھی دے رہے ہیں، اب ہر کوئی اپنے ظرف اور استعداد کے مطابق فیض لے رہا ہے پس جو بھی خیر پہنچتی ہے حضرت کے پربرکت وجود کی بنا پر ہے جس طرح سورج سب کے لئے چمکتا ہے اگر آپ کے کمرے میں روشنی نہیں آرہی آپ نے اس کا راستہ بند کیا ہے مثلا پردہ لگایا ہے کھڑکی بند کی ہے وہ جگہ جہاں اس طرح حجاب نہیں ہے وہ زیادہ سورج کی روشنی سے بہرہ مند ہوتی ہیں۔
آجکل کی دنیا کی ضرورتوں کی طرف توجہ کرتے ہوئے کس طرح بحث مہدویت کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے؟
سب سے پہلی بات عرض کرتا ہوں کہ بالکل ضرورت ہی نہیں ہم مہدویت پر ہر روز بحث کریں، کیونکہ یہ خود ہی ہر روز جدید ترین اور تازہ ترین بحث دنیا ہے اور یہ مسئلہ ہر روز شفاف اور سیرس ہوتا جارہا ہے ،ایک روایت میں آیا ہے لایزال یؤید ھذا الدین برجل فاسق لہذا آج دنیا کے فاسق حکمران اپنے طرز عمل سے لوگوں کو امام مہدی (عج) کے حوالے سے بحث پر مجبور کررہے ہیں، جیسا کہ وایٹڈ کہتا ہے دنیا نے دوبارہ اپنی نورانیت کو ختم کردیا ہے چونکہ پروفیسر حضرات پیغمبروں سے سبقت کرنے لگے ہیں اور جب سے پروفیسروں نے پیغمبروں پر سبقت کرنی شروع کی ہے تو اپنی نورانیت وضعیت ضائع کردی جس کے نتیجے میں لوگ واقعیت دیکھنے کی استعداد کھو بیٹھے ہیں، یان یاک روس میں کئی عشروں لکھی کتابوں میں سے ایک کتاب میں لکھتا ہے کہ اس کرہ خاکی انسانی پر زندگی اس قدر مشکل پڑ جائے گی کہ پھر یہ اپنے ذرائع سے اپنی مشکلات دور کرنے سے عاجز ہو جائیں گے تو فقط خداؤں کے ذریعے یہ مشکلات دور ہوں گی۔
یہی یہ نکتہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جدید ٹیکنالوجی نے امام مہدی علیہ السلام کے مسئلہ کو پیش کرنے میں بہت اثر دکھایا ہے، ہم ٹیکنالوجی پر کوئی اعتراض نہیں کررہے میں ان لوگوں کے خلاف ہوں کہ جو یہ کہہ رہے ہیں جدید ٹیکنالوجی ایک پیغام ہے اور اس نے انسان کو مسخر کیا ہوا ہے، نہیں بلکہ میرا عقیدہ یہ ہے یہاں سب سے پہلے دیکھیں کہ کون سا انسان اور کونسا بشر؟ کیونکہ ان باتوں کا یہ نیتجہ ہے کہ انسان کی اپنی کوئی واقعیت نہیں ہے باہر کی کوئی چیز اس سے کھیل سکتی ہے اور اسے جس طرف پہنچانا چاہے لے جاسکتی ہے، حالانکہ معارف اسلامی میں ہم بحث فطرت کی بنیاد پر اعتقاد رکھتے ہیں کہ انسان ایک واقعیت رکھتا ہے ایک حقیقت ہے اور یہ حقیقت اجازت نہیں دیتی ہر بیرونی چیز اس پر تسلط پیدا کرے اس کی شخصیت اور وجود کی لگام اپنے ہاتھ میں لے ا،گر انسان خوب رشد کرے اور صحیح معنوں میں اسلامی اور انسانی مکتب کی فضا میں آئے تو بجائے اس کے ٹیکنالوجی اس سے آگے بڑھے وہ اس کے پیچھے چلے گی بعض تو محض اس کے ہاتھ کا ایک وسیلہ اور آلہ ہوگی البتہ اگر انسان یوں کمال کے مراحل سے نہ گزرے تو رشد نہ کرے تو ممکن ہے ٹیکنالوجی اس سے آگے بڑھ جائے۔
امام مہدی علیہ السلام کا مسئلہ ان بہترین عناصر میں سے ہے کہ فطرت نے اس قدر اسے تقویت بخشی ہے کہ وہ یوں پھول کی مانند کھل چکا ہے کہ اب ہم اطمینان سے اس راہ میں کسی بھی وسیلہ اور آلہ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں تو یہ ٹیکنالوجی ان کے لئے ایک وسیلہ ہے ،مغربی مفکرین کے برخلاف ہم ایسی فضا میں ہیں کہ جس کے بارے میں کہا گیا ہے الاسلام یعلو ولا یعلی علیہ، یعنی ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ انسان اس قدر بلند ہے کہ کوئی بھی اس فکر سے بڑھکر چیز نہیں ہے
قرآن مجید کی آیت ہے کہ علیکم انفسکم لایضرکم من ضل اذا اھتدیتم (سورہ مائدہ آیت ۱۰۵)
آپ اپنے آپ پر توجہ رکھیں گے تو بیرونی اشیاء آپ کے لئے ضرر دہ نہیں ہوں گی اگر یہ ٹیکنالوجی کچھ لوگوں سے کھیل رہی ہے تو بظاھر بڑے لوگوں کے قالب میں ہیں نہ کہ واقعا ہی بڑے ہیں، اس کی مثال سادہ سی ہے دو سال کی بچی کو دیکھئے ایک گڑیا سے کھیل رہی ہے اور بڑا لطف لے رہی ہے یہی بچی جب پندرہ سال کی ہوجائیگی اسے کھیں کہ گڑیا سے کھیلے تو وہ ایسا کرنے سے شرم محسوس کرے گی کیونکہ اس کی ذات میں بھی بزرگی پیدا ہوئی ہے اور جیسے جیسے یہ بزرگی بڑھے گی اس پر باہر کے اثرات کم ہوں گے اور اس کے بیرونی اشیا پر اثرات بڑھیں گے ۔
تو امام مہدی علیہ السلام سے تمسک یوں شخصیت میں رشد و کمال پیدا کرتا ہے کہ وہ اثر انداز ہوگا نہ کہ اثر لے گا بعض تو اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ ان کا اثر سو فیصد دوسروں پر ہوتا ہے جب کہ وہ کسی سے اثر نہیں لیتے ہمارے دینی تفکر میں انسانی شخصیت کے استقلال کی آخری حد ہے۔
بعض روایات میں آیا ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام ایسے زمانہ میں ظہور کریں گے کہ تمام لوگ مایوس ہوچکے ہوں گے ،ادھر کہا جاتا ہے کہ زمانہ غیبت میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم تیار رہیں تو روایات میں اس قسم کے تضاد کے بارے میں کیا کہا جاسکتا ہے؟
روایات کے حوالے سے تضاد کی تعبیر کرنا درست نہیں ہے، ہوسکتا ہے بعض اوقات روایات کے مفاھیم آپس میں ٹکرائے ہوں تو بزرگ علماء نے اس چیز کو حل کرنے کے لئے اقدام کئے ہیں، کہ جسے جمع دلالی کہا جاتا ہے یہ روش اصول کی کتابوں میں موجود ہے علماء نے اس مسئلہ کے حوالے سے باقاعدہ تعادل و تراجی کے عنوان سے کتابیں لکھی ہیں، بعض کا تو یہ نظریہ ہے کہ حقیقی مجتھد وہ ہے کہ جو بظاھر ان معارض روایات کو ایک مفہوم میں لاسکے، اگر علماء میں سے دیکھا جائے تو مرحوم محقق صاحب شرایع رحمۃ اللہ علیہ کے پاس یہ فن کمال کی حد تک ہے کہ جس کی تجلی کتاب شرائع میں موجود ہے انہوں نے ایسی روایات کو رد کرنے اور ایک طرف چھوڑنے کی بجائے انہیں آپس میں جمع کیا ہے یعنی ہاہم سازگار کیا ہے اسی لئے شاید بعض کتابیں شرائع کو قرآن الفقہ کہتی ہیں۔
میں نے خود آیت اللہ بہجت کے درس میں خود ان سے سنا کہ فرما رہے تھے اس قسم کی معارض احادیث کو محکم ترین انداز میں صاحب شرائع نے جمع کیا ہے اسی لئے انہیں علماء میں فوق العادہ دقیق و عمیق سمجھا جا سکتا ہے اسی طرح حضرت ولی عصر (عج) کے حوالے سے بہت سی روایات کو جمع کیا جاسکتا ہے۔
۱) عمیق مطالعہ کرتے ہوئے تمام روایات کو ایک دوسرے کے ساتھ چیک کیا جاسکتا ہے ۲) روایات کے الفاظ میں دقت کی ضرورت ہے اور دوسری طرف روایات کی سند کو بھی چیک کرنا ضروری ہے اسی طرح اسباب ظہور اور علامات ظہور میں فرق واضح ہونا چاہیئے کہ یہ مطلب اپنی جگہ ظریف ہے ۔
ان تمام کاموں کے لئے ضروری ہے کہ محققین کا ایک گروپ بیٹھے اور عمیق انداز سے تحقیق کرے اور اسلامی معاشرے میں زمانہ کے گزرنے کے ساتھ ساتھ اسے پیش کریں یہ کام بالخصوص ہمارا فکری بحران جو خاص طور پر نوجوان نسل کے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں ان کی اصلاح کرسکتا ہے، ایک مثال عرض کرتا ہوں کہ روایات میں آیا ہے کہ ہمارے فرزند مہدی(ع) ایسے زمانے میں ظہور فرمائیں گے کہ جب سعید سعادت کی انتہاء اور شقی شقاوت کی انتہاء پر پہنچے گا، اب کس زمانہ میں یہ صورت قابل تصور ہے ، تو یہ اس صورت میں ہے کہ میدان سعید کے لئے بھی ہموار ہو اور شقی کے لئے بھی ۔ ۔ ۔ یعنی معاشرے میں فساد پھیلے گا کچھ حد تک یہ شقی پھیلائے گا اور سعید اس کے مد مقابل جہاد اکبر کرے گا اور آلودہ نہ ہوگا جس کے نتیجے میں اس کی سعادت کمال میں بڑھتی رہے گی ادھر شقی مزید لجوج اور ہٹ دھرم ہوں گے لہذا وہ بھی شقاوت کی انتہا پر ہوں گے جب سعید روحی اور باطنی طور پر پاک و پاکیزہ ہو گا تو وہ امام کے ظہور کے لئے تیار ہوگا، تو اسی زمانہ میں جب وہ شقی کے فساد کا مقابلہ کرے گا اسی کشمکش میں پاکیزہ لوگوں کے معاشرہ میں ایک الہی رہبر کی تشنگی بڑے گی، البتہ یہاں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی ہوگا یہ ان لوگوں کا اپنے دین اور اسلامی کردار کے لئے دفاع یہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔
روایات میں ایسی روایات بھی ہیں جو واضح کرتی ہیں کہ وہ آخرالزمان ہیں حضرت لوگوں کے سروں پر ہاتھ پھیریں گے تو لوگوں کی عقول کامل ہوجائیں گی اور دوسری طرف یہ بھی ہے کہ ایک یہودی عورت حضرت کو شہید کرے تو ان میں کیسے مطابقت ہوگی؟
آپ کی بات میں دو جدا مسئلے ہیں یہ جو روایات میں آیا ہے کہ جب حضرت ولی عصر ارواحنا فدا(عج) تشریف لائیں گے تو اللہ تعالی لوگوں کی عقول کو کامل فرمائے گا، البتہ ہمارے ہاں ایک جملہ معروف ہے کہ مامن عام الا وقد خص یعنی کوئی بات عام نہیں بلکہ تخصیص ہے، قرآن میں ایسی مثالیں ہیں تو یہ جو بہت زیادہ کہا گیا ہے الا الذین آمنوا یا الا الذین کفروا ادھر قرآن بھی قیامت تک باقی ہے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کا ایک گروہ پھر بھی عنایت حق کی ناشکری کریں گے، معلوم ہوا ان کے منحرف ہونے کی راہ بھی تھی، یہاں ایک نکتہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ رجعت کے موضوع پر روایات سے معلوم ہوا کہ جو شیطان نے کہا تھا مجھے یوم یبعثون تک مہلت دیں یہاں مراد یوم رجعت ہے، الزام الناصب کی تیسری جلد میں روایت ہے کہ یوم یبعثون سے مراد حضرت امیر ا لمومنین(ع) کی رجعت کا دن ہے تو آپ ایک جو کام کریں گے وہ شیطان کو ہلاک کریں گے وہ جب نابود ہوگا تو شقاوت کے تمام اسباب ختم ہوجائیں گے اور عقول رشد کریں گی لیکن پھر خطا کا احتمال تو رہے گا کیونکہ بعض روایات میں آیا ہے حضرت حجت (عج) جب کوئی فیصلہ کریں گے تو انہیں شاھد کی ضرورت نہ ہوگی اپنے علم الہی کے مطابق فیصلہ کریں گے تو جرم اور خطا ہوگا اس کے بارے میں فیصلہ کریں گے ۔
آخر میں آپ قارئین سے کچھ کہنا چاہتے ہیں تو فرمائیں۔
جناب شیخ محمود فرماتے ہیں :
رمق دارد و چشم اھل ظاھر
نبیند از ظاھر جز مظاھر
اس سے پہلے عرض کرچکا ہوں کہ یہ جہان ایک معصوم اور کامل انسان کے طفیل حرکت میں ہے بالالفاط دیگر یہ جہان اپنی غرض و غایت اور ہدف کے مطابق حرکت میں ہے، ان جہان کے مظاہر کو معلوم ہے کہ ایک شخص ہے کہ جو لیاقت و شان رکھتا ہے کہ اس کی خاطر پورا جہان فدا ہو جائے، لہذا وہ حرکت میں ہیں ہم اس کی حرکت سے فائدہ اٹھا رہے ہیں سورج چاند حضرت ولی عصر(عج) کے مقدس وجود کی خاطر طلوع کرتے ہیں، صبح سے رات تک حضرت ولی عصر (عج) کا جمال ظہور کرتا ہے، ادھر ہم ہر وقت یہی کہتے ہیں کہ اے اللہ ہماری آنکھوں کو حضرت ولی عصر(عج) کے ظہور سے منور فرما دے ،معلوم ہے یہ کس مثال کی مانند ہے ؟ یہ یوں ہے کہ ایک شخص دن میں شمع روشن کرے اور صحراؤں بیابانوں میں سورج کی تلاش میں چل پڑے اگر آپ اسے راستے میں دیکھیں تو پوچھیں گے کیا کرر ہے ہو تو وہ کہے کہ شمع روشن کی ہے تاکہ سورج کا تلاش کروں، آپ اسے احمق اور مریض سمجھیں گے، جب حضرت ولی عصر (عج) کے وجود نے تمام جہان کو روشن کیا ہوا ہے ہم کس کی تلاش میں ہیں ؟ ہمیں چاہئے ہم اپنے آپ کو تلاش کریں حضرت کے حضور اپنے آپ کو حاضر کریں وہ تو غائب نہیں ہیں جس طرح ایک خاتون نے کہا تھا ہم غائب ہیں وہ ہمارے آنے کا انتظار کررہے ہیں، ہمیں چاہئے کہ ہم ان کی طرف زیادہ سے زیادہ توجہ رکھیں، صبح عصر ان کی یاد میں رہیں کسی نے خواب میں رسول اکرم (ص)کی زیارت کی عرض کیا کون سا کام کروں کہ حضرت ولی عصر (عج) کی زیارت حاصل ہو تو آنحضرت نے فرمایا ہر صبح اور عصر ایک ساعت امام حسین علیہ السلام کے لئے گریہ کرو ، یہ ایک سچا خواب ہے چونکہ روایات کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے، اس خواب میں ایک اہم نکتہ ہے فرمایا گیا من تشبہ بقوم فھو منھم کہ جب حضرت ولی عصر (عج) کے ساتھ سنخیت پیدا نہیں کرو گے اس وقت تک نہ ان کو درک کرسکتے ہو نہ ان کا مشاھدہ کرسکتے ہو، تو ہمیں چاہیے کہ ہم امام زمان(عج) کے کسی ایک کام کے ساتھ سنخیت پیدا کریں تو امام زمان(عج) کا ایک کام ہے کہ وہ صبح و عصر اپنے جد غریب امام حسین(ع) کے لئے آنسو بہاتے ہیں ، امام حسین علیہ السلام کے ساتھ توسل انتہائی قربت بخش ہے، زیارت عاشورہ میں ہے کہ (انی اتقرب الی اللہ و الی رسولہ و الی امیر المومنین و الی فاطمۃ و الی الحسن و الیک بموالاتک)
ایک اور راہ ان کی سلامتی کی خاطر صدقہ دینا ہے، بعض پوچھتے ہیں کہ کیا امام مہدی(ع) کو صدقہ کی ضرورت ہے؟ یہ اس طرح ہے کہ آپ ٹیکسی میں بیٹھے ہوئے ہیں آپ کے ساتھ آپ کا ایک گہرا دوست ہے کہ جو خوب بھی مالدار بھی ہے لیکن کرایہ دیتے وقت آپ جلدی سے اس کا کرایہ ڈرائیور کو دے دیتے ہیں، درحقیقت آپ دوست کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں اگرچہ وہ تمہارے چند پیسوں کا محتاج نہیں ہے، تو امام کی سلامتی کے لئے صدقہ ہم دیتے ہیں گویا ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اے مولیٰ ہم آپ سے محبت رکھتے ہیں، یہی فلسفہ ہے تو بہترین راہ امام کی طرف توجہ ہے اہل ریاضت کہتے ہیں کہ ہر وقت کہا کرو یا بن الحسن تاکہ یہ چیز تم میں راسخ ہوجائے چونکہ محبت والوں کے دلوں میں جب محبت بڑھ جائے تو محبوب سامنے بھی نہ ہو و وہ محبوبب کے پاس ہوتے ہیں ۔۔