اخلاق منتظرین ( 11) – نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعنوان معلم اور اسوہ اخلاق صفت استقامت اور امانتداری
اخلاق منتظرین ( 11) – نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعنوان معلم اور اسوہ اخلاق صفت استقامت اور امانتداری
اخلاق منتظرین ( 11)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعنوان معلم اور اسوہ اخلاق
صفت استقامت اور امانتداری
خطابت:
استاد محترم آغا علی اصغر سیفی صاحب
خلاصہ:
اخلاق و تربیت کے حوالے سے ہم نے اپنے لیے
ہم نےرسولؐ اللہ کے اوصاف حسنہ کو اپنے لیے ماڈل اور اسوہ قرار دیا ہے۔
چونکہ محمدؐ و آل محمدؑ ہی حقیقی معنوں میں ہمارے ھادی و مربی ہیں اور ان کی تعلیمات جب ہم ان کو پڑھیں اور غور و فکر کریں تو اس سے ہمارا تذکیہ نفس ہو سکتا ہے اگر ہم محمدؐوآل محمدؑ کے دامن سے متمسک ہوں۔
اس حوالے سے پیغمبرؐ اسلام کی شخصیت کو پیش نظر رکھا ہے اور مختلف اوصاف میں اپنے پیغمبرؐ کی معرفت بھی حاصل کر رہے ہیں اور ان کی اخلاقی صفات سے بھی آشنا ہو رہے ہیں اور ان سے درس بھی لے رہے ہیں۔
اس حوالے سے کچھ صفات بیان ہو چکی ہے اور آج بھی دو صفات بیان ہوں گی۔
۔۔ استقامت :
ایک اہم ترین صفت استقامت ہے۔ جب انسان گناہوں کی راہ کو چھوڑ دیتا ہے یا عقیدے کے اعتبار سے کفر و شرک کی راہوں کو چھوڑ دیتا ہے۔ لیکن اس پر آ تو جاتا ہے لیکن اس پر باقی رہنا مشکل ہے۔ جیسے بعض احباب کہتے ہیں کہ ہم نے برائی کو چھوڑ تو دیا لیکن پھر کچھ عرصے تک برائی یا شیطان وسوسہ کرتا ہے تو ہم کیا کریں۔ تو یہاں استقامت کی ضرورت ہے اور استقامت پروردگار دیتا ہے۔ جس برائی، جس گناہ ، جس غلط عقیدے کو چھوڑا ہے ایک تو یہ بات ہے کہ اس کی جانب دوبارہ نہیں دیکھنا اور اپنے رب کو دیکھنا ہے۔ اور اس حوالے ہمارے لیے یہی ہستیاں ہیں ان کی زندگی کو پڑھنا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ کفار و مشرکین کس طرح رسولؐ اللہ کو پیشکشیں کرتے تھے کبھی عرب کی حکومت کی بات کبھی بے پناہ دولت ، لیکن رسولؐ اللہ نے راہ توحید پر اپنے عمل سے ہمیں استقامت کا درس دیا۔
قرآن مجید نے بڑے خوبصورت انداز میں صدر اسلام میں رسولؐ اللہ اور ان کےساتھ جو سابقین مسلمان تھے ان کے بارے میں بڑے خوبصورت تعبیر کی ہے۔
سورہ فتح
آیت 29
مُّحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّـٰهِ ۚ وَالَّـذِيْنَ مَعَهٝٓ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَـمَآءُ بَيْنَـهُـمْ ۖ
کہ پیغمبرؐ اسلام جو کہ اللہ کے رسولؐ ہیں اور ان کے ساتھ جو ان کے انصار ہیں وہ کفار پر سخت ہیں لیکن آپس میں مہربان ہیں۔
یہاں بہت بڑا درس ہے جیسے کفار ڈرا دھمکا سکتے ہیں کسی بھی طرح کا لالچ دے سکتے ہیں تو کسی بھی صورت میں قدم متزلزل نہ ہوں۔ جیسے عرب کے لوگ ڈراوے دیتے تھے۔
تو رسولؐ اللہ کا وہ خوبصورت جملہ:
کہ اگر میرے ایک ہاتھ پہ سورج اور ایک ہاتھ پہ چاند بھی رکھ دیں تو میں اپنے اس مشن سے پیچھے نہ ہٹوں گا۔
تو کفار اور مشرکین کے مدمقابل یا وسوسوں جو ہمارے اندر جو شیطانی وسوسے ہیں یا جو لوگ ہمیں برائیوں پر لگاتے تھے اس کے مدمقابل ہمیں ثابت قدمی اور استقامت رکھنی چاہیے اور ہمارا اصلی جہاد یہی ہے البتہ یہاں انسان پروردگار سے قوت قلب لے۔ اور وہ ہستیاں جنہوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں یعنی محمدؐ و آل محمدؑ اور ان کے اصحاب حق جنہوں نے مختلف ادوار میں ان امتحانوں میں جیسے وسوسے اور شیاطین کے حملوں میں جو انہوں نے استقامت دکھائی ہے اس کا مطالعہ کریں۔ اور غور کریں کہ وہ ہمارے لیے بہت بڑے درس ہیں جہاں سے ہمیں بہت بڑے سبق ملیں گے۔
اگر کوئی شخص آکر ہمیں گمراہ کرتا ہے یا بری صحبت چھوڑ دی ہے اور وہ آپ کو دوبارہ اکساتا ہے۔ تو ایسے لوگوں کے بارے میں پروردگار نے سورہ الزمر میں 49 نمبر آیت میں کتنے خوبصورت انداز میں ہمارے پیغمبرؐ کو بھی یہ تلقین کی ہے۔ اصل میں خود پیغمبرؐ کے مربی خود پروردگار ہے فرمایا کہ:
قُلْ يَا قَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰى مَكَانَتِكُمْ اِنِّىْ عَامِلٌ ۖ فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ (39)
کہہ دو اے میری قوم! تم اپنی جگہ پر کام کیے جاؤ میں بھی کر رہا ہوں، پھر تمہیں معلوم ہو جائے گا۔
یعنی تم جو کر رہے ہو کئے جاؤ میں بھی کر رہا ہے اور پھر تم کو معلوم ہو جائے گا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے۔ جنت کن کا مقام ہے اور جہنم کن کی منزل ہے۔ بلآخر یہ دنیا فانی ہے اور یہاں ہمیشہ تو نہیں رہنا۔ تو کس انداز میں پیغمبرؐ کفار کے مدمقابل اپنی استقامت دکھا رہے ہیں۔
امام زماں عج الشریف کے زمانہ ظہور میں جو انصار ہیں ان کی خاص صفات یہی ہیں
کہاجاتا ہے کہ ان کے دل لوہے کے ٹکڑے ہیں ۔ یعنی انہوں نے خوف خدا، تقویٰ الہیٰ اور محمدؐ و آل محمدؑ سے جو ہدایت لی ہے اس میں اپنے دلوں کو اسقدر مضبوط کر لیا ہے کہ اب کوئی شیطانی وسوسہ اور کوئی نفس امارہ ان کے دلوں کو ہلا نہیں سکتا۔ بالخصوص جو یہ اپنے امام زمانہؑ عج سے لیتے ہیں کہ ان کے دل اتنے مضبوط کر لیے ہیں وہ اب لوہے کے ٹکڑے بن گئے ہیں۔
یہی شخص جو کفار، شیطانی وسوسے اور برے دوستوں کے مدمقابل اس کا دل لوہے کا ٹکڑا بن گیا ہے لیکن یہی اپنے جو نیک دوست ہیں ان کے بارے میں یہ شفیق اور مہربان ہے اور یہ ایک دوسرے کو اچھائی کی تلقین کرنے والے ہیں۔
یہ وہ چیزیں ہیں جو انسان کے وجود کے اندر بلآخر استقامت لاتیں ہیں۔
اللہ سے ہمیشہ استقامت طلب کرنی چاہیے۔
۔۔ امانت داری۔
ایک اور صفت جو ہمارے پیغمبرؐ سے حاصل ہوتی ہے وہ امانت داری ہے خود ہمارے پیغمبر بعنوان امین معروف ہیں۔
یعنی حتی کہ اسلام کی تبلیغ کرنے سے پہلے ہی دنیا عرب میں صادق و امین کے لقب سے مشہور تھے۔
اب یہ جو امانتداری ہے یہ مال میں بھی ہوتی ہے، کسی کے راز، کسی کی خطا، کسی کی گفتگو اور ہر چیز میں امانتداری ہوتی ہے۔ انسان کو اپنے دوستوں یا معاشرہ جو امور اور ذمہ داریاں اس کے سپرد کرے اس میں امین ہونا چاہیے۔
ہم جنگ بدر میں ایک عجیب بات دیکھتے ہیں کہ جب جنگ بدر میں غنائم حاصل ہوئے تو اس وقت ایک قطیفہ سرخ گم ہوگیا۔ تو منافقین نے رسولؐ اللہ پر الزام لگا دیا۔
تو اللہ نے رسولؐ اللہ کے دفاع میں سورہ آل عمران کی آیت 161 میں ارشاد فرمایا:
وَمَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّغُلَّ ۚ وَمَنْ يَّغْلُلْ يَاْتِ بِمَا غَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ ثُـمَّ تُـوَفّـٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَهُـمْ لَا يُظْلَمُوْنَ (161)
اور کوئی پیغمبرؑ خیانت نہیں کرے گا۔ اور جو کوئی خیانت کرے گا تو اس چیز کو قیامت کے دن لائے گا جو خیانت کی تھی، پھر ہر کوئی پورا پالے گا جو اس نے کمایا تھا اور وہ ظلم نہیں کیے جائیں گے۔
یہ آیت یہ پیغام دے رہی ہے کہ پیغمبرؐ کے بارے میں ایسا شک نہیں کرنا چاہیے اور لوگ اتنی ظالم زبان رکھتے ہیں کہ نبیؐ پر تہمت لگا دیتے ہیں۔ یہ دنیا ہے لہذا ایک انسان کو اپنے امور میں امین ہونا چاہیے۔ لوگوں کی نگاہیں ہوسکتا ہے کہ ہمیں نہ دیکھیں لیکن پروردگار کی نگاہیں ہمیں دیکھ رہی ہیں۔
الہیٰ لوگ کبھی بھی خائن نہیں ہوتے۔ یہاں ایک اور بھی درس مل رہا ہے کہ نبیوں اور اولیائے خدا اور نیک لوگوں کا دفاع کرنا چاہیے جب ان پر کوئی خیانت کا بہتان لگے تو ہمارا فریضہ ہے کہ ہم امین لوگوں کا دفاع کریں تاکہ ان کو استقامت حاصل ہو۔ اور خائنین مکمل خیانتوں کے ساتھ روز محشر تمام دنیا کے سامنے حاضر ہونگےاور ان کا فیصلہ ہوگا اور خدا مکمل حساب کرے گا۔
اس آیت کے ذیل میں بہت سارے درس ہیں۔
خیانت فقط مال کے ساتھ نہیں ۔ بلکہ ہمارے پیغمبر تمام مسائل میں حتی کہ وحی اور اس کے ابلاغ میں بھی امین تھے۔
سورہ تکویر کے اندر 22، 23، 24 نمبر آیت ہمیں پیغام دے رہی ہے کہ:
وَمَا صَاحِبُكُمْ بِمَجْنُـوْنٍ (22)
اور تمہارا رفیق (رسول) کوئی دیوانہ نہیں ہے۔
وَلَقَدْ رَاٰهُ بِالْاُفُقِ الْمُبِيْنِ (23)
اور اس نے اس (فرشتہ) کو (آسمان کے) کھلے کنارے پر دیکھا بھی ہے۔
وَمَا هُوَ عَلَى الْغَيْبِ بِضَنِيْنٍ (24)
اور وہ غیب کی باتوں پر بخیل نہیں ہے۔
آخری جملہ ہے کہ تمھارا پیغمبرؐ وحی میں بخل نہیں کرتے۔ پیغمبرؐ اللہ کے جتنے بھی پیغام ہیں وہ لوگوں تک پہنچا رہے ہیں۔ یعنی اپنی ذمہداری میں امانتدار ہیں۔
اس میں ہمارے لیے بہت بڑا درس ہے کہ انسان کو جو اپنی بات پہنچانے کی ذمہداری دی گئی ہے تو اپنی اس ذمہداری میں بھی امین ہو اور اپنی اس چیز میں نہ تو بڑھائیں چڑھائیں اور نہ کمی کریں۔
اب یہاں ہمارے معاشرے میں ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ لوگ جب کسی کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں تو اس کے بارے میں بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں یعنی اصل بات اتنی نہیں ہوتی لیکن اتنی بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی ہے کہ جس کا اصل بات سے کوئی تعلق ہی نہیں ہوتا۔
انسان فقط پیسوں میں امین اور خائن نہیں بلکہ اپنی ذمہداریوں، اعمال اور گفتگو میں بھی امین اور خائن ہے۔
اگر ہم نے ایک مومن کا واقعہ دیکھا ہے تو حق نہیں کہ ہم اس کو بیان کرتے ہوئے ایک چیز کا اضافہ کریں یا کمی کریں۔ لیکن ان بیانات میں ہم اتنا اضافہ یا کمی کر دیتے ہیں کہ بہت سارے لوگوں کی حرمتیں پامال ہو جاتیں ہیں ان کا مقام مسخ ہوجاتا ہے اور ان کی طرف تہمتیں شروع ہو جاتیں ہیں۔ ایک چھوٹی سی خیانت ایک بہت بڑی تہمت کی شکل میں سامنے آئے گی اور اس کا نتیجہ جہنم ہے۔
اگر ہم نے کسی کا کوئی پیغام یا کسی کا کردار بیان کرنا ہے جو کہ اول تو ضروری نہیں لیکن اگر اسے نقل کرنا ضروری ہے تو اسی طرح بیان کریں جس طرح وہ ہے۔ وگرنہ یہ خیانت ہے۔ اور یہی درس ہمیں پیغمبرؐ دے رہے ہیں کہ اپنے تمام امور میں امانتدار رہیں۔ چونکہ پیغمبرؐ اپنے تمام امور میں امین تھے اسی لیے سب لوگوں کے رازدار تھے اور لوگ اپنے تمام امور میں آپ کی صحبت میں سکون اور اطمینان محسوس کرتے تھے۔ امین دیگر لوگوں کے لیے پناہ گاہ ہوتے ہیں اور یہ الہی صفات ہے۔ اللہ کے فرستادہ بندوں انبیاء اور محمدؐ و آل محمدؑ کی صفات ہیں
پروردگار عالم ہمیں ان دو صفات کو اپنے وجود میں پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم اپنے امام ؑ وقت کے بااستقامات اور امین سرباز بنیں۔
الہی آمین،
انشاءاللہ
والسلام
عالمی مرکز مہدویت قم