آخری پوسٹیں
درس امامت 4_ فلسفہ وجوب عصمت اہل سنت کے نظریہ کی رد
جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ_گوھر شاہی سے آشنائی- درس10
جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ_درس 8_ موضوع درس: قادیانیت سے آشنائی
دروس لقاءاللہ_ اللہ کے خالص بندوں کے مقامات
کتابچہ 14_موضوع : جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ
کتابچہ 14 _ موضوع : جھوٹے انحرافی فرقوں اور فتنوں کا مقابلہ

امام مهدی عج فورم پر کچھ جوانوں کے سوالات – (چوتھی قسط)

امام مهدی عج فورم پر کچھ جوانوں کے سوالات(چوتھی قسط)​

تحریر: جناب قبلہ علی اصغر سیفی صاحب

12- کس طرح انسان زمانہ غیبت کی آفات اور بلاؤں سے محفوظ رہ سکتا ہے؟

جواب: انسان جتنا زیادہ خداوند متعال اور ائمہ اطہار علیہ السلام ، خصوصاً امام زمانہ علیہ السلام سے اپنا رابطہ محکم اور زیاد کریں گے ، زمانہ غیبت کی آفات اور بلاوں سے محفوظ رہیں گے ، منتظرین مہدی علیہ السلام کو چاہئے کہ خدا کے اوامر اور نواہی ، یعنی واجبات پر عمل اور محرمات کو چھوڑنے کی کوشش کریں ، امام زمانہ علیہ السلام کی یاد سے غافل نہ ہوں اہل بیت علیہم السلام متوسل رہیں ، اور حتی الامکان کوشش کریں کہ زندگی کا ہر لمحہ اچھے اور مفید پروگرام اور کاموں میں مشغول رہے ۔

13- یاران امام مہدی(عج) کی کیا خصوصیات اور اوصاف ہیں؟

جواب: روایات میں حضرت امام مہدی(عج) کے اصحاب کی متعدد اوصاف و خصوصیات بیان ہوئی ہیں ، چند نمونہ ملاحظہ فرمائیں ۔
۱۔ خدا کی حقیقی معرفت رکھتے ہیں:
حضرت کے اصحاب حقیقی معنوں میں خداوند متعال کی معرفت رکھتے ہیں ، چنانچہ امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: مہدی کے اصحاب ایسے لوگ ہیں جنہوں نے خدا کو اسی طرح پہچانا ہے جیسے پہچاننے کا حق رکھتا ہے (منتخب الاثر ، ص۸۳، حدیث ۲۲)
اگر انسان کوشش کرے تو ایسی معرفت زمانہ کے امام کے بارے میں بھی پیدا کی جا سکتی ہے ، البتہ ، خداوند متعال کی حقیقی معرفت ائمہ اطہار(ع) بالخصوص امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت کے بغیر ممکن نہیں ہے ، چنانچہ امام صادق علیہ السلام امام حسین علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا :
“خدا نے بندوں کو اس لئے پیدا اور خلق کیا ہے کہ اس ذات کو پہچانیں اور جب خدا ئی کو پہچانیں تو انسان کو چاہئے کہ اس کی عبادت و بندگی کرے اور کوئی شخص خدا کی عبادت اور بندگی کرے گا تو دوسری مخلوقات (اور انسانوں ) کی بندگی کرنے سے بے نیاز ہوجائے گا ، یہاں پر ایک شخص نے سوال کیا :میری ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، خدا کی معرفت کیا ہے ؟
تو آپ علیہ السلام نے فرمایا :”خدا کی معرفت سے مراد یہ ہے کہ انسان اپنے زمانے کے امام ,جن کی اطاعت کو خدانے واجب قرار دیا ہے ان کی معرفت حاصل کریں اور اسکی پیروی کریں (بحار الانوار ، ج۲۳، ص۸۳)
۲۔ امام کے پیرو اور مطیع ہونا ہے :
حقیقی منتظر اپنے زمانے کے امام کی اطاعت اور پیروی کرتے ہیں ، اطاعت اور پیروی حقیقت میں معرفت امام کا نتیجہ ہے ، اس لئے کہ امام کی اطاعت حقیقت میں خدا ہی کی اطاعت ہے چنانچہ پیغمبر اکرم ﷺ فرماتے ہیں۔
“وہ لوگ (امام مہدی کے اصحاب)ہمیشہ اپنے زمانہ کے امام کی پیروی کرنے کے لئے کوشاں رہتے ہیں”(بحار،۵۲، ص۳۰۹)
۳۔عبودیت و بندگی :
حضرت مہدی (عج) کے اصحاب کی ایک اور صفت یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کو صرف خدا کی عبادت و بندگی میں گزار دیتے ہیں ، چنانچہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا :”یاران مہدی وہ لوگ ہیں جو راتوں کو عبادت اور دنوں کو روزہ کی حالت میں بسر کرتے ہیں ، ایک اور حدیث میں امام صادق علیہ السلامفرماتے ہیں کہ :”یہ وہ لوگ ہیں جو فولادی دل رکھتے ہیں”یعنی خدا کی بندگی اور عبادت کی راہ میں وہ اس قدر محکم اور راسخ العقیدہ ہیں کہ دنیا کے آفات ، بلا اور حوادث کا ان کے دلوں پر کوئی اثر نہیں ہوتا ۔
۴۔ شہادت طلب ہیں:
حضرت امام مہدی علیہ السلام کے اصحاب ہمیشہ شہادت کے طلبگار ہیں چنانچہ امام صادق ع فرماتے ہیں کہ “وہ لوگ تمنا کرتے ہیں کہ راہ خدا میں انہیں شہادت نصیب ہوجائیں”(بحار ،۵۲،ص۳۰۹)
۵۔ ہمدلی اور اتحاد :
حضرت مہدی علیہ السلام کے اصحاب کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ وہ آپس میں ہمدلی اور متحد ہیں ، چنانچہ امام علی (ع) فرماتے ہیں کہ “مہدی کے اصحاب میں ہمدلی ، یگانت اور اتحاد پائی جاتی ہیں(یوم الخلاص ، ص۲۲۴)
۶۔ با بصیرت ہیں:
حضرت مہدی (عج) کے اصحاب بصیرت اور نورانیت کے مالک ہیں یہ وہ لوگ ہیں کہ ان کے دل نورانی اور حقیقی معنوں میں چشم بصیرت رکھتے ہیں یہ لوگ خود بھی ہدایت یافتہ ہیں اور دوسرے لوگوں کو بھی ہدایت کی راہ پر گامزن کرتے ہیں، چنانچہ امام صادق ع فرماتے ہیں :”یہ لوگ ایسا چراغ ہیں کہ ان کا دل فانوس کی طرح روشن اور منور ہیں”(بحار،۵۲، ص۳۰۸)

14- ظہور امام مہدی عج کے انتظار کا فلسفہ اور راز کیا ہے؟

جواب: انتظار کے فلسفہ اور علت کو پہچاننے کے طریقوں میں سے ایک انتظار کے فواید و آثار میں دقت کرنا ہے ، یعنی اگر انتظار کے آثار اور فواید میں دقت کریں گے تو انتظار کا فلسفہ خود بخود سمجھ میں آئے گا.
لہٰذا ہم یہاں پر انتظار کے کچھ فوائد بیان کرتے ہیں ، ملاحظہ فرمائیں :
۱۔ امیدواری:
انتظار کے آثار اور فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ انتظار انسان میں امید ایجاد کرتا ہے اور جو شخص ایک روشن مستقبل کی امید اس میں موجود ہو ، مشکلات اور مصائب میں کبھی بھی نا امید نہیں ہوتا ، اور اس مقصد (جس کے تحقق کا اسے وعدہ دیا گیا ہے) تک پہونچنے کے لئے پوری توانائی کے ساتھ کوشاں رہتا ہے ۲۔ صبر و استقامت:
وہ شخص حقیقی معنوں میں منتظرین میں سے ہے ، جو صبر و استقامت کا مالک ہو اور اگر اپنے اہداف کی تحقق کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا ہوجائے تو صبر و تحمل سے کام لیتا ہے اور اپنے زمانے کے امام کی یاد اور ذکر کے ساتھ زندگی گزارتے ہوئے اپنی منزل مقصود تک پہونچنے کی کوشش کرتا ہے۔
۳- امام کے ظہور کے لئے تیار رہتے ہیں:
حضرت امام مہدی (عج) کے اصحاب اپنے امام کے ظہور کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں ، اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ حضرت کے منتظرین کی فہرست میں ہمارا بھی نام ہو ، تو ہمیں چاہئے کہ اپنے آپ کو حضرت کے ظہور کے لئے تیار کریں ،سستی ، غفلت اور گناہوں سے پرہیز کریں اور ایک عادل معاشرے کی تشکیل کی طرف قدم اٹھائیں ، اپنے گھر مجلہ ، ملک اور شہروالوں کو امام کے ظہور کے لئے تیار کریں ، اور معاشرہ میں عدل و انصاف کے قیام کے لئے کوشش کریں ۔

15- امام زمانہ (عج) کی حکومت میں ، علم کے میدان میں کس قسم کی پیشرفت اور ترقی ہوگی ، اور اس زمانے میں علم میں ترقی ہونے کا کیا فائدہ ؟

جواب: امام صادق ع فرماتے ہیں کہ “تمام علم اولین و آخرین ستائیس(۲۷) حروف پر مشتمل ہے ، ان ستائیس(۲۷) حروف میں دو حرف انبیاء اور پیامبران خدا کو عطا کیا گیا ہے اور ابھی جو علم لوگوں اور انسان کے پاس موجود ہے ، انہی دو حروف پر مشتمل ہے ، اور دنیا والے ان دو حروف سے زیادہ تر علم نہیں رکھتے .
لیکن جب ہمارے قائم (مہدی) قیام کریں گے اس علم کے بقیہ ۲۵ حروف کو بھی خزانۂ علم سے خارج کرکے لوگوں کے درمیان منتشر کریں گے اور وہ دو حروف پر مشتمل علم جو اس وقت انسانوں کے پاس ہے, ان ۲۵ کے ساتھ کو اکھٹا کرکے پورے ۲۷ حروف پر مشتمل علم کو نشر کریں گے “(بصائر الدرجات،ص۱۱۷)
مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کے ظہور اور حکومت میں علم کے میدان میں غیر قابل تصور ترقی ہوگی ۔
اور جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اس زمانے میں اس علم کا کیا فائدہ ؟
یہ ایک فطری اور مسلم بات ہے کہ انسان کو جو دنیوی اور اخروی ترقی حاصل ہوتی ہے وہ علم ہی کے مرہون منت ہے اور جن نیکیوں کا وعدہ منتظرین مہدی عج کے لئے روایات میں دیا گیا ہے وہی علم و معرفت ہے ، اور جب تک انسان علم و آگاہی کے میدان میں ترقی نہیں کرے گا, دنیوی امور ، معنویت, عدل و انصاف اور معاشرے میں امنیت کا قیام ممکن نہیں ہے . مختصر یہ کہ انسانیت کی فلاح ، مادی اور معنوی ترقی علم کے بغیر ممکن نہیں ہے ، اور مذکورہ روایت میں اسی بات کی اہمیت کو بیان کردیا گیا ہے .
البتہ بعض دانشوروں نے اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ اس علم سے مراد علوم تجربی یعنی سائنس و ٹیکنالوجی ، صنعت، و …میں ترقی مراد ہے ، اور دوسرے گروہ کا عقیدہ ہے کہ اس حدیث میں علم سے مراد خدا کی معرفت اور عبودیت و بندگی ہے یعنی زمانہ ظہور میں درحقیقت انسان کی سمجھ میں آئے گا کہ بندگی کا راستہ کیا ہے اور کس طرح خداوند متعال کی عبادت و بندگی کی جائے ۔
بہر حال چہ مراد علوم تجربی اور سائنس و ٹیکنالوجی ہو اور چہ علم معرفت خداوند, علم کے فوائد مسلم ، ناقابل انکار اور کسی پر پوشیدہ نہیں ہے .
لہذا علم کے فوائد کے بارے میں مزید فصاحت کی ضرورت نہیں ہے بقول اھل فارس:چیزی کے عیان است چہ حاجت بہ بیان است۔

(جاری ہے…) 

دیدگاهتان را بنویسید