امام زمانہ عج کے تین طرح کے ناصر
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
تحریر و ترتیب: نازش بنگش
1⃣ اصحاب خاص
مولا ع کے تین طرح کے ناصر ھیں۔۔۔ ایک وہ ھیں جو اصحاب خاص ھیں۔ ان کا سورہ ھود کی آیت 8 میں بعنوان امت معدودہ ذکر ہے
روایات میں انکے اوصاف ذکر ہوئے ہیں:
((رجـال الهیون ))، ((رجال مسوّمه ))، ((اصحاب الالویه ))، ((امراء))، ((وزراء))، ((خیر الامّه ))، ((ذخر اللّه ))، ((نقباء))، ((خواص ))، ((اولى قوّة ))، ((حکّام اللّه فى ارضه على خلقه ))، ((الحکّام على الناس )) و…
نام کیوں نہیں بتائے گئے؟۔۔۔چونکہ سب کے لیے راستے کھلے رھیں۔۔۔ یہ حکمت ھی ھے کہ نام نہیں بتائے گئے البتہ امام زمانہ علیہ السلام کو علم پروردگار سے ناموں کا پتہ ھے امام تقی علیہ السلام فرماتے ہیں :
_قائم کے پاس ایک مہرشدہ صحیفہ ہے جس میں ان تین سو تیرہ کے نام و اوصاف موجود ہیں۔_
لیکن ھمیں کیوں نہیں بتائے گئے ؟
یہ جو بعض بتاتے ھیں نام ۔۔۔ ان ناموں کی کوئی حقیقت نہیں ۔۔۔ صحیح ترین روایات کے اندر نام نہیں بیان ھوئے۔ کیوں نہیں بیان ھوئے ؟۔۔۔۔ کہ یہ دروازہ بند نہیں ھے۔ سب لوگوں کے لیے مولاع کی معرفت کو حاصل کرنے اور اس معرفت کے تقاضوں پر چلتے ھوئے وظائف منتظرین والےجو اعمال ھیں وہ انجام دینے کے راستے کھلے ھیں۔ تمام لوگ یہ صلاحیت رکھتے ھیں کہ وہ اس درجہ اولی کے اصحاب خاص میں سے شمار ھوں ۔۔۔۔ اب اگر ھم نہیں ھوتے تو یہ ھماری اپنی سستی ھے یا کوتاھی ھے۔
معصوم فرماتے ہیں’اُولئِکَ هُمْ خِیارُ اَلاُمَّةِ یہ امت کے سب سے بہترین افراد ہیں
یہ ھیں اصحاب خاص جنھوں نے حکومتیں کرنی ھیں۔۔۔
هـُمْ حـُکـّامُ اللّهِ فـى اَرْضِهِ عَلى خَلْقِهِ
چونکہ پوری زمین کو سنبھالنا ھے تو وہاں امام زمانہ علیہ السلام کو تین سو تیرہ حاکم چاھئیے۔
2⃣ اصحاب قیام
دوسری کیٹیگری کے جو لوگ ھیں جنہیں اصحاب قیام کہتے ھیں جو کہتے ھیں کہ دس ھزار یا بارہ ھزار جوان ھیں ان کی بھی صفات ذکر ھے۔۔۔ان کے بھی راستے کھلے ھوئے ھیں ھم اپنی معرفت اور اپنے عمل کو دیکھ کر محسوس کرسکتے ھیں کہ ھم کہاں ھیں۔۔
معصوم فرماتے ہیں:
اصْحابُ القائِمِ شَبابُ لا کَهُوُلَ فیهِمْ، اِلاّ مِثْلَ الْکـُحْلِ فِى الْعَیْنِ وَ المِلْحِ فِى الزّادِ، وَ اَقَلُّ الزّادِ المِلْحُ۔
یہ سب جوان ہیں کوئی بوڑھا نہیں اگر کوئی بوڑھا ہے تو بہت کم
یہ خدا کے شیر ہیں جب نکلیں گے تو پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ھلا دیں گے
3⃣ عام ناصر
تیسرے عام ناصر ھیں جو پوری دنیا سے جمع ھونگے کہ جو ممکن ھے کہ ان کے اندر خطائیں ھوں گناہ ھوں اس میں کوئی شک نہیں ھے لیکن امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے آنے کا مطلب یہ نہیں ھے کہ توبہ کا دروازہ بند ھوگیا ۔۔۔امام ع کے آنے کا مطلب قیامت کا آنا نہیں ھے ۔یہ ساری باتیں قیامت تک ٹھیک ھیں یا موت ۔۔۔ مولا ع نے تو دنیا کی ابھی ایک نئی تاریخ شروع کرنی ھے ۔۔۔ دنیا کی سب سے جو خوبصورت تاریخ ھے وہ امام زمانہ علیہ السلام کے وجود سے شروع ھوگی توبہ کا دروازہ کھلا ھوا ھے اور یہ تو ھماری روایات میں بھی ھے کہ امام زمانہ ع کی جو صفات ھیں کہ *رؤف با الناس* ( لوگوں کو بخشنے والے)
رحیم بالمساکین یعنی جو مسکین ھیں مستحق ھیں کہ جن کو ھدایت نصیب نہیں ھوئی جو مالی مشکلات میں ھیں جو توبہ کرنا چاھتے ھیں ان کو راستوں کا نہیں پتہ چل رھا جن کو حقائق کا پتہ نہیں چل رھا ۔۔۔ یہ سارے مسکین ھیں ۔مسکین کئی قسم کے ھوتے ھیں ۔۔۔ عام لوگ جب لفظ مسکین استعمال کرتے ھیں تو اس سے مراد مسکین مالی ھے لیکن مسکین علم کے اعتبار سے بھی ھوتا ھے معرفت کے اعتبار سے بھی ھوتا ھے ،ھدایت کے اعتبار سے بھی ھوتا ھے۔۔۔ کچھ لوگ ھدایت چاھتے ھیں لیکن سمجھ نہیں آرھی کوئی کچھ کہہ رھا ھے تو کوئی کچھ کہہ رھا ھے ۔۔۔۔ تو امام ع جو ھے وہ رحیم بالمساکین یعنی مسکینوں کے ساتھ رحمت سے پیش آئینگے ان کے لیے رحمت کے دروازے کھولیں گے۔۔۔ بہت سارے خطاکار لوگ مولا ع کی ھدایت کے زریعے توبہ اور نیکیوں کی راہ پر قدم رکھیں گے بالآخر امام ع ھادی ھیں ۔۔۔۔