بارھواں سلسلہ درس ” رجعت ”
درس 3
رجعت پر قرانی و حدیثی دلائل اور رجعت کی خصوصیات
استاد مہدویت علامہ علی اصغر سیفی صاحب
رجعت پر قرانی و حدیثی دلائل اور رجعت کی خصوصیات
ہماری گفتگو رجعت کے موضوع پر جاری ہے اور ہم نے گذشتہ درس میں قرآن مجید سے چند آیات اور ہمارے علماء نے جو احادیث کی رو رجعت پر دلائل پیش کئے وہ آپ کی خدمت میں پیش کئے۔
رجعت کا موضوع قرآنی موضوع ہے۔
سورہ انبیاء کی آیت نمبر 95 میں پروردگار فرما رہا ہے۔
وَحَرَامٌ عَلٰى قَرْيَـةٍ اَهْلَكْنَاهَآ اَنَّـهُـمْ لَا يَرْجِعُوْنَ
اور جن بستیوں کو ہم فنا کر چکے ہیں ان کے لیے ناممکن ہے کہ وہ قیامت کے دن ہمارے پاس پلٹ کر نہ آئے۔
محمدؐ و آل محمدؑ کی احادیث اور روایات کی رو سے یہ آیت رجعت پر ایک بہترین دلیل ہے۔ کیونکہ جو لوگ ہلاک ہوچکے ہیں انہوں نے بلآخر روز محشر پلٹنا ہے۔ یہ جو اس آیت میں پروردگار فرما رہا ہے کہ ان پر پلٹنا حرام ہے تو یہ یقیناً روز محشر پر گفتگو نہیں ہورہی بلکہ رجعت ہے۔
عام طور پر اس قسم کی آیات کو دیگر اہل مکتب روز قیامت پر تطبیق کرتے ہیں۔ تو اگر ہم آیت کو غور سے پڑھیں تو قیامت والے دن سب نے تو سب نے آنا ہے کافر، منافق، دشمنان خدا، مومنین، موحدین سب نے آنا ہے اس دن تو خدا کسی کو بھی نہیں چھوڑے گا۔
یہاں اس آیت میں پلٹنا (حرام ہے)۔ یہ قیامت والے دن کے بارے میں نہیں ہے بلکہ کسی اور دن یعنی رجعت میں بھی کچھ لوگوں کا پلٹنا قرار ہے کہ جن کے بارے میں ارادہِ پروردگار ہوگا کہ یہ پلٹیں گے۔ لیکن ان میں سے ہلاک شدہ اقوام نہیں آئیں گے۔
روایت :
کتاب بحار الانوار
امام محمد باقرؑ اور امام جعفر صادقؑ نے اسی آیت کے ذیل میں فرمایا ہے۔
“ہر وہ بستی جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے عذاب سے ہلاک کیا ہے وہ رجعت میں نہیں پلٹیں گے۔”
یہ آیت رجعت کے دلائل میں ایک اہم ترین دلیل ہے کیونکہ کوئی بھی مسلمان اس بات کا منکر نہیں ہے کہ سب لوگ قیامت کےدن پلٹیں گے چاہے کوئی ہلاک ہوا ہے یا نہیں۔ اور پھر معصومؑ فرماتے ہیں کہ یہ جو اس آیت میں بیان ہوا ہے کہ نہیں پلٹیں گے یہ رجعت کے حوالے سے بیان ہوا ہے نہ کہ قیامت کے دن کے بارے میں ہے۔ کیونکہ قیامت کے دن تو سب پلٹیں گے اور سب اللہ کے عذاب سے ہلاک ہونے والے پلٹیں گے بلکہ جہنم میں داخل ہونگے۔
(توجہ فرمائیں
آپ کی خدمت میں ان آیات کے ذیل میں روایات بھی بیان ہوئیں ہیں)۔
اب یہ موضوع رجعت تشیع کے اندر اتنی کثرت سے بیان ہوا ہے کہ یہ ہماری روایات اور زیارات کا بھی حصہ بن گیا ہے۔
امام علی نقیؑ سے جو زیارت جامع کبیرا نقل ہوئی ہے اس میں معصومؑ کے جملے ہیں۔
مُعْتَرِفٌ بِکُمْ مُؤْمِنٌ بِإِیابِکُمْ
مُصَدِّقٌ بِرَجْعَتِکُمْ مُنْتَظِرٌ لأِمْرِکُمْ
اے حجت خدا میں آپؑ کی امامت کا اقرار کرتا ہوں۔ آپ کےبزرگان کا معتقد ہوں ۔ آپ کی رجعت کی تصدیق کرتا ہوں۔ آپ کے دور کا منتظر ہوں۔
خود امام مہدیؑ عج سے متعلق جو زیارات ہیں وہاں بھی یہ موضوع بیان ہوا۔ حتی دعائے عہد میں بھی بیان ہوا۔
یہاں سوال ہوتا ہے کہ رجعت کی خصوصیات کیا ہیں؟
اگر ہم ایک مختصر سا جائزہ لیں۔ تو ہم تقریباً چھ خصوصیات کی جانب اشارہ کریں گے۔
1۔ رجعت پروردگار کے عظیم دنوں میں سے ایک دن ہے۔
قرآن مجید میں سورہ ابراھیم اور سورہ جاثیہ میں لفظِ “ایام اللہ” آیا ہے یعنی اللہ کے دن۔ یعنی وہ ایام کہ جن میں خدا اپنی قدرت کا اظہار کرے گا۔ کچھ دن ہیں کہ جن میں خدائے واحد، خدائے قہار اپنی قدرت کا اظہار کرے گا۔ اور ناممکن کو ممکن کر کے دکھائے گا۔
امام صادقؑ فرماتے ہیں کہ ایام اللہ تین دن ہیں۔
۔۔
امام قائمؑ عج کا قیام ایام اللہ میں سے ایک دن ہے جو اس ہزاروں اور لاکھوں سالوں پر مشتمل اس دنیا میں کبھی بھی الہیٰ نظام قائم نہیں ہوسکا اور شیطانی ، ابلیسی اور باطل قوتوں کا راج رہا ہے۔ امام قائمؑ عج اس کو ممکن کریں گے اور پوری دنیا کو اک حکومت کی شکل میں لائیں گے اور پوری دنیا پر خدا کا نظام نافذ ہوگا۔
( انشاءاللہ )!♥️
فرماتے ہیں۔
۔۔
دوسرا دن رجعت کا دن ہے جس میں مردوں نے قدرتِ پروردگار سے زندہ ہونا ہے۔
۔۔
تیسرا دن قیامت کا دن ہے کہ جس میں سب نے زندہ ہونا ہے۔
یہ تین دن ایام اللہ ہیں۔
2۔
رجعت پر عقیدہ شیعان اہلبیتؑ کی نشانیوں میں سے ہے۔
امام صادقؑ کا فرمان ہے کہ:
” اگر کوئی شخص رجعت پر ایمان نہیں رکھتا تو وہ ہم میں سے نہیں”۔
3۔
تیسری خصوصیت یہ ہے کہ رجعت ہر کسی نے نہیں کرنی🫴 بلکہ وہ جو خالص مومن ہیں جو امامؑ عج کی نصرت کریں گے اور وہ جو خالص کفار اور خالص منافقین ہیں جنہوں نے ظلم کئے اور دنیا میں اپنے ظلموں کی سزا پانی ہے۔
4۔
جو رجعت کریں گے ان میں انبیاءؑ اور معصومینؑ بھی ہیں۔ اور سب سے پہلے جس امام ؑ نے رجعت کرنی ہے اور امام مہدیؑ عج کے بعد اس حکومت الہیٰ کو سنبھالنا ہے وہ امام حسینؑ ابن علیؑ ہیں کہ جنہوں نے ایک طویل عرصہ حکومت کرنی ہے۔
5۔
پانچویں خصوصیت یہ ہے کہ تمام اہل انتظار جو دل و جان امام مہدیؑ عج کے عاشق ہیں اور منتظر ہیں اور ظہور سے قبل دنیا سے چلے گئے سب کا احتمال ہے کہ وہ پلٹیں گے اور امامؑ کی نصرت حاصل کریں گے۔
امام صادقؑ کا فرمان ہے کہ
“کوئی بھی شخص اگر چالیس دن دعائے عہد کی تلاوت کرے تو وہ مولاؑ عج کے ان ناصرین میں سے ہوگا کہ اگر ظہور سے قبل مر چکے ہوئے تو اللہ انہیں ان کی قبور سے اٹھائے گا۔ اور مولاؑ عج کی نصرت کی انہیں توفیق دے گا۔
یہ تمام روایات بحار الانوار سے بیان ہوئی ہیں۔
6۔
رجعت اختیاری
چھٹی خصوصیت یہ ہے کہ مومنین تو اپنی خواہش سے اور آرزو و تمنا سے اور دعاؤں سے رجعت کریں گے مومنین کی رجعت اختیاری ہے۔
رجعت اجباری
کفار اور منافقین اجباری رجعت کریں گے۔ یعنی کفار اور منافقین جن کو سزا دینے کے لیے عدالت الہیٰ نافذ ہوگی ان کو زبردستی اجبار کے ساتھ پلٹایا جائے گا۔
امام صادقؑ کا فرمان ہے کہ:
“جب امام مہدیؑ عج قیام کریں گے تو خدا کے فرشتے عالم ارواح میں اس بندے سے رابطہ کریں گے کہ اے بندہ مومن تمھارے مولاؑ عج نے ظہور کیا اور اگر آپ اپنے مولاؑ کے لشکر میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو آپ آزاد ہیں۔ خدا آپ کو یہ توفیق دے رہا ہے لیکن اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ اسی برزخی نعمات میں غرق رہیں تو پھر بھی آپ کو اختیار ہے۔
اللہ اکبر!
پروردگار ہم سب کو توفیق دے کہ ہم بھی ان لوگوں میں سے قرار پائیں کہ جو رجعت کریں اور امام وقت عج کے ناصرین سے ملحق ہوں۔
الہی آمین۔
دعائے عہد:
اَللّٰھُمَّ إنْ حالَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ الْمَوْتُ الَّذِی جَعَلْتَہُ عَلَی عِبادِکَ حَتْماً مَقْضِیّاً فَأَخْرِجْنِی مِنْ قَبْرِی
اے معبود اگر میرے اور میرے امام(ع) کے درمیان موت حائل ہو جائے جو تو نے اپنے بندوں کے لیے آمادہ کر رکھی ہے تو پھر مجھے قبر سے اس طرح نکالنا
مُؤْتَزِراً کَفَنِی شاھِراً سَیْفِی مُجَرِّداً قَناتِی مُلَبِّیاً دَعْوَةَ الدَّاعِی فِی الْحاضِرِ وَالْبادِی
کہ کفن میرا لباس ہو میری تلوار بے نیام ہو میرا نیزہ بلند ہو داعی حق کی دعوت پر لبیک کہوں شہر اور گاؤں میں
والسلام
عالمی مرکز مہدویت قم