عقائد توحید قسط 1 – معرفت پروردگار عالم کی ضرورت
عقائد توحید قسط 1 – معرفت پروردگار عالم کی ضرورت
درس عقائد : توحید پہلا درس
معرفت پروردگار عالم کی ضرورت
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
🖋️ سعدیہ شہباز مھدوی
خلاصہ
اہل انتظار کی توحید
امام زمانہؑ عج کے ناصرین کی ایک اہم صفت جو احادیث محمدؐ و آل محمدؐ میں بیان ہوئ ہے وہ ان کا مواحد ہونا ہے۔ اللہ کی معرفت رکھنا۔ ان کے دلوں کا ہر قسم کے شک سے پاک ہونا ہے۔ بلکہ ان کے دلوں کا معرفت الہیٰ میں اتنا پاک ہونا وہ ایسے مرد ہوں گے کہ گویا ان کے دل لوہے کے ٹکڑے ہیں۔
کتاب الفتوح، ، کیفایت الطالب، اور اہل تسنن کی کتاب ینابیع المودۃ میں سے بیان ہے۔ کہ امیر المونینؑ امام زمانہؑ عج کے ناصرین کے بارے میں فرماتے ہیں۔
“عرف اللہ حق معرفتہ” کہ امام مہدیؑ کے جو ناصر ہیں یہ اللہ کی ایسے معرفت رکھتے ہیں جیسے معرفت رکھنے کا حق ہے۔ ”
ایک منتظر سب سے بڑا ناصر ہے ۔ حق معرفت پروردگار پر فائز ہے۔ اللہ کی معرفت ہمارا سب سے پہلا اور بنیادی فریضہ ہے ۔ ہماری شناخت یہ ہے کہ ہم اہل توحید ہیں ۔
توحید اور ولایت دونوں ضروری ہے۔
پروردگار عالم کی معرفت:
تین بنیادی معرفتیں انسان کو حاصل ہونی چاہیں ۔
اللہ کی معرفت
اللہ کے رسولؐ کی معرفت
حجت وقت کی معرفت
یہ تین معرفتیں دعائے معرفت میں بھی بیان ہوئ ہیں جو امام جعفر صادق ؑ سے نقل ہوئ ہے۔
1۔ معرفت پروردگار عالم:
قرآن مجید میں سورہ توحید میں ارشاد پروردگار عالم ہو رہا ہے۔
بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
قُلْ هُوَ اللّـٰهُ اَحَدٌ
کہہ دو وہ اللہ ایک ہے۔
اَللَّـهُ الصَّمَدُ
اللہ بے نیاز ہے۔
لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُوْلَد
نہ اس کی کوئی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے۔
وَلَمْ يَكُنْ لَّـهٝ كُفُوًا اَحَدٌ
اور اس کے برابر کا کوئی نہیں ہے۔
سورہ توحید پروردگار عالم کا مختصر سا تعارف نامہ ہے۔
مثال کے طور پر ہم سب کا ایک شناختی کارڈ ہے۔ یہ ہمارا مختصر سا اثاثی اور اہم تعارف نامہ تعارف نامہ ہے ۔ ہم دنیا کے کسی حصے میں بھی چلیں جائیں۔ ہمارا نام، ولدیت، شناختی، علامت اور کوڈ موجود ہے جو بتاتا ہے کہ ہم دنیا کے کس خطے سے تعلق رکھتے ہیں اور ہماری ضروری معلومات کیا ہیں۔ اسی طرح سورہ توحید ہے جو بتاتا ہے کہ:
کائنات کا خالق ہے وہ ایک ہے اس نے سب کو پیدا کیا لیکن اس کا کوئی پیدا کرنے والا نہیں نہ ہی اس کی کوئی اولاد ہے۔ وہ بے نیاز ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں وہ تنہا یکتا ہے۔
اس دنیا میں دو طرح کے انسان ہیں ۔ بہت سارے لوگ توحید پرست ہیں اللہ کو مانتے ہیں جیسےمسلمان، یہودی،زرتشتی وغیرہ حتکہ ہندو بھی مانتے ہیں کہ کوئی خالق ہے۔ سب مختلف ناموں سے مانتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں وہ اللہ ہے ۔ یہودی کہتے ہیں وہ یہوہ ہے۔ مسیحی کہتے ہیں باپ۔ ہندو رام کہتے ہیں۔ زرتشت یزدان کہتے ہیں۔
یہ ایک خدا ہے جس کے اتنے نام ہیں۔
البتہ بے پناہ صفات اس رحمان و رحیم کی ہیں۔
اب جہاں اتنے لوگ توحید پرست ہیں وہاں ایسے لوگ بھی ہیں جو اللہ کو مانتے ہی نہیں جو منکر ہیں۔ کمیونسٹ ہیں۔
ان کا ماننا تھا کہ یہ کائنات اسی طرح سے تھی اس کی اشکال بدلتی رہیں۔ پہلے انسان بندر تھا اور پھر اس نے ارتکائی مراحل طح کئے اور پھر انسان بن گیا۔ وہ آدمؑ و حواؑ کے قائل نہیں کہ جن کو خدا نے خلق کیا جن سے ہماری تخلیق ہوئی۔ اگر ان سے سوال کیا جائے کہ اب کوئی جانور انسان کیوں نہیں بن رہا تو ان میں ایک ایسا گروہ ہے جو کہتا ہے کہ یہ سب مادہ کی اشکال ہیں انسان مادہ تھا۔ کوئی خالق نہیں دنیا ازلی و ابدی ایسی ہی تھی۔
پہلی دلیل
عقل ۔
اس حوالے سے ہماری عقل کیا کہتی ہے۔ کہ خدا کی معرفت کیوں ضروری ہے۔ اگرچہ ہم مسلمان گھروں میں پیدا ہوئے بہت سے افراد ایسے ہیں جو بظاہر مسلمان ہیں نماز و قرآن پڑھتے ہیں لیکن ان کی تمام زندگی شرک ریاکاری و کفر میں گذری کیونکہ یہ صرف مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے اور انہوں نے اپنی عقل و فہم سے دین کو حاصل نہیں کیا۔
ان کے کردار و گفتار پر توحید کا اثر نہیں یہ اہل توحید نہیں۔
امام زمانہ ؑ عج کے ناصرین کے بدن میں توحید خون کے ہمراہ دؤڑ رہا ہے۔
امام زمانہ عج کے ناصر پہلے سچے مواحد بنیں گے اور پھر ناصر بنیں گے اور اس کو الہیٰ فریضہ سمجھیں گے۔
عدالت کا بپا کرنا دنیا میں عدل کو نافذ کرنا۔
تاریخ:
بہت سی ملتیں آئیں چلی گئیں شہر بنے ختم ہو گئے۔ کھنڈرات بن گئے۔ ان میں ہم ایسے لوگ بھی دیکھ رہے ہیں جو خود کو پیغمبر اور ھادی کہتے تھے۔
جو کہتے تھے کہ کائنات کا ایک خالق ہے وہ یکتا ہے وہ جسم نہیں رکھتا کہ تم اس کا کوئی بت بناؤ۔ وہ جسم و جسمانیت سے پاک ہے۔ وہ خالق ہے وہ رازق ہے وہ زندہ کرنے والا ہے وہی مارنے والا ہے۔ ہم اس کے صفیر ہیں اور اس کے دین کے یہ احکامات ہیں اس پر عمل کرو ورنہ مرنے کے بعد عذاب کا شکار ہو جاؤ گے۔
اور اگر چاہتے ہو کہ بعد از موت ایک آسائش اور پرسکون زندگی میسر ہو تو اس دین پر عمل کرو اس خالق کی اطاعت کرو اور اس پر عمل کرو۔
تاریخ گواہ ہے کہ یہ باتیں کرنے والے کوئی عام لوگ یا بچے نہیں تھے۔ اور نہ ہی ایسے تھے کہ جن کی عقل زائل ہو بلکہ بڑے فہیم، بابصیرت ، ایماندار، عاقل سچے اور دلائل کے ساتھ گفتگو کرنے والے ایک لاکھ چوبیس ہزار ایسے لوگ دنیا میں آئے تو اب ہماری عقل کیا ہمیں یہ احتمال نہیں دیتی کہ یہ ساری باتیں سچ ہوں۔
مثال کے طور پر اگر کوئی ہم سے کہے کہ یہ کھانا آپ کے لیے مضر ہے تو ہم پرہیز کریں گے لیکن اگر اتنے لوگ ہم سے کہیں گے تو ہم اسے کبھی بھی نہیں کھائیں گے۔
ہم موت کو تو دیکھ رہے ہیں لیکن موت کے بعد والی دنیا کو نہیں دیکھ رہے کہ اتنے پیغمبروں نے آکر بتایا کہ موت کے بعد بھی ایک دنیا ہے جہاں عذاب ہو گا۔
ہماری عقل یہ کہتی ہے اگر یہ باتیں سچی بھی نہ ہوں تو احتمال تو ہے اور نقصان و ضرر کے احتمال سے بچنا چاہیے۔ تو اب ان پیغمبروں کی باتوں کو سنیں سمجھیں اور غور تو کریں۔
اور ایک بہتر دین پر عمل کریں اور اس احتمالی عذاب سے بچ سکیں۔ اس کو علمی اصطلاح میں کہتے ہیں دفع ضرر محتمل یعنی خود کو احتمالی ضرر سے بچانا ۔ جیسے ہم دنیا میں خود کو احتمالی ضرر سے بچاتے ہیں۔
جیسے ہم دنیا کے خطرات سے بچنے کے لیے اپنی حفاظت کرتے ہیں ایسے ہی مرنے کے بعد پیش آنے والے خطرات سے خود کو بچانے کے لیے اس خالق کو پہچاننا ضروری کہ وہ خالق کون ہے کیوں بھیج رہا ہے اور اس کے احکامات کیا ہیں۔
دوسری دلیل :
نعمات :
اللہ کی کتنی نعمات ہیں یہ زبان قادر ہیں لاکھوں زبان بولنے پر ۔ ہوامیں گھرے ہیں۔ یہ آنکھ کی وست ۔ یہ چرند پرند پہاڑ اتنی نعمات ہیں کہ شمار ممکن نہیں
قرآن میں رب العزت فرما رہاہے۔ کہ تم ان کو شمار ہی نہیں کر سکتے۔
اگر بطور انسان ہم کسی دین پر نہ ہو تو اگر کسی نے ہمارے حق میں نیکی کی ہو گی تو کیا ہم اس کا شکریہ ادا نہیں کریں گے۔ اور جس رب نے لامحدود میرے حق میں نیکیاں کی تو اس کا شکریہ ادا کرنے سے پہلے اس کی معرفت ضروری ہے۔
ایک مواحد ہی سچا منتظر ہے ۔
اہل توحید کے بارے میں قرآن میں ارشاد ہو رہا ہے ۔
لا خوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ
اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔