اللہ ، رسول پر سبقت کیوں نہیں کرنی؟, تاریخ میں اسکی مثالیں, اس آیت کے پیغامات
استادِ محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
خلاصہ:
قرآن مجید میں ارشاد پروردگار ہو رہا ہے۔
(49) سورۃ الحجرات (مدنی — کل آیات 18)
بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَىِ اللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ ۖ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ سَـمِيْعٌ عَلِـيْمٌ (1)
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے سامنے پہل نہ کرو، اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ سب کچھ سننے والا جاننے والا ہے۔
تفسیر:
قرآن مجید میں تین سورتیں ایسی ہیں جیسے سورہ المائدہ، سورہ الحجرات اور سورہ ممتحنہ کہ جو حکومتی اور معاشرتی مسائل کو بیان کرتی ہیں اور تینوں کا آغاز اسی سے ہوا ہے کہ:
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا
سورہ المائدہ میں پروردگار عالم فرما رہا ہے:
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ ۚ
اے ایمان والو! عہدوں کو پورا کرو،
یہ معاشرتی اور معاشی اعتبار سے اہم ترین حکم ہے کہ کسی معاشرے کا نظم اسی صورت میں برقرار ہو گا کہ جب لوگ ایک دوسرے سے کئے ہوئے وعدے پورے کریں گے۔
سورہ ممتحنہ میں پروردگار فرما رہا ہے کہ:
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّىْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَآءَ
اے ایمان والو! میرے دشمنوں اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ
- یہ بھی ایک سیاسی اور اجتماعی اعتبار سے اہم ترین حکم ہے کہ کبھی بھی اپنےدشمنوں کو اپنا سرپرست نہ بناؤ۔
اور اس سورہ حجرات کی آیت ہے اس میں لوگوں کی فرشتوں کی مانند تربیت کر رہا ہے۔ کہ فقط اور فقط اللہ اور اس کے رسول ؐ کے تابع رہیں اور اپنی طرف سے کچھ گھڑ کر رسولؐ پر سبقت نہ کریں۔ - اب قرآن مجید نے کسی مقام پر یہ بیان نہیں کیا کہ آپ رسولؐ پر سبقت کر سکتے ہیں بلکہ تمام مسائل چاہے سیاسی ہوں اقتصادی ہو چاہے عام سے مسائل ہوں اس میں ہمیشہ تابع رہیں۔ اور اگر کوئی شخص یہ کام کرے گا تو یہاں اللہ کی جانب سے حرام کیا گیا ہے۔ اور اگر کوئی شخص ایسا کام کرے گا تو اس سے نظام اسلامی میں، حکومت اسلامی میں، سیاست اسلامی میں خلل پیدا ہو گا ۔ اور پھر ہر کوئی اپنی مرضی کرے گا اور پھر قانون قانون نہیں رہے گا اور نظم نظم نہیں رہے گا۔
- اس آیت کے اندر یہ جو معاشرتی حکم ہے اس نے بہت سارے انحرافات ، بدعتوں اور خلل کو ختم کر دیا ہے۔ کہ لوگ اپنے وہم گمان سے کوئی کام نہ کریں اورجلد ہی کوئی قضاوت نہ کریں اور اپنے خیالات پر نہ چلیں بلکہ اللہ اور رسولؐ کے لیے اگر کوئی کام کرنا ہے تو اس میں خدا اور رسولؐ کو مقدم کریں کہ وہاں سے کیا فیصلہ آتا ہے۔ اور اس پر چلیں۔ یہ ہے مومنین کی زندگی ۔ مومن وہ ہے کہ جو فقط ایمان نہیں رکھتا بلکہ اپنی زندگی کے جتنے بھی امور، آداب، اہداف و رسوم میں پروردگار کے قوانین کے تابع ہے ۔ اور یہ وہ چیز ہے جو انسان کی عقل اور فطرت بھی اسے سیکھاتی ہے۔
اب ہم تاریخ میں دیکھیں تو کچھ ایسے واقعات ملتے ہیں کہ شروع کے مسلمانوں سے ایسی غلطیاں ہوئیں ہیں۔ مثلاً ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخ میں آیا ہے کہ عید قربان پر ایک مسلمانوں کا گروہ جس نے رسولؐ اللہ سے پہلے ہی قربانی کر لی اس وقت بھی انہیں یہ کہا گیا:
لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَىِ اللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ
اپنے امور کو رسولؐ اللہ اور پروردگار پر مقدم نہ کریں۔
یا ہم دیکھتے ہیں کہ رسولؐ اللہ ایک گروہ کو کفار کی طرف تبلیغ کے لیے بھیجا۔ تو کفار نے ان سفیروں کو قتل کیا اب ان میں سے تین بچے، جو فرار ہوئے۔ تو راستے میں ان کو دو کافر ملے جن کو انہوں نے اپنے دوستوں کے بدلے میں قتل کر دیا حالانکہ ان کا تو کوئی قصور بھی نہ تھا۔ یہاں بھی اس خود سرانہ عمل پر اللہ نے تنبیہ کی کہ یہ کام تم نے حکم رسولؐ کے بغیر کیوں کیا۔ یعنی یہاں بھی یہی حکم ہے
لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَىِ اللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ
یا ہم قوم بنی تمیم کے حوالے سے دیکھتے ہیں کہ انہوں نے رسولؐ اللہ سے کہا کہ ہمارے لیے کوئی شخص حاکم بنا کر بھیجیں۔ تو اب یہاں خلیفہ اول و دوم سے مختلف لوگوں کے بارے میں اپنی رائے پیش کی اور پھر لڑائی شروع ہو گئی ۔ خلیفہ اول کہتے تھے یہ بہتر ہے اور دوم کہتے تھے یہ بہتر ہے۔ حالانکہ رسول ؐ اللہ موجود تھے تو اس وقت بھی یہ آیت آئی کہ جب رسولؐ اللہ موجود ہیں تو آپ آپس میں کیوں لڑ رہے ہیں دیکھیں کہ نبیؐ کس کو بھیجتے ہیں۔
یا ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص امام معصوم ؑ کی خدمت میں پیش ہوا تو امامؑ نے اسے ایک دعا تعلیم فرمائی جو لا الہ الا اللہ سے شروع ہوتی ہے اور یوحی و یموت پہ ختم ہوتی ہے اس نے کہا کہ اگر اس طرح پڑھوں کہ ویموت و یوحی۔ مولاؑ نے کہا کہ تو بھی ٹھیک کہہ رہا ہے لیکن اس طرح پڑھ جس طرح میں کہہ رہا ہوں۔
لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَىِ اللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ
یا ہم دیکھتے ہیں نبیؐ کریم کے بعض اصحاب جو ہیں وہ اپنے کھانے پینے کے حقوق یا اپنی بیویوں کے حقوق کو زہد کے عنوان سے ترک کر دیتے تھے۔ تو یہاں نبیؐ کریم ناراض ہوئے اور فرمایا کہ میں تمھارا نبیؐ ہوں میں کھانا کھاتا ہوں اور اپنی بیویوں کے حقوق زوجیت ادا کرتا ہوں تو تم کیا کر رہے ہو ۔ یہ کس طرح کا زہد ہے تم مجھ سے بھی بڑے زاہد بن رہے ہو۔ پھر فرمایا:
” جو میری سنت پر نہیں چل رہا وہ دین محمد سے نہیں ہے ۔ ”
یا ہم دیکھتے ہیں نبیؐ کریم نےمتعہ کو جو عارضی شادی ہے اس کو حلال قرار دیا اور جب خلیفہ دوم کا زمانہ آیا تو انہوں نے حرام قرار دیا ۔ تو جس چیز کو پیغمرؐ حلال کر دے تو کوئی اس کو حرام کردے تو یہ ایسا ہی ہے کہ کوئی نبیؐ کے حکم پر خود کو مقدم کر دے۔
یا ہم دیکھتے ہیں کہ آٹھویں ہجری کو حضرت محمدؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فتح مکہ کے لیے جب مدینہ سے نکلے تو یہاں بعض مسلمان آپ کے ساتھ تھے ۔ انہوں نے روزہ رکھا اور اپنے روزے کو افطار نہیں کیا حالانکہ جانتے تھے کہ مسافر پر روزہ نہیں ہوتا۔ اور یہ بھی دیکھ رہے رسولؐ اللہ نے روزہ افطار کر لیا ہے۔ تو یہ بھی گویا نبیؐ کریم پر خود کو سبقت دینا ہے۔
آیت کے آداب و پیغامات:
۔ ہمیشہ جب کسی کو نصیحت کرنی ہو تو اس کو اچھے انداز سے کریں کہ جیسے اللہ نے ہمیں نصیحت فرمائی یا ایھا الذین آمنو۔ کہ تم مومن ہو اس انداز سے خدا نے گفتگو فرمائی۔
۔ خدا کے خطاب میں کتنا ادب ہے یا ایھا الذین آمنو اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو۔ یعنی آپس میں ایک دوسرے کو بلانے میں اجتماعی آداب کا خیال رکھنا چاہیے۔
۔ اللہ نے واضح کر دیا جو خدا کے حرام کو حلال کرے گا اور خدا کے حلال کو حرام کرے گا وہ گویا اللہ اور اس کے رسول ؐ پر سبقت کر رہا ہے۔
بس یہاں سے پتہ چل رہا ہے دین اسلام میں ہر بدعت اور اپنی طرف سے بنائی گئے قانون اور چیزیں منع ہیں اور یہ انحرافات ہیں اور ان کے بارے میں حکم ہے
لَا تُقَدِّمُوْا بَيْنَ يَدَىِ اللّـٰهِ وَرَسُوْلِـهٖ
اور اسلام کے اندر یہ درس مل رہا ہے کہ اجتماعی زندگی اور انفرادی زندگی کیسے گذارنی ہے اس کے قوانین اللہ سے پوچھنے چاہیے۔
- اور یہ بھی پتہ چل رہا ہے کہ خدا نے اپنے بعد رسولؐ اللہ کے حکم پر سبقت کو منع کیا ہے۔ کیونکہ رسولؐ کا حکم اللہ کا حکم ہے اور اس کی بے احترامی گویا خدا کی بے احترامی ہے۔
- اور آخر میں جو تقوٰی کے بارے میں ذکر ہوا کہ جو شخص سبقت کرے گا اور بدعت پیدا کرے گا وہ متقی نہیں۔ اور متقی شخص ہی اللہ اور اس کے رسولؐ کے تابع ہیں اور جو غیر متقی ہیں وہ گویا تابع نہیں ہیں۔
- اس میں سب سے بڑا درس یہی ہے کہ ہم اپنے اندر پروردگار کا خوف اور صحیح اسلامی زندگی کے جو درس ہیں ان کو اپنی زندگی میں اجاگر کریں جیسے خوف خدا ہمارے اندر اجاگر ہو۔ صرف چند باتیں سیکھنا کافی نہیں یہ حالت ایمان ہے۔ عمل کی دنیا میں بھی ہم انشاءاللہ آگے بڑھیں۔
پروردگار عالم ہمیں حقیقی معنوں میں مومن و مسلمان بننے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری زندگی زمانے کے ولی کے اتباع میں ہو۔ نہ کہ ان سے ہم اپنے اعمال میں سبقت کریں
والسلام۔
عالمی مرکز مہدویت قم