امام زمان عج کی غیبت کےاسباب
تیسرا درس : غیبت امام زمانہ عج کی تاریخ، شیخ صدوق رح کا واقعہ
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
سعدیہ شہباز
خلاصہ :
غیبت کی تاریخ
تاریخ کے اعتبار سے ہم دیکھتے ہیں کہ آیا اس سے پہلے بھی یہ غیبت کسی اور حجت خدا کو پیش آئی ہے یا نہیں۔
امام ؑ عج الشریف 260 ھج کو پردہ غیبت میں تشریف لے گئے۔
تب سے لے کر اب تک یعنی بارہ سو سال سے ہم بظاہر ایک ھادی رکھتے ہیں ۔ لیکن ان کے براہ راست فیض سے ہم محروم ہیں ۔
بہت سے لوگ اس کو شک و تردید کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس کے بارے میں سوالات اٹھاتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک ھادی پردہ غیب میں ہو۔ اور ایسے ھادی کے ہونے کا فلسفہ اور فائدہ کیا ہے۔
کائنات پراسرار ہے اسمیں ایک خاص نظم ہے اور سلسلہ ہدایت بڑی پیچیدگی سے جاری ہے۔
اور ایسا واقعہ درپیش آجاتا ہے جس کے اپنے اسباب ہیں جیسے غیبت امام زمانہؑ تو لوگ شک کرتے ہیں ۔ لیکن اگر ان کو بتایا جائے کہ غیبت پہلے بھی ہوئی انبیاؑ غائب ہوتے رہے ۔
_کچھ انبیاؑ کچھ دنوں کے لیے غائب ہوئے۔ کچھ مہینوں کے لیے کچھ سالوں کے لیے اور کچھ انبیا ؑ ایسے ہیں جو ابھی تک غائب ہیں۔_
مرحوم شیخ صدوق (رح)
جو کہ عالم تشیع کے بزرگان اور عظیم علماء میں سے تھے۔ انہوں نے مہدویت پر کام کیا اور غیبت صغری کے زمانہ کو پایا اور غیبت کبرٰع کے اوائل تک زندہ تھے اپنی بہترین کتاب (کمال الدین و تمام النعمتہ) جس میں شیخ صدوق رح نے انبیا کی غیبت کو بیان کیا اور اس پر محمدؐ و آل محمدؐ کی روایات کو نقل کیا۔
اس کتاب کو لکھنے کے پس منظر کو بیان کرتے ہوئے شیخ صدوق رح اس کے مقدمہ میں لکھتے ہیں۔
کہ میرا اس کتاب کو لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ جب میری امام رضاؑ کی زیارت کی آرزو پوری ہوئی تو زیارت کے بعد میں نیشاپور لوٹا اور وہاں اقامت کی تو دیکھا بہت سے شیعہ کہ جومیرے پاس آمد و رفت رکھتے تھے ، غیبت کے مسئلہ میں حیران و پریشان تھے اور امام قائم ؑ کے حوالے سے شک و تردید میں تھے اور راہ مستقیم سے منحرف ہو کر گمان و قیاس میں پڑے ہوئے تھے، تو میں نے پیغمبر اکرمؐ اور آئمہ ؑ کی احادیث کی مدد سے ان کی راہنمائی کی کوشش شروع کی تاکہ انہیں حقیقیت و سچائی کا راستہ دکھلاوں۔۔
کہ ایک دن قم کے علماء میں سے ایک اھل فضل و علم شخصیت ہمارے پاس آئی
انہوں نے بخارا کے ایک بزرگ فلسفی و منطقی شخص کی کلام میرے لیے نقل کی کہ اس کلام نے انہیں امام زمانہؑ کے حوالے سے حیران کیا ہوا تھا۔ امام کی طولانی غیبت اور ان سے احادیث و اخبار کا سلسلہ منقطع ہونے سے وہ شک و تردید میں پڑا ہوا تھا۔
تو میں نے امامؑ کے وجود کے اثبات میں چند ابحاث بیان کیں اور پیغمبرؐ اکرم اور آئمہؑ اطہار سے کچھ روایات ان کی غیبت کے حوالے سے بیان کیں تو ان کو سن کر وہ مطمئن ہوگئے۔
مجھ سے کچھ احادیث اس مورد میں قبول کیں اور یہ درخواست کی کہ اس موضوع میں عوام کے لیے ایک کتاب تالیف کروں۔
اسی دوران ایک رات شہر ری اور وہاں اپنے خاندان اور الہی عطا کردہ نعمتوں کے بارےمیں سوچ رہا تھا کہ ایک دم نیند کا مجھ پر غلبہ ہوا اور میں نے خواب دیکھا گویا میں مکہ میں ہوں اور بیت اللہ الحرام کا طواف کر رہا ہوں ۔ ساتویں طواف میں حجر الاسود کے پاس پہنچا اور اسے بوسہ دیا یہ دعا پڑھی۔
” امانتی ادیتما و میثاقی تعاھدتہ لتشھد لی بلموافاۃ”
یہ میری امانت ہے کہ اسے ادا کرا رہا ہوں اور یہ میرا وعدہ ہے کہ اسے پورا کر رہا ہوں کہ تم اس کے ادا کرنے پر گواہی دینا۔
اسی وقت میں نے اپنے مولا صاحب الزمان صلوات اللہ علیہ کو دیکھا کہ آپ خانہ کعبہ کے دروازہ پر کھڑے تھے ، میں اضطراب اور پریشان انداز میں ان کی جانب بڑھا انہوں نے میرا چہرہ دیکھا اور میرے دل کا حال پڑھا، میں نے انہیں سلام کیا اور انہوں نے مجھے جواب دیا۔ پھر فرمایا:
_” غیبت کے موضوع میں ایک کتاب کیوں تحریر نہیں کرتے تاکہ تمھارا حزن و غم دور ہو؟_
عرض کی : یاابن رسول اللہ غیبت کے بارے میں کچھ چیزیں تحریر کیں ہیں
_فرمایا: اس طرح نہیں، میں تمھیں حکم دیتا ہوں غیبت کے بارے میں ایک کتاب تحریر کرو اور اس میں انبیاؑ کی غیبت کو بیان کرو_
پھر آنحضرت ؑ چلے گئے۔ اور میں خواب سے بیدار ہو گیا۔
اور میں نے طلوع فجر تک دعا ، گریہ و زاری اور درد دل و شکوہ بیان کرنے میں وقت گزارا کہ مجھے یہ توفیق حاصل ہوئی اور مولاؑ نے میری رہنمائی کی۔
اس کے بعد شیخ صدوق رح نے حکم امام ؑ کے پیش نظر احادیث کی کتابوں کی چھان بین کر کے وہ تمام روایات اور احادیث جمع کی جن میں گذشتہ تمام انبیا ؑ کی غیبت بیان ہوئی۔ اور پھر ترتیب سے حضرت آدم ؑ سے لے کر بعد جتنے انبیاؑ چاہے کتنی ہی مدت کے لیے غیبت میں گئے ان کو بالترتیب بیان کیا۔ اور یہ شیخ صدوق کی عظیم ترین خدمت ہے۔ پروردگار عالم ان کے دراجات کو بلند فرمائے
آمین۔
والسلام۔