اپنے لمحات خیر کو ضائع نہ کریں
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ.
پروردگار قرآن مجید میں سورہ البقرہ کی 148 نمبر آیہ مجید میں ارشاد فرما رہا ہے۔
فَاسْتَبِقُوا الْخَيْـرَاتِ ۚ
کار خیر کی جانب سبقت کرو۔
ہماری زندگی میں بسا اوقات ایسے لحظات آتے ہیں کہ جن کو ہم کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا ہم پر خاص لطف و کرم ہے۔ کہ اگر ہم ان لحظات سے استفادہ کریں اور وہ کار خیر انجام دے دیں تو یہ بہت بڑی سعادت ہے یعنی ہم گویا چند لحظوں میں سینکڑوں سالوں کا سفر کر لیتے ہیں اور یہ لحظات ہر شخص کی زندگی میں آتے ہیں اور وہ متوجہ ہو جاتا ہے لیکن تھوڑی سی سستی اور غفلت باعث بنتی ہے کہ وہ فرصت ہاتھ سے نکل جاتی ہے۔
انسان کو چاہیے کہ کوشش کرتا رہے اور ان لحظات کو تلاش کرتا رہے۔ ہمارے اردگرد بہت سے مسائل ہیں کہ جہاں ہم اگر تھوڑا سا کارخیر کریں تو اس کے بڑے بڑے ثمرات حاصل کرسکتے ہیں۔
خود ہمارے خاندان والے ہیں اور ہمارے اردگرد کے مومنین ہیں اور ان کی تھوڑی سی مدد اللہ تعالیٰ کی بے پناہ رحمتوں کو ہمارے شامل حال کر دیتی ہے اور بہت سارے گناہوں کی بخشش کا باعث بن جاتی ہے۔ ہماری باقی ساری عبادتوں کی قبولیت کا باعث بنتی ہے۔
یہاں ایک دلچسپ واقعہ آپ کی خدمت میں بیان کرتے ہیں جو ہوسکتا ہے کہ ہمارے اردگرد کے بہت سارے مسائل کو حل کرنے کا باعث بنے۔
ایران کے ایک مشہور خطیب حجت الاسلام و مسلمین استاد مسعود عالی اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں کہ ایک بہت بڑی شخصیت دور حاضر میں گذری ہے آیت اللہ آقا محمد تقی بہلول جو بہت بڑے عالم ، عارف فقیہ اور مجاہد تھے۔
بہت پہلے جب ان کا انتقال ہوا تو رہبر انقلاب نے ان کی وفات پر فرمایا تھا عجوبہ روزگار کہ یہ زمانے کی حیرت انگیز شخصیت تھے اور ان کی بے پناہ تعریف کی۔ جناب بہلول کو اللہ تعالیٰ نے ان کی عبادات اور زحمتوں کا جو صلہ دیا تھا پروردگار نے انہیں حی الارض قرار دیا ہوا تھا۔ وہ چند لحظوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ جاتے تھے۔
ان کے حوالے سے بہت کچھ بیان ہوا ہے۔ ہم یہاں ایک چھوٹا سا واقعہ پیش کرتے ہیں جو حوزہ علمیہ کے اس استاد نے اپنی تقریر میں بیان کیا۔
کہتے ہیں کہ میرے ایک دوست اصفہان میں رہتے ہیں کہتے ہیں کہ آیت اللہ بہلول جب بھی اصفہان آتے تھے میرے گھر میں ٹھہرتے تھے۔ ایک مرتبہ جب ان کو اصفہان میں ایک مجلس کی دعوت تھی۔ میرے گھر آئے ہوئے تھے ۔
اس زمانےمیں میں نے اپنے لیے ایک بہت ہی نفیس اور قیمتی ٹوپی خریدی تھی تو جب وہ مجلس میں ممبر پر تشریف فرما تھے اور میں ان کے بلکل سامنے فرش عزا پر بیٹھا تھا۔ اور وہ تقریر کر رہے تھے تو دوران تقریر ان کو چھینک آئی اور بعض اوقات چھینک کے دوران انسان کی ناک سے مواد نکل کر منہ پر آجاتا ہے چونکہ وہ آخری ایام میں بہت بوڑھے اور ضعیف ہو چکے تھے۔ تو وہ اصفہانی کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک دم اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا کہ کوئی رومال یا ٹشو مل جائے تو وہ نہیں تھا۔ وہ ذرا سے پریشان سے ہوئے۔ تو میں نے فوراً اپنی ٹوپی ان کو دے دی اور انہوں نے اپنا چہرہ اس سے صاف کیا اور بعد میں وہ متوجہ ہوئے کہ یہ کوئی رومال نہیں بلکہ ٹوپی ہے تو جب انہوں نے وہ مجھے واپس کی تو مجھے ایک خاص نظر سے دیکھا۔
وہ اصفہانی کہتے ہیں کہ جب وہ میرے ساتھ گھر آئے تو مجھے کہنے لگے کہ تمھاری کوئی آرزو ہے تو مجھے بیان کرو۔ میں نے کہا کہ میری کوئی آرزو نہیں میرے لیے یہی کافی ہے کہ آپ کی خدمت کرتا ہوں ۔
کہا کہ نہیں اگر کوئی آرزو ہے تو بتاؤ۔ کہتے ہیں کہ ان دنوں میں جنگ تھی اور کربلا اور نجف جانے کے راستے بند تھے تو وہ اصفہانی کہنے لگا آغا محترم میری آرزو ہے کہ کاش میں کربلا جاتا اور سید الشہداء کی زیارت کرتا لیکن افسوس راستے بند ہیں۔
تو انہوں نے فرمایا کہ ا ٹھو غسل زیارت کرو
میں نے غسل زیارت کیا۔
انہوں نے کہا 70 مرتبہ استغفار کرو۔ میں نے 70 مرتبہ استغفار کیا
پھر انہوں نے کہا کہ سورہ حدید کی ابتدائی آیات کی تلاوت کرو
پھر فرمایا:
سورہ حشر کی آخری چند آیات کی تلاوت کرو کہ جن میں اللہ کے اسماء حسنہ کا ذکر ہے اور اس میں پروردگار کی علویت اور عظمت کا ذکر ہے* میں نے اس کی تلاوت کی ۔ فرمایا صحن میں آجاؤ۔ جب ہم صحن میں گئے۔ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا ابھی ہم چند قدم ہی چلے تھے تو مجھے ایسے لگا جیسے میرے سامنے ایک حرم ہے اور میں مدہوش سا ہوگیا۔ مجھے لگا میں خواب میں ہوں میں نے پوچھا قبلہ یہ کون سی جگہ ہے کہا یہ حرم امام حسینؑ ہے۔
میں حیران ہوا میں حرم میں داخل ہو اس وقت حرم میں کوئی نہ تھا ۔
مجھ سے کہا نماز زیارت پڑھیں ۔ وہاں ہم نے نماز زیارت پڑھی۔
کچھ دیر وہاں عبادت کی۔ پھر ہم وہاں سے چلے ابھی چند قدم چلے تھے کہ ایک اور حرم دیکھا۔ میں نے پوچھا قبلہ یہ کون سا حرم ہے فرمایا۔
یہ امیرالمومنینؑ کا حرم ہے۔ مجھ پر حالت خواب طاری تھا میں حیران تھا۔ اور عجیب سا سما تھا اور فضا میں عجیب سی نورانیت تھی۔ انہوں نے کہا کہ امیرالمومنینؑ کی زیارت کریں نماز ادا کریں۔ کچھ دیر ہم نے وہاں عبادت کی پھر کہا کہ اب کیا پروگرام ہے۔ میں نے کہا آقا اب اصفہان چلیں۔ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا ابھی چند قدم چلے ہی تھے کہ لگا کہ اپنےگھر کے صحن میں ہوں جب صحن سے کمرے میں داخل ہوا تو ایک خواب کی حالت مجھ پر ختم ہوئی۔ تو میں نے کہا کہ ہم کیا واقعاً کربلا و نجف گئے تھے تو کہا کہ ہاں کیا تمھاری یہ آرزو نہیں تھی کہ ہم کربلا و نجف جائیں۔
اصفہانی کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا کہ قبلہ پھر مجھے سامرا اور کاظمین کیوں نہیں لے کر گئے تو کہنے لگے کہ تم نے سامرا ء اور کاظمین کی خواہش کا ذکر تو نہیں کیا تھا۔
عرض خدمت ہے کہ🫴 ایک عظیم شخصیت کے لیے ایک چھوٹا سا کام جو اس وقت انتہائی ضروری تھا۔ اصفہانی نے یہ نہیں دیکھا کہ میری ٹوپی اتنی مہنگی اور قیمتی ہے اور آغا کس لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ صرف ایک بزرگ عالم کو مولا امام زمانہؑ کا ایک سپاہی سمجھ کر ان کی خدمت میں اپنی ایک قیمتی چیز دے دی۔ اور یہ وہ لحظے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو کتنے قیمتی لحظات سے گذارا۔
امام زمانہؑ عج کی راہ میں ہمارا کوئ ایک قدم ہماری پوری کایا کو پلٹ سکتا ہے۔
آپ نے کیا کربلا میں جناب حرؑ کو نہیں دیکھا کہ جو جنہم کے آخری گڑھے میں تھے اور ایک دم بہشت کے عروج پر پہنچ گئے۔ اور بہشتیوں میں اعلیٰ ترین مقام حاصل کیا۔
امام صادقؑ جناب حرؑ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
یہ ان شہداء میں سے ہیں کہ جن کے بارے میں ہم آئمہؑ بھی کہتے ہیں کہ تم پر ہمارے ماں باپ قربان۔
جناب حرؑ کو یہ مقام کیسے ملا کہ جب ایک لحظہ انہوں نے توجہ کی۔
جب حر نے سید الشہداءؑ کا راستہ روکا تو آپؑ نے فرمایا اے حر تیری ماں تیرے غم میں روئے۔
مولاؑ حسین ؑ یہی چاہتے تھے کہ حر میرے یہ کہنے سے میری ماں فاطمہؑ زہرا کی جانب متوجہ ہو۔ تاکہ اس کی ہدایت ہو۔ کیونکہ مولا جانتے تھے کہ حر میں یہ صلاحیت ہے کہ جہمنی سے جنتی بن سکے۔ اور اس کی کایا پلٹ جائے اور مولاؑ کا یہ کہنا اور حر نے جواب دیا:
کہ اے فرزند رسولؐ آپ نے تو کہہ دیا لیکن میں یہ نہیں کہہ سکتا کیونکہ آپؑ کی ماں زہراؑ ہیں اور سیدہ النساء العالمین ہیں۔ بس یہ جو حر نے توجہ کی اور یہی سوچ باعث بنی کہ صبح عاشور اپنے لشکر کو چھوڑ کرے اپنے زمانے کے امامؑ کے قدموں میں آجاتے ہیں۔ اور چند لحظوں میں جناب حر نے جہنم سے جنت کے اعلیٰ ترین درجوں کا سفر کیا۔ اور شہدائے کربلا میں انہیں جگہ ملی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ اپنے بزرگوں، اپنے عزیزوں، اپنے اردگرد لوگوں میں بسا اوقات کسی مرکز کی خدمت ، کسی ہستی کی خدمت یا وہ ہستیاں کہ جن کی خدمت ہم پر واجب ہے۔ یا وہ عزیز جن کی کفالت ہم پر ضروری ہے ان کے حوالے سے قدم اٹھانا باعث بنے کہ پروردگار کی نگاہ لطف اور امامؑ کی دعا اور کرم ہمارے شامل حال ہو جائے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسے لحظات عطا فرمائے۔
الہیٰ آمین۔
عالمی مرکز مہدویت قم ایران