تازہ ترین پوسٹس

امام زمان (عج) کی غیبت کےاسباب قسط 10

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

امام زمان عج کی غیبت کےاسباب درس 10

نائب خاص کا فلسفہ ، غیبت صغریٰ اور کبریٰ میں بنیادی فرق،تاریخی اعتبار سے غیبت کی وجوہات
استادِ محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب

✍️ نازش بنگش

ہماری گفتگو کا موضوع مولا امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی غیبت ہے ۔۔۔۔ عرض کیا تھا کہ زمانہ غیبت کے لیے مومنین اور شیعوں کو تیار کرنے کے لیے آئمہ معصومین علیہم السلام نے کچھ اقدامات کیے ۔

آئمہ معصومین ؑ کے اقدامات
ایک تو احادیث اور روایات میں موضوعِ غیبت کو بیان کیا۔ پھر *امام تقی ؑ* کے زمانے سے لے کر بعد تک آئمہ ؑ کا رابطہ لوگوں سے براہ راست کم ہوگیا۔ اسی طرح جو ایک انجمن وکلاء تھی اس کے ذریعے اماموں کا لوگوں سے رابطہ کا ہونا اور لوگوں کا اپنے مسائل میں وکیلِ آل محمد جو اس زمانے میں ان کے شہر میں ہوتا تھا اس سے رجوع کرنا۔۔

نائبین خاص کا بنانا
آخری جو قدم تھا وہ یہ تھا کہ *امام عسکری ؑ* اپنی شہادت سے پہلے اپنے فرزند *امام مہدی عج ؑ* جنہوں نے غائب ہونا تھا ان کے لیے نائبین خاص کا اعلان کر گئے ۔دو نائب جو ہیں وہ امام عسکری ؑ اپنی زندگی میں ہی بنا گئے پہلے دونوں نائب جناب عثمان ابن سعید اور ان کے بیٹے محمد بن عثمان یہ دو نائب امام عسکری ؑ نے ہی بنائے یہ انہی کی حکمت عملی تھی ۔

غیبت صغریٰ میں نائبین خاص کی زمہ داری
یہ جو نائبین خاص ہیں ان کی ذمہ داری یہ تھی کہ امام عسکری ؑ کی شہادت کے بعد لوگوں اور امام زمان ؑ کے درمیان واسطہ ہوں۔ اور یہ غیبت صغریٰ کا زمانہ تھا۔ غیبت صغریٰ کے زمانے کی یہی چند خوبیاں ہیں ایک تو یہ تھی کہ مولا ؑ کی طرف سے نائب خاص مقرر ہوتے تھے۔ نائبِ خاص کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص معین ہوتا تھا کہ فلاں ابن فلاں جو ہے میرا نائب ہے اور یہ نائب خاص جو ہے یہ لوگوں کے سوالات کو امام ؑ تک پہنچاتے تھے اور امام ؑ سے جواب لیتے تھے۔ جنہیں توقیعات کہتے تھے اور لوگوں سے جو مال وغیرہ وصول ہوتا تھا وہ امام کے حکم پر جہاں خرچ کرنا ہونا تھا وہاں خرچ کرتے تھے۔
اسی طرح اگر کچھ لوگ ملاقات کے خواہشمند ہوتے تھے تو امام زمانہ ؑ سے ملاقات بھی کروا دیتے تھے۔ تو امام زمانہ ع سے خط و کتابت، امام ؑ سے ملاقات یہ ساری غیبت صغریٰ کے اندر انجام پاتی تھی اور غیبت صغریٰ میں لوگوں کا رابطہ سو فیصد لوگوں سے نہیں کٹا تھا۔ ابھی بھی رابطہ برقرار تھا تاکہ لوگ غیبت کبریٰ کے لیے تیار ہوں۔

غیبت کبریٰ اور صغریٰ میں فرق
غیبت کبریٰ میں نائب خاص نہیں تھے وہاں نائب عام تھے وہاں امام ؑ کسی کو نام لے کر معین نہیں کرتے تھے ایک ضابطہ اور کلیہ بیان کردیا کہ جو بھی فقیہ ہو اور اس کے اندر یہ یہ شرائط ہوں مثلاً عادل ہو، دین کا محافظ ہو اپنے نفس کی مخالفت کرنے والا ہو، اپنے امام کا مطیع ہو مثلاً یہ شخص جو ہے آپ اس کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔دینی مسائل ان سے پوچھ سکتے ہیں یہ ہماری طرف سے آپ پر حجت ہے ۔ تو غیبت کبریٰ میں نائبین عام ہوتے ہیں اور غیبت صغریٰ میں نائبین خاص۔ اور غیبت کبریٰ میں خط و کتابت کا سلسلہ بھی بند ہوگیا۔ اس کی جگہ عریضہ نویسی شروع ہوگئی ۔یہ عریضہ نویسی جو ہے یہ وہی خط و کتابت تھی جو غیبت صغریٰ میں تھی اب اس شکل میں رہ گئی ۔ لیکن اب یہ ہے کہ فقط نیمہ شعبان کو ہو، سال میں ایک بار ہو یہ کوئی ضروری نہیں ہے آپ ہر روز بھی عریضہ لکھ سکتے ہیں۔ اور لازمی نہیں کہ لکھیں آپ بول بھی سکتے ہیں ۔ یہ ھوا جو ہمارے پیغامات ہم جیسے لوگوں کی جو ناقص ٹیکنالوجی رکھتے ہیں۔پیغامات اِدھر اُدھر منتقل کررہی ہے تو امام زمان ؑ جو اللہ کی طرف سے وسیع علم کے حامل ہیں اور ان کا ہوا پر بہت زیادہ کنٹرول ہے۔ تو ہمارے پیغام ان تک کیوں نہیں پہنچ سکتے۔ تو آج جو ہے وہ خط و کتابت نہیں ہے آج دردِ دل ہے عریضہ نویسی ہے اور ملاقات کا جہاں تک مسئلہ ہے پہلے غیبت صغریٰ میں لوگ خود جاتے تھے نائبینِ خاص کے ذریعے امام ؑ تک ۔
اب کوئی ایسا شخص نہیں ہے کہ جو ہمیں امام سے ملا دے۔اگر کوئی ایسا دعویٰ بھی کرتا ہے تو وہ کذاب ہے وہ جھوٹا ہے۔ اب امام ؑ جب خود چاہتے ہیں تو کسی سے ملاقات کرلیں ۔۔۔ غیبت صغریٰ اور کبریٰ میں یہ فرق ہے ۔

غیبت کبریٰ کے لیے تیار کرنا
تو آئمہ ؑ نے غیبت صغریٰ میں نائبین خاص کو قرار دیا ہمارے اور امام کے درمیان تاکہ ایک دم مکمل غیبت سے لوگ گھبرا نہ جائیں۔گمراہ نہ ہوں تو غیبت صغریٰ کے ذریعے جہاں امام سے رابطہ کچھ نہ کچھ بحال تھا لوگوں کو تیار کیا گیا غیبت کبریٰ کے لیے تاکہ فقہاء کا زمانہ اور مکمل غیبت کے زمانے کے لیے تیار ہوں ۔ تو الحمد للّٰہ اس حوالے سے غیبت صغریٰ میں جو نائبینِ خاص تھے انہوں نے بہترین کردار ادا کیا پہلے تو امام عسکری ؑ کی طرف سے معین تھے۔جناب عثمان ابن سعید اور محمد ابن عثمان اور کافی لمبا عرصہ انہوں نے غیبت صغریٰ کا گزارا اور آخری دو جو نائبین خاص ہیں وہ امام زمانہ ؑ نے
براہ راست خود انتخاب کیے تیسرے جو ہیں وہ حسین بن روح نوبختی اور چوتھے علی بن محمد سمری۔۔۔
اور علی بن محمد سمری کے آخری دور میں یعنی ان کی زندگی کے آخری ایام میں امام زمانہ علیہ السلام کا خط ملا انہیں اور اس میں مولا ؑ نے مکمل غیبت کا اعلان کیا اور علاماتِ ظہور تک اگر کوئی درمیان میں کوئی شخص سفیر خاص یا نائب خاص ہونے کا دعویٰ کرے گا وہ بھی کذاب ہے۔ اور لوگوں کو کہا کہ وہ علامات ظہور کے منتظر رہیں۔

تو یہ وہ اقدامات تھے کہ جن کے ذریعے مرحلہ بہ مرحلہ لوگ غیبت کبریٰ کے لیے تیار ہوئے ۔

غیبت کبریٰ کی ضرورت کیوں پیش آئی
اب یہاں ممکن ہے بعض لوگوں کے ذہنوں میں ایک سوال ہو کہ آخر یہ غیبت پیش کیوں آئی۔خدا اگر چاہتا تو امام ؑ کو ظاہر بھی لوگوں میں رکھ سکتا تھا۔ غائب کرنے کی یا غائب رکھنے کی کیا ضرورت تھی۔ کیوں امام غائب ہوں اس غیبت کی علت کیا ہے ؟
جہاں تک علت یا اصلی دلیل کی بات ہے وہ شاید مشکل ہو اسے سمجھنا جیسا کہ بعض روایات بھی اشارہ کرتی ہیں کہ امام ؑ جب ظہور کریں گے تو وہ سمجھ آئے گی اور امام بتائیں گے۔ لیکن ہم اس کا جواب دو تین نکات کی رو سے دے سکتے ہیں ۔۔۔۔
مثلاً سب سے پہلے ہم تاریخی نگاہ سے دیکھیں گے پھر ہم آتے ہیں احادیث کی نگاہ سے دیکھنے۔

تاریخی نگاہ سے
اگر تاریخی نگاہ سے دیکھیں تو صدرِ اسلام سے لے کر اب تک تاریخ یہ کہہ رہی ہے کہ حق و باطل کی جنگ جاری ہے۔خود پیغمبر اسلام نے الہی حکومت کو برپا کرنے کے لیے بہت مظالم سہے گئے ہجرت کی اپنے شہر کو چھوڑا اور پھر کئی جنگیں ہوئیں۔ آخر میں عرب پر انہوں نے فتح پائی اور حکومت الٰہی قائم کی۔لیکن پھر بھی آپ دیکھیں کہ منافقین کی سازشیں اور نبی اسلام ﷺ کی رحلت کے بعد منافقین کی سازشوں کا نتیجہ نکلا کہ آئمہ ع اور اوصیائے حقیقی نبی ص کے بعد کی حکومت نہیں کرسکے اور حکومت دوسروں کے پاس چلی گئی ۔ اور اب تک حالات یہی ہیں کہ ہمیشہ شیاطین، ظالم اور ناحق لوگ جو ہیں وہ آئمہ حق ع کے مد مقابل کھڑے ہیں اور اپنی حکومتیں قائم کیے ہوئے ہیں اور لوگوں کو طمع ، لالچ اور مختلف ذرائع سے مجبور کیا ہوا ہے اور اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے اور وہ ہادیانِ حق کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں۔اس لیے کوشش کرتے ہیں کہ انہیں قتل کیا جائے،زہر دیا جائے اور اقتصادی معاشی طور پر جو ہے ان کو حقیر کیا جائے۔ تاکہ یہ کسی بھی طریقے سے قوت نہ پکڑ سکے۔ اب آپ دیکھیں کہ فدک کی جاگیر کا لینا اور اس کے بعد آئمہ معصومین ؑ کا پےدرپے قتل ہونا شہید ہونا یہ اسی بات کی دلیل تھی کہ جو حاکمِ وقت تھے وہ کسی صورت میں ان کا زندہ رہنا ان کا وجود برداشت نہیں کررہے تھے۔چونکہ وہ اپنی خواہشات جو بھی ان کے شیطانی اقدامات تھے ان کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے ۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ امام رضا ؑ کے بعد بنی عباس کے ظالم حکومتوں میں یہ وحشت اور اضطراب اتنا بڑھ گیا تھا کہ انہوں نے آئمہ ع کو آزادانہ طریقے سے لوگوں کی ہدایت ان کی تعلیم اور تدریس کی بھی اجازت نہیں تھی نظر بند رکھا جارہا تھا۔
اور امام نقی ؑ کے زمانے میں تو یہ بےشرمی اور یہ سختی اتنی بڑھ گئی تھی کہ ان کے فرزند امام عسکری ؑ کو شادی سے بھی منع کیا گیا ۔چونکہ وہ جانتے تھے کہ اسی سلسلے سے ہی کوئی آئے گا تو ان کو آنے سے پہلے ہی قتل کیا جائے یا روکا جائے۔۔۔۔ اور پےدرپے ہمارے آئمہ ع کو چھوٹی عمر میں جیسے آپ امام جواد ؑ کے بارے میں جانتے ہیں امام عسکری ؑ کے بارے میں جانتے ہیں تو ایسی عمر میں ان کی شہادت دلیل ہے کہ کسی صورت میں یہ ظالمین برداشت نہیں کررہے تھے ۔تو اب ضروری تھا کہ چونکہ انصار تو ہیں نہیں اہل تشیع یا مومنین کے اندر وہ ابھی اس حالت تک نہیں پہنچے تھے کہ کوئی نظم پیدا کریں، قوت پیدا کریں اکٹھے ہوں اور مسائل کو اجتماعی نگاہ سے اس طرح دیکھیں کہ اپنے امام ؑ کے محافظ بنیں یا ان کی حکومت کے لیے راہ ہموار کریں اب یہاں تک مومنین نہیں پہنچ پا رہے تھے یا ظالم انہیں نہیں پہنچنے دیتے تھے۔
تو تاریخی اعتبار سے ضروری تھا کہ امام جو ہیں غائب ہوجائیں اس سے پہلے کچھ انبیا بھی غائب ہوتے رہے اور پھر جب اللہ نے چاہا وہ ظاہر ہوتے رہے۔
تو اس اعتبار سے ہم دیکھتے ہیں کہ غیبت ضروری تھی تاریخی اعتبار سے ورنہ وہی کچھ ہونا تھا جو گزشتہ آئمہ ع کے ساتھ ہوا۔
امام مہدی ؑ ظاہر بہ ظاہر بھی ہوتے تو جس طرح ان کے والد دادا باقی آئمہ ع شہید ہوئے وہ بھی شہید ہوجاتے۔تو اللہ نے ان کی جان بچانی تھی تو ان کے ذریعے وہ حکومت الٰہیہ قائم کرنی تھی اس لیے ان کو اللہ نے مصلحتاً غائب کردیا لوگوں کی نگاہوں سے۔ بالآخر وہ امت تیار ہو کہ جس کی وجہ سے جو ایسے کام کریں گے اقدامات کریں گے کہ مولا ؑ ظہور کریں ۔ تو یہ ایک تاریخی نگاہ ہے اب ہم دیکھیں گے احادیث کی رو سے کیا مصلحتیں،حکمتیں بیان ہوئی اس کو ان شاءاللہ بعد والے درس میں بیان کریں گے۔

پرودگار کی بارگاہ میں دعا ہے اللہ ہمیں اس امت میں سے قرار دے جو امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کاباعث بنے اور ہم اس ہستی کی زیارت کریں اور فیضیاب ہوں ان شاءاللہ ان کی نصرت اور خدمت سے ۔۔۔۔ آمین

دیدگاهتان را بنویسید

نشانی ایمیل شما منتشر نخواهد شد. بخش‌های موردنیاز علامت‌گذاری شده‌اند *