اخلاق منتظرین/مومنین میں اخوت و دوستی
اخلاق منتظرین/مومنین میں اخوت و دوستی
اخلاق منتظرین
مومنین میں اخوت و دوستی
استاد مہدویت آغا علی اصغر سیفی صاحب
تحریر: سعدیہ شہباز
خلاصہ:
قرآن مجید کے اندر اہل ایمان اور اہل انتظار کی دعا اسطرح بھی ہے کہ سورہ حشر کے اندر آیت نمبر 10 میں ارشاد پروردگار عالم ہو رہا ہے:
يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّـذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِىْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِـيْـمٌ
_(اور) دعا مانگا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارےان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمانداروں کی طرف سے کینہ قائم نہ ہونے پائے، اے ہمارے رب! بے شک تو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔_
ایک اہم چیز جو اہل ایمان اور اہل انتظار کےدرمیان ہونی چاہیے وہ آپس میں برادری اور ہمدلی ہے۔ مولا امام زمانہ عج الشریف کے ظہورکے اسباب میں سے بھی ایک اہم ترین سبب بھی یہی ہے کہ اہل انتظار آپس میں ہمدلی پیدا کریں گے اور یہ بھائی چارہ اتنا قوی ہو گا کہ یہ روایات یہ کہتی ہیں کہ ان کے اندر ہر قسم کا کینہ ختم ہو جائے گا ۔ اور ایک دوسرے سے محبت کریں گے ۔
_روایات یہ کہتی ہیں کہ یہ مختلف ممالک کے لوگ ہونگے لیکن ایسا لگے گا کہ یہ ایک ماں باپ کی اولاد ہیں۔_
انسان ایک اجتماعی مخلوق ہے۔ تنہائی انسان کو افسردہ کر دیتی ہے۔ اسے ہمیشہ اچھے دوستوں کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کے رازدار ، امین اور محبت کرنے والے دوست ہوں۔
نبی ؐ اکرم جب مکہ سے مدینہ آئے تو آپؐ نے مہاجرین و انصار میں محبت و اخوت کا رشتہ قائم کیا۔
ترمذی اور دیگر اہلسنن کی کتابوں میں نقل ہوا ہے:
اور یہ روایت ابن عمر سے ہے۔
رسولؐ اللہ نے اپنے اصحاب (مہاجرین و انصار ) کے درمیان ایمانی رشتہ قائم کیا۔ اسوقت مولا علیؑ آئے کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے کہ یا رسولؐ اللہ آپؐ نے اپنے اصحاب کے درمیان رشتہ قائم کیا۔ لیکن آپؐ نے میرے اور کسی کے درمیان ایسا رشتہ قائم نہیں کیا۔
تو اس وقت رسولؐ اللہ نے فرمایا ” یا علیؐ تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو”۔
یہاں مولا علیؑ کی فضیلت اپنی جگہ کہ رسولؐ اللہ نے انہیں دینا و آخرت میں اپنا ایمانی بھائی قرار دیا۔ بہت سے ایسے بھائی ہیں جو فقط دنیا کے لیے بھائی ہیں۔ لیکن آخرت میں ایک دوسرے کو نہیں پہچانیں گے۔
یہاں پر ایک اشارہ ہے کہ چونکہ رسولؐ اللہ بھی بشر ہیں تو انہوں نے علیؑ جیسی ذات کو اپنا بھائی کے طور پر انتخاب کیا۔
_اہل انتظار کو چاہیے کہ اپنے اردگرد کے ماحول سے اچھے نیک اور باایمان لوگوں کو اس ایمانی رشتہ کے لیے انتخاب کریں اور یہ دوستی مادی جسمانی شہوتی خواہشات اور اپنے وقتی کام نکالنے کے لیے نہ ہو بلکہ دوستی ایمانی ہو جس میں انسان حقیقی معنی میں ایک دوسرے کے دکھ سکھ کا ضامن ہو۔_
اب ہماری روایات کے اندر ایمانی بہن یا بھائی کی کچھ صفات نقل ہوئیں ہیں۔
مولا علیؑ فرماتے ہیں:
کہ جب بھی آپ کسی کو اس ایمانی رشتہ کے لیے انتخاب کریں تو پہلے اسے اچھی طرح آزمائیں۔ کہیں وہ آپ کے راز پاکر آپ کو ضرر نہ دے۔
پھر فرماتے ہیں کہ : _” تمھارا ایمانی بھائی یا بہن وہ ہے جو تمھاری خطاؤں کو بخش دے اور تمھاری زندگی کے اندر اگر کوئی مسائل ہیں تو انہیں حل کرے اور تمھارے عیبوں پر پردہ ڈالے اور اگر تمھارا کوئی خوف ہے تو اسے دور کرے اور اگر تیری کوئی آرزو یا تمنا ہے تو اسے پوری کرنے میں مدد کرے۔_
امام محمد باقر ؑ فرماتے ہیں:
چار قسم کے لوگوں کے لوگوں کے ساتھ ہمنشینی نہ کریں۔
1 ۔ احمق
2۔ بخیل
3۔ بزدل
4۔ کذاب
امام صادقؑ فرماتے ہیں:
یہ جو بھائی چارہ ہم قائم کرتے ہیں یہاں 3 چیزوں کی ضرورت ہے۔
1۔ آپس میں انصاف قائم رکھیں
2۔ ایک دوسرے کے حق میں مہربانی کریں
3۔ ایک دوسرے سے حسد نہ کریں
اسی طرح امام صادقؑ فرماتے ہیں
اہل ایمان میں سب سے زیادہ مجھے وہ بھائی پسند ہے وہ میرا بھائی ہے جو میرا عیب صرف مجھے بتائے۔ یہ میرا دوست نہیں بلکہ سخت دشمن ہے۔
بھائی چارہ کی صفات:۔
فرماتے ہیں مومن مومن کا بھائی ہے جو اپنی آنکھوں سے خیانت نہیں کرتا اور اپنی دلیل سے صحیح رہنمائی کرتا ہے۔ نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اسے دھوکہ دیتا ہے اور نہ وعدہ خلافی کرتا ہے۔
امام صادقؑ فرماتے ہیں:
اگر چاہتے ہو کہ اہل ایمان کے ساتھ دوستی رکھو اور تمھاری دوستی واقعاً خالص ہو تو کبھی بھی اس کے ساتھ مذاق نہ کرو۔
یعنی ایک دوسرے کو نشانہ نہ بناؤ اور تکلیف کا باعث نہ بنے۔
فضول بحث اور فخر فروشی نہ کرو۔
اس کے اندر اپنے لیے دشمنی پیدا نہ کرو اور اس پر اپنے رازوں کو نہ کھولو ۔
یہ دوست کبھی بھی دشمن بن سکتا ہے۔ اور پھر یہی راز آپ کو ضرر دینے کے لیے استعمال ہونگے۔
نتیجہ:
اہل ایمان کے اندر دوستی اور اخلاق والا رشتہ ہونا چاہیے۔ لیکن اس کا انتخاب صحیح ہو۔
اپنے راز نہ دے,حسد سے بچے۔ اور اپنے دوست کو تکلیف نہ دے۔ اور اپنی حماقت، احمق، بخیل ، بزدل
ی اور کذب جیسی برائیوں سے بچتے ہوئے اپنے دوستوں کو ہاتھ سے جانے نہ دے۔
عورت کا ایمانی رشتہ عورت سے ہے
اور مرد کا ایمانی رشتہ مرد سے ہے۔
_نامحرم عورت اور مرد ایمانی رشتہ قائم نہیں کرسکتے اور اس شیطانی اور گناہ والے راستے سے بچنا واجب ہے_
والسلام۔