بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
امام زمان عج اور قرآن سے انس پیدا کریں
استادِ محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب کا موضوع گفتگو امام ع اور قرآن سے انس پیدا کریں۔۔۔۔
قرآن مجید سے انس پیدا کریں عزیزان ۔۔۔یہ ہمارا امام ہے اور قرآن جڑا ہوا ہے مہدی ع سے۔ہر دور کے امام سے قرآن جڑا ہوا ہے، آپس میں متصل ہیں ایک دوسرے سے کبھی بھی جدا نہیں ہوسکتے یہ نہ کہیں کہ میں مولا ع کو کہاں ڈھونڈوں تیرے گھر میں مولا تک جانے کی راہ موجود ہے قرآن ۔۔۔۔تو اس سے تمسک پیدا کر وہ خود بخود تجھے مہدی کے دل سے جوڑ دے گا۔ پہلے اس سے تو تمسک پیدا کر۔ قرآن کو کھول دیکھ اسی میں کہاں کہاں ذکر ہے تیرے مولا ع کا۔۔۔
- سورہ بقرہ کی آیت
سورہ بقرہ کے اندر چار آیات ہیں جو مولا ع کے بارے میں ہیں ۔۔۔ سورہ بقرہ کی جو تیسری آیت ہے متقین کی جو صفات اللّٰہ نے بیان کیں اس میں ہے کہ ۔۔۔
الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَ يُـقِيْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ
قائم آل محمد ع کے بارے میں یہ آیت اتری ہے میں نہیں کہہ رہا صادق آل محمد ع کا فرمان ہے ۔۔۔ فرماتے ہیں کہ یہاں غیب سے مراد ہمارا بارہواں ہے۔ کہ جو پردہ غیبت میں ہوگا اس پر ایمان اور اس کی معرفت جو ہے متقی کی صفات میں سے ایک صفت ہے۔ اور غیب سے کبھی بھی یہ مراد نہیں لیں کہ مولا ع بالکل غائب ہیں وہ موجود ہی نہیں ۔۔۔۔ نہیں وہ موجود ہے وہ ہمارے درمیان میں ہیں وہ ہمارے تمام حالات سے واقف ہے۔ ہمارے تمام امور کو مولاع جانتے ہیں ۔ یہ تو آج ہم ٹیکنالوجی کے زریعے تھوڑا سا ہم نے ہوا کو فضا کو مسخر کرلیا ہے یہ ہستیاں تو پہلے ہی اس کو مسخر کیے ہوئے ہیں ۔ میں بسا اوقات اپنے عزیزوں کو کہتا ہوں کہ تمہیں اپنے امام ع سے بات کرنے کے لیے عریضہ لکھنے کے لیے کیوں ایک دن مقرر کیا ہے۔ کتنی عجیب بات ہے وقت کا حاضر امام اور میں نے ان سے گفتگو کرنے کے لیے نیمہ شعبان رکھی ہے۔ عریضہ لکھیں ہر روز لکھیں جس سے ہر روز گفتگو ہوسکتی ہے کیوں ایک دن اس کے لیے رکھا ۔۔۔محدویت کیوں پیدا کی۔ آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ جو عریضہ میں لکھتا ہوں اور پھر اس کو پانی میں ڈالتا ہوں امام ع بعد میں آکر پڑھیں گے۔۔۔۔ بھئی میں تو اس وقت ایک ایسے دور میں سانس لے رہا ہوں کہ میں اس وقت اپنے موبائل پر جب میسج دیکھتا ہوں ہزاروں میل دور بیٹھا میرا عزیز جب میں لکھ رہا تھا وہ اسی وقت پڑھ رہا تھا ۔۔۔ جب میں اپنے ناقص علم پر ہوا کو اتنا مسخر کرچکا ہوں تو جو ہے ہی اللّٰہ کے سارے علوم کا وارث ۔۔۔۔ تو جب عریضہ لکھ رہا ہوتا ہے وہ اسی وقت پڑھ لیتے ہیں ۔ چاہے اسے دریا میں ڈال یا نہ ڈال کنویں میں ڈال یا نہ ڈال۔ لکھنے کی ضرورت نہیں تو بول تو سہی ۔۔۔ یہ تو ہم آج کی باتیں کررہے ہیں ۔
کسی شخص نے مولا جعفر صادق علیہ السلام کو خط لکھا اس زمانے میں جب گدھے گھوڑے کا زمانہ تھا پیدل جانے کا زمانہ تھا ۔۔۔ کہنے لگا مولا ع آپ بڑے دور ہیں دل کرتا ہے کبھی اپنے امام سے بات کروں اپنا درد دل بیان کروں لیکن آپ دور بہت ہیں آپ تک پہنچنا بڑا مشکل ہے کیا کریں ۔۔۔۔ آگے سے امام ع جواب لکھتے ہیں اگر ہم سے بات کرنی ہو تو ہمارے پاس آنے کی ضرورت نہیں ہے تو جہاں بھی ہو بات کہہ دیا کرو ہوا ہم تک پہنچا دیا کرے گی۔۔۔ یہ یہی ٹیکنالوجی تھی یہی علم تھا جس ہوا کو ہم نے اپنی کم علمی اور ناقص علم سے مسخر کیا ہوا ہے یہ تو علوم الہی کے وارث ہیں انہوں نے تو پہلے سے مسخر کیا ہوا تھا۔ مولا ع ہمارے تمام امور پر واقفیت رکھتے ہیں وہ خود فرماتے ہیں ( ہم نے تمہیں تمہارے حال پر نہیں چھوڑ رکھا ہمیشہ تمہاری خبر رکھتے ہیں تمہارے اعمال ہم تک پہنچتے ہیں )
ہمارے مولا ع ہمارے امور سے مطلع ہیں ہم ہیں جو ان سے غافل ہیں ۔۔۔۔
تو عزیزان قرآن ہمیں یہ کہہ رہا ہے کہ اپنے امام غائب پر ایمان رکھ، ان کی معرفت پیدا کر اپنے امام کو پہچان ۔۔۔۔ آج ہماری گفتگو کا جو درس ہے وہ یہی ہے اگر امام تک پہنچنا ہے تو قرآن سے انس پیدا کرنا ہوگا۔ قرآن وہ کتاب ہے جو مجھے میرے امام ع تک لے کر جائے گی۔ قرآن ہے جو مجھے ظہور کی راہ بتائے گی، یہ قرآن ہے کہ جو مجھے زمانہ ظہور تک لے جائے گی، جو مجھے بتائے گی کہ میں نے کیا کرنا ہے ۔۔۔ پہلا وظیفہ ایمان ہے اور ایمان کا مطلب اپنے امام کی معرفت پیدا کرنا ہے۔ اور معرفت کا مطلب ہے اپنے امام ع پر یقین پیدا کر۔ ایک ہوتا ہے علم اور ایک ہوتا ہے یقین ۔۔۔۔ علم اور یقین میں فرق یہی ہے کہ انسان علم پیدا کرتا ہے بسا اوقات کسی چیز کا لیکن اسے یقین نہیں ہوتا وہ آغاز کا زینہ ہے ۔۔۔۔ نہیں علم کے ساتھ یقین پیدا کر کہ تیرا امام ع کائنات میں موجود ہے اور تیرے امور سے باخبر ہے، اور تیرے اعمال اس کی بارگاہ تک پہنچ رہے ہیں۔ اور تیرا امام ع تجھ سے بے پناہ محبت کرتا ہے اور تیرا منتظر ہے۔ امام ع ہم سے ہر آدمی کا منتظر ہے ۔کب ہم ان کے لیے ٹائم نکالیں گے کب ہم مولا ع کی منشاء کو سمجھیں گے، کب مہدی کے دردوں کو سمجھیں گے۔ ۔۔۔۔
آپ کو پتہ ہے اس وقت میرے مولا ع کا بہت بڑا درد کونسا ہے ؟وہ تنہائی ہے عزیزان یہ سب سے بڑی مصیبت ہے ۔میں نے یہ لفظ کہہ دیا ابھی غور کریں تنہائی یعنی کیا ؟ اپنے عزیزوں سے اپنے اقربا سے، اپنے بچوں بہن بھائیوں سے جدا ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اگر آج ہم سب کو مقامات مقدسہ کی زیارت کا شرف مل جائے نجف کا، کربلا کا، جنت البقیع کا مجھے بتائیں کہ اپنے عزیزوں سے جدا رہ کر کتنے دن رہ سکتے ہیں ہم ۔۔۔ ایک ہفتہ رہ لیں گے ایک مہینہ رہ لیں گے لیکن کچھ عرصہ کے بعد دل تڑپے گا یا نہیں ؟واپس پلٹیں گے ہم نہیں رہ سکتے اپنے بچوں سے ،اپنے بہن بھائیوں سے عزیزان سے دور نہیں رہ سکتے۔ کبھی سوچا ہے کہ زہرا سلام اللہ علیہا کے لعل کو اپنے عزیزوں سے جدا ہوتے ہوئے دور ہوتے ہوئے اس تنہائی میں رہتے ہوئے کتنا عرصہ ہوگیا۔ امام ع کا بہت بڑا درد ہے تنہائی اور یہ وہ تنہائی ہے جس پر صادق آل محمد گریہ کیا کرتے تھے۔
ابو بصیر کی روایت ہے کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایسا ہوا کہ میں مولا ع کے گھر کے باہر سے گزرا تو اندر سے امام ع کے اس طرح رونے کی آواز آرہی تھی جس طرح کوئی ماں اپنے جوان بچے کی موت پر گریہ کرتی ہے۔ چیخیں مار مار کر رو رہے تھے تو میں گھر میں داخل ہوا تو میں نے دیکھا آنسوں سے چہرہ بھرا ہوا ہے مولا ع کا چہرہ سرخ ہے اور امام ع کا عمامہ کھلا ہوا ہے گریہ کررہے ہیں کہا مولا ع کیا ہوا کونسی مصیبت آئی ہے فرمایا میں کتاب جفر میں جو آل محمد ع کے پاس کتاب چلی آرہی ہے میں نے کتاب جفر میں قائم کے حالات پڑھے اور اس کی لمبی تنہائیوں کو اور غیبت کی زندگی کو پڑھا تو اپنے بیٹے قائم کی تنہائی پر گریہ کررہا ہوں کہ اتنا طولانی عرصہ میرا مہدی کس طرح تنہائیوں میں زندگی گزارے گا قائم آل محمد ع کی تنہائی اور آج وہی لوگ ۔۔۔
اور یہ گریہ تو بی بی زہرا سلام اللہ علیہا بھی کیا کرتی تھی، ایک سید بزرگوار تھے وہ کہتے ہیں کہ میں نے بی بی کو خواب میں دیکھا تو کہنے لگیں کہ میں اپنے زمانے کہ سب سے بڑی مظلومہ تھی آج میرا مہدی مجھ سے بڑا مظلوم ہے۔ کیونکہ تم شیعوں سے اسے بھلا دیا تمہیں احساس نہیں کہ وہ کتنا تنہا ہے اور یہ وہ تنہائیاں ہیں کہ جس پر تمام آئمہ گریہ کرتے تھے۔ خود سید الشھداء جنگ صف اعزا میں بیٹھے ہیں سید الشہداء وہ ہستی ہیں جو سب سے پہلے امام مہدی علیہ السلام سے ملیں گے ۔جب مولا ع کا ظہور ہوگا تو سب سے پہلا عزیز سب سے پہلی ہستی سید الشہداء ہونگے ۔۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ جب مولا ع ظہور فرمائیں گے اور پہنچیں گے وہاں کربلا میں بین الحرمین اور جب دنیا والوں کو کہیں گے کہ حسین مظلوم کا بیٹا میں مہدی ہوں میں ہوں حسین ع کا بیٹا کہ جس کو پیاسہ ذبح کیا گیا تھا۔۔۔۔ جب وہاں مولا ع کے مصائب پڑھیں گے کہتے ہیں کہ یہ وہی زمانہ ہے کہ جب امام حسین ع کی قبر کھلے گی سرکار سید الشہداء نکلیں گے اور مہدی کو اپنے سینے سے لگا لیں گے۔
التماس دعا
عالمی مرکز مھدویت قم