اخلاق منتظرین قسط 3
اخلاق منتظرین قسط 3
استاد حجت الاسلام قالمسلمین علی اصغر سیفی
نازش بنگش
اخلاق و تربیت کے حوالے سے ھم نے کچھ حد تک انسان شناسی پر گفتگو کی ھے ۔چونکہ انسان شناسی اھم ترین نکتہ ھے
تربیت میں۔ عام طور پر اس پر گفتگو کم ھوتی ھے۔ھم اپنے آپ کو پہچانیں کہ قرآن مجید میں جو تین قسم کے نفس بیان کیے ھیں ۔کہ ھم ان میں سے کیا ھیں اور اسکے بعد اپنی تربیت کی راہیں ڈھونڈیں اور کہاں سے آغاز کریں۔اس پر کافی گفتگو ھوچکی ھے ۔
انسان شناسی کے بعد اھم ترین نکتہ جو تربیت میں کردار ادا کرتا ھے وہ امام شناسی ھے۔ چونکہ ھم اس وقت تاریخی اعتبار سے امام ع کے دور میں ھیں اس لیے کہتے ھیں کہ زمان شناسی بھی اھم ھے۔
زمانے کے اعتبار سے ھم تقریباً دنیا کے آخری دور میں ھیں۔چونکہ یہ وہ دور ھے جس میں ایک لاکھ چوبیس ھزار نبی ص گزر چکے ھیں ۔اور آخری نبی ﷺکی ھم امت ھیں اور اس آخری نبی کے آخری وصی کے دور میں ھیں ۔تو اس اعتبار سے قیامت کے قریب ترین جو دور ھے ھم اس میں ھیں ۔البتہ اس قیامت سے پہلے اس آخری وصی کا ظہور ھونا ھے اور ایک الٰہی حکومت بپا ھونی ھے اس میں بھی کافی عرصہ اس حکومت نے چلنا ھے۔لیکن مجموعی طور پر دنیا کو بنے ھوئے کروڑوں سال ھوئے ھیں تو ھم اس کے آخر میں ھیں اب ۔تو اب اس دور کے اندر امام شناسی اس لیے مہم ھے کہ ھم امام ع کے زمانے میں ھیں ۔
ضرورت امام ع
ضرورت امام ع وھی ھدایت ھے جو پچھلی دفعہ بھی بیان کیا ھے ۔ان سب میں آئمہ کا جو فلسفہ ھے وہ ھدایت دینا ھے۔ حتیٰ کہ وہ انبیاء جنہیں اللہ نے قرآن مجید کے اندر امام قرار دیا تھا انکے بارے میں بھی پروردگار یہی فرما رھا ھے مثلاً سورہ انبیاء میں دیکھیں خدا نے کچھ انبیاء کا نام لیا اور فرمایا ۔
ھم نے انہیں امام قرار دیا تاکہ وہ ھمارے احکام ھمارے فرامین کی رو سے ھدایت دیں
اصل کام امام کا ھدایت دینا ھے ۔نبی یا امام دونوں حجت خدا ھیں ۔کچھ ھستیاں صرف نبی ھیں نبی یعنی خبر دینے والا ۔اب خبر بشارتیں بھی ھیں ۔ مبشر کہلاتا ھے نبی ۔اور ڈرانا بھی ھے منذر کہلاتا ھے ۔لیکن کچھ نبی ھونے کے ساتھ ساتھ امام بھی تھے امام یعنی ھدایت دیں اسکا تزکیہ نفس کریں اس لیے بعض ھستیاں نبی بھی تھیں اور امام بھی ۔اور بعض صرف نبی تھے ۔جیسے ھمارے پیغمبر نبی بھی ھیں اور امام بھی۔
سورہ جمعہ میں پیغمبر اسلامﷺ کے بارے میں کہ پیغمبر دونوں کام کررھے ھیں تزکیہ نفس بھی اور کتاب اور حکمت کی تعلیم بھی دے رھے ھیں۔
حضرت ابراھیم ع بھی نبی بھی تھے اور امام بھی ۔اب ھم آئمہ ع کے دور میں ھیں یہ وہ ھستیاں ھیں کہ جو نبی تو نہیں ھیں امام ع ھیں ۔نبی اس لیے نہیں ھیں کہ اللہ کے آخری پیغامات آچکے ھیں اب مزید نبی کی ضرورت نہیں ھے ھاں امام کی ضرورت ھے۔تزکیہ نفس کرنے والے کی ضرورت ھے ھدایت کرنے والے کی ضرورت ھے ۔وہ ھر دور میں چونکہ ضرورت ھے اس لیے آپ دیکھیں پروردگار نے سورہ رعد میں پیغمبر اسلام ﷺ کو فرما دیا تھا کہ
آپ جو ھیں بہ عنوان نبی ص خدا کے پیغامات خدا نے جن چیزوں سے ڈرا دیا ھے وہ آپ نے پہنچا دیا ھے
لیکن ھر قوم کے لیے ھادی ھے
قیامت تک جب تک انسان باقی ھیں ان کے لیے ھادی بھی باقی ھے ھادی ھونا بھی ضروری ھے۔چونکہ ھادی وھی ھے جو پیغامات الہی کو پہنچانے کے ساتھ ساتھ عملی طور پر لوگو کا تزکیہ کرے ۔ھم نے عرض کیا تھا کہ اپنے تزکیہ نفس کے اندر امام ع سے مدد مانگنی چاھییے۔
امام شناسی
یہاں امام شناسی کی بحث کرتے ھیں کہ کس امام سے کون امام؟
اب یہاں امام شناسی بہت اھم ھے اس لیے مکتب تشیع جو ھے وہ بہت زیادہ امام شناسی پر زور دیتا ھے۔کیونکہ اصل میں امام ع کی شناخت سے ھی ساری چیزوں کا پتہ چلے گا ۔دین کا پتہ چلے گا ھدایت کا پتہ چلے گا۔ حتیٰ کہ توحید کا پتہ چلے گا۔کسی نے مولا حسین علیہ السلام سے سوال کیا کہ معرفت پروردگار کیا ھے تو آپ نے فرمایا کہ واجب الاطاعت امام کی معرفت اصل میں پروردگار کی معرفت ھے۔
کیونکہ واجب الاطاعت امام آپ کو بتائے کا کہ رب کیا ھے۔رب کی کیا صفات ھیں ۔امام کے تبدیل ھونے سے رب تبدیل ھوجاتا ھے ۔اور اس بات کو ھم جانتے ھیں ۔اب آپ دیکھیں کہ ھمارے جتنے بھی اردگرد مکاتب ھیں یہ بھی بظاھر اھل توحید ھیں لیکن انکی توحید کہاں اور ھماری کہاں ۔یہ خدا کو جسم دیتے ھیں یہ خدا کے دیکھنے کے قائل ھیں حتیٰ کہ نعوذباللہ،اللّٰہ کی جو ٹانگ ان کے تصور میں ھے انکو جھنم بھی پہنچا دیتے ہیں۔عجیب عجیب باتیں خدا کے بارے میں ۔یہ انسانی شکل دیتے ھیں خدا کو ۔کہتے ھیں کہ خدا زمین پر چلتا پھرتا ھے خدا کی کرسی ھے خدا آسمان سے اترتا ھے ۔وہ ذات جو منزہ ھے ۔جسکی مثل کچھ بھی نہیں ھے۔ تو اس ذات کے حوالے سے جو عجیب عقیدے ھم دیکھ رھے ھیں اسلام کے اندر باقی فرقوں میں ۔ان کے اماموں نے ان کو یہی کچھ بیان کیا ۔اب ھمارے امام کہتے ھیں کہ خدا منزہ ھے جسم اور جسمانیت سے پاک ھے۔تو امام کے تبدیل ھونے سے توحید تبدیل ھوتی ھے اب آپ دیکھیں ایک اور نکتہ انہی فرقوں کے اندر شدت پسندی دیکھیں اگر ان کے پاس طاقت آجائے تو جیسے داعش یا طالبان کی حکومت بن گئی ھے یہی لوگ ھیں نا انہی کے فرقوں سے اٹھنے والے لوگ ھیں تو یہ کتنے ظالم ھوتے ھیں۔اور اللّٰہ کا نام لے کر ظلم کرتے ھیں ۔بےگناھوں کو قتل کرتے ھیں ۔نا بچوں پر رحم نا خواتین پر ۔اور اذیتیں دے دے کر لوگو کو مارتے ھیں اور نام بھی اللہ کا لیتے ھیں
( اللّہ اکبر ) یہ کیسا خدا ھے۔ ان کے اماموں نے جو خدا ان کے ذھنوں میں ڈالا وہ ایسا ھی ھے جو کہتا ھے مارو مارو قتل کرو برے طریقے سے مارو ۔لیکن جو ھمارے آئمہ ع نے جو خدا بیان کیا ھے یہ خدا ساری مخلوق سے محبت کرتا ھے ۔وہ صرف کہتا ھے ظالموں سے لڑو۔ خواہ مخواہ کسی کافر کو بھی مارنے کا حکم نہیں دیتا اور بے گناہ پر تو خدا ناراض ھوتا ھے ۔کسی بےگناہ انسان کو مارنا گویا پوری دنیا کو مارنے کے مترادف ھے ۔سختی سے خدا منع کرتا ھے۔ کسی کمزور پر ھاتھ اٹھانا جیسے فتح مکہ کے وقت پیغمبر ﷺ نے کس خدا کے احکام جاری کیے۔فرمایا جو تمھارے مدمقابل آیا اسے لڑو باقی کسی سے نہیں لڑنا۔جنہوں نے اپنے گھروں میں پناہ لے لی ھے وہ ھمارے لیے قابل احترام ھیں کسی خاتون کسی بچے کسی بوڑھے کسی بیمار حتیٰ کہ جو آپ کے مدمقابل لڑنے کے لیے نہیں آیا اس کا احترام کرنا ۔اس کا خون مباح نہیں ھے ۔حالانکہ سارے کافر تھے
یہ ھم اس خدا کو ماننے والے ھیں حالانکہ فتح مکہ میں پیغمبر ﷺ کے پاس طاقت تھی چاھتے تو سب کو قتل کرسکتے تھے ۔سارے انتقام لیتے لیکن اب وہ چونکہ اس وقت تسلیم ھوچکے تھے اور رسول اللہ نے تمام انسانی حقوق کی رعایت کی اور اعلیٰ ترین اخلاق اور عدالت کا مظاھرہ کیا یہ وھی خدا ھے جس کے ھم قائل ھیں ۔اسی خدا نے امام علی ع کو ھمارے لیے امام بنایا۔تو ھم اس خدا کے ماننے والے ھیں جو رؤف ھے ۔
امام کے تبدیل ھونے سے خدا تبدیل ھوتا ھے اس لیے امام شناسی بہت اھم ھے۔یہ جتنے بھی فرقے بنے ھیں اماموں کے تبدیل ھونے سے بنے ھیں ۔ اس لیے ھمارے تشیع کے اندر امامت اھم ترین نکتہ ھے جس سے دین کا آغاز ھوتا ھے ۔اس لیے ھم اپنی گفتگو میں مولا علی ع کی امامت ثابت کرنے پر بہت زور دیتے ھیں ۔تاکہ پتہ چلے کہ اھم موڑ امامت ھے ۔امام بتائے گا کہ خدا کی کیا صفات ھیں ،دین کیا ھے ۔کیونکہ وہ سارا دین جو خدا کی طرف سے ھے اس میں توحید بھی ھے تمام عقائد تمام فقہ کے احکام رسول ﷺ پر نازل ھوچکے ھیں اور رسول اللہ ﷺ نے اپنے زمانے میں جتنا کام کرنا تھا کرلیا ھے باقی کس کے پاس ھے۔ باقی انہی اماموں کے پاس ھے اور ھر امام ع نے اپنے دور میں بتدریج بیان کیا ھے ۔اور ھم جس امام کی امت میں ھیں انہوں نے بھی جب ظہور کرنا ھے تو باقی ماندہ بیان کرنا ھے ۔دین کامل آچکا ھے لیکن بیان تو بتدریج ھورھا ھے ۔تو امام ع کی رو سے اگر دیکھیں تو پورا دین تبدیل ھوجاتا ھے ۔
عقائد میں فرق
اب ھمارے آئمہ نے جو دین کی تشریح کی۔ وضو کا طریقہ بتایا نماز کا بتایا ۔اور ان کے اماموں نے کیا کیا عقائد ھمارے آئمہ ع نے بیان کیے ھم جس انداز سے عصمت کو بیان کرتے ھیں کوئی بھی نہیں کرتا۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک عمل دن میں پانچ بار کیا تھا نماز پانچ بار ہڑھی تھی پانچ بار وضو کیا تھا ۔جو کام دن میں پانچ بار ھورھا ھے اس میں اتنا اختلاف ھے وضو اور نماز کا طریقہ چینج ھے ۔ کیوں؟ کیونکہ امام چینج ھے ۔
تو اب ھمیں کیسے پتہ چلے گا کہ صحیح وضو اور نماز کونسی ھے ؟یہ امام سے پتہ چلے گا۔امام وہ اھم موڑ ھے جس سے پورا دین روشن ھوتا ھے ۔تو بس امام ایک ھادی ھے وہ ھمیں ساری ھدایت دے رھا ھے۔وہ اصل دین بھی بیان کررھا ھے اور ھمارا تزکیہ نفس بھی وھی کرے گا۔جیسے ھم امام زمانہ عجل اللہ فرجہ کی امت ھیں ۔روایات یہ بیان کرتی ھے کہ “جب امام ظہور فرمائیں گے لوگو کے سروں پر ھاتھ رکھیں گے انکی عقلیں جمع ھوجائیں گی ان کے اخلاق کامل ھوجائیں گے” ۔البتہ یہاں ھاتھ رکھنے سے مراد شاید واقعا ھاتھ رکھنا نہ ھو ایسے اقدامات کریں گے کہ لوگوں کی اخلاقی تربیت ھوگی لوگ دانا ھونگے۔عقل مند باشعور اور تربیت یافتہ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ان کے اندر سے کینہ ختم ھو جائے گا ۔
دلوں سے کینہ بغض لڑائیاں نفرت تعصب یہ خواھشات نفسانی کی وجہ سے جو طرح طرح کے فتنے گھروں میں ھیں سب ختم ھو جائیں گے ۔لوگ عاقل ھوجائیں ھے ۔اور بااخلاق ایک دوسرے سے محبت کرنے والے ایمان کی طرح یہ ھے تربیت کا نتیجہ۔
امام کی شناخت
امام کی شناخت اس لیے بھی اھم ھے کہ کیونکہ ھماری دنیا اور آخرت اس پر موقوف ھے دنیا میں ھمیں کس دین پر عمل کرنا ھے اور اس کی نتیجے میں ھماری قبر اور آخرت بھی بچ رھی ھے ۔تو اس امام ع کی شناخت میں سستی سے کام نہیں لینا چاھییے۔بہت دقت کرنی چاھییے کیونکہ ھماری ساری زندگی اس پر موقوف ھے ۔اس لیے آپ دیکھیں تشیع کے اندر سخت ترین شرائط ھیں امام ع کے لیے۔ دنیا کے کسی مذھب اور مکتب میں ایسی سخت شرائط نہیں ۔ھماری سخت ترین شرائط یہ ھیں کہ
امام ع منصوص ھو اللہ کی طرف ھےدنیا کا بنایا ھوا امام ھم نہیں مانتےخدا کی طرف سے معین ھو
معصوم ھو وہ گناہ نہ کرے یعنی یہ شیعہ مذھب کی احتیاط ھے
یعنی ھم نے چونکہ خدا اور دین تک پہنچنا ھے ۔تزکیہ نفس تک پہنچنا ھے تو ھم سخت ترین شرائط رکھتے ھیں کہ جو امام منصوص اور معصوم ھوگا اسے ھم امام مانیں گے ۔معصوم کوئی گناہ نہ کرے نہ کبیرہ نہ صغیرہ نہ خطا کچھ بھی نہیں ۔اور دوسرا وہ اللہ کی طرف سے معین ھو کیونکہ خدا کو پتہ ھے کون معصوم ع ھیں ھمیں تو بظاھر نہیں پتہ چلے گا کہ یہ معصوم ھے یا نہیں ھم تو ظاھر میں دیکھیں گے کہ نیک اور پرھیز گار ھے لیکن وہ رب جانتا ھے کہ کون معصوم ھے ۔اس لیے تفکر دین میں ضروری ھے ۔دین کےاندر کچھ تحقیق اس لیے ضروری ھے کہ امام حق تک پہنچے کی معرفت حاصل کریں اور جو واجب ھے ھر آدمی پر امام شناسی۔۔
وہ جو حدیث ھے معرفت امام کی کہ “جو شخص زمانے کے امام ع کی معرفت نہیں رکھتا وہ جاھلیت کی موت مرتا ھے”
یعنی وہ اسلام کی موت نہیں مرتا اسکو پتہ ھی نہیں اسلام کیا ھے ۔اسلام تو امام نے بتانا ھے نہ ۔
اھم ترین نکتہ
اھم ترین نکتہ یہ ھےکہ آغاز جو ھے امام کی معرفت سے ھو اگر ھم نےدین پڑھنا ھے ۔اس میں پھر دینی فوائد بھی ھیں دین کے بارے میں ھمیں معلومات بھی ھونگی اور جو ھمارا موضوع ھے تزکیہ نفس بھی بہتر طریقے سے حاصل کریں گے۔ کیونکہ امام ع ھمارے مربی ھے ۔اسے مدد لیں گے ۔
امام کی صفات
نہ صرف امام معصوم اور منصوص ھو بلکہ ھم کہتے ھیں کہ امام ع وہ ھیں کہ جس کے اندر باقی تمام صفات بھی دنیا میں سب سے زیادہ اس کے اندر ھوں ۔ مثلاً سخی ھو تو اس سے بڑھ کر کوئی سخی نہ ھو ۔اس سے بڑھ کر کوئی متواضع نہ ھو اس سے بڑھ کر کوئی اپنے نفس پر تسلط رکھنے والا نہ ھو اس سے بڑھ کر کوئی شجاعت رکھے والا نہ ھو ۔اب یہی لفظ شجاعت کہ امام سب سے زیادہ شجاع ھو ۔اب شجاعت کا جو ھم معنی لیتے ھیں وہ عام طور پر میدان جنگ ھے ۔لیکن شجاعت وسیع معنی رکھتا ھے شجاعت یہ ھے کہ راہ پروردگار میں ثابت قدم رھے ھر قسم کی تکلیف کو برداشت کرے لیکن راہ خدا سے ایک قدم بھی پیچھے نہ ھٹے بلکہ آگے جائے چاھے یہ جو تکلیفوں کا میدان ھے وہ دنیا کا ظاھری میدان ھو ۔یا ھمارے نفس کا میدان ھو دونوں جگہ جنگ جاری ھے۔ ایک دفعہ یزید اندر ھے، ایک دفعہ باھر ھے ۔ایک دفعہ فرعون نمرود اندر ھےایک دفعہ باھر ایک دفعہ قابیل باھر ھے ایک دفعہ اندر ۔یہ سارے جو شیطانی کردار ھیں یہ باھر بھی ھیں اور ھمارے اندر بھی ۔تو ان کے مدمقابل قائم رھنا اور اپنے دین اور رب کے امر کا دفاع کرنا اور عبودیت پر باقی رھنا شجاعت ھے۔تو اب یہ شجاعت ھمیں امام ع سکھائے گا جو خود دنیا کا شجاع ترین فرد ھے ھر میدان میں۔تو اسکی شجاعت میں ھم نے درس لینا ھے۔تو اگر اپنی تربیت کرنی ھے اور اپنے مسائل سے واقف ھوگیے ھیں۔ اپنے باطن سے واقف ھوگئے ھیں؟ کہ ھمارے اندر نفس امارہ حاکم ھے یا ھمارے اندر قوت غضب، شھوت، قوت وھمیہ ھمارے اندر حاکم ھے۔ھماری زندگی نفسانی زندگی ھے نفس امارہ ھمیں کنٹرول میں کیے ھوئے ھے عقل مغلوب ھے ۔ھمارے اندر وجدان، ضمیر کمزور ھوچکا ھے۔ اس صورت میں امام ع کی تربیت میں آئیں۔
امام کی تربیت
اب یہ جو آئمہ ع کی تربیت ھم نے لینی ھے اس میں اھم نکتہ مطالعات ھے ۔آئمہ ع کی جو اخلاقی سیرہ ھے اس کا مطالعہ کریں۔ھمارے آئمہ ع نے اخلاقی اور تزکیہ نفس کے حوالے سے کیا کیا فرمایا۔کتابیں کھولیں احادیث کھولیں اور پڑھیں ۔یہاں سے آغاز ھے ھماری تربیت کا ۔خود ھمارے پیغمبر اسلام ﷺ نے کیا فرمایا۔ان کے جو بارہ اوصیاء ھیں انہوں نے کیا فرمایا ۔اس حوالے سے درس اخلاق بھی سنیں خود بھی مطالعہ کریں ۔ کہ محمد و آل محمد ع کے فرامین کی رو سے اخلاقی کیا نکات ھیں اور ھمارے آئمہ ع کی عملی صورت کیا تھی اخلاق کی
اسکو بھی سنا جائے ۔تو اخلاقی موضوعات پر جب ھمارا علم بڑھے گا تو اس کا اثر ھمارے نفس پر ،ذہن اور دل پر ھوگا ۔نفس امارہ پر ضربیں لگے گی آھستہ آھستہ۔پڑھنے کا اثر ھوتا ھے پڑھنے اور سننے کا بہت اثرھوتا ھے ۔یہ اثر ھی ھے جس سے آدمی یا بنتا ھے یا خراب ھوتا ھے ۔اس کو بہت اھم سمجھا جائے ۔جتنے بھی پیغامات ھیں انکا نقل و انتقال کان اور آنکھ سے ھے ۔جب ھم بار بار درس اخلاق سنیں گے اخلاقی سیرہ اور فرامین کو پڑھیں گے تو اثر شروع ھوگا یہ آغاز ھے۔ لیکن اب اس کے اندر یہ نہیں ھونا چاھئیےکہ میں ایک دم ھی ٹھیک ھوجاؤں۔کبھی بھی نہیں ھوتا۔جیسے انسان کی تخریب خراب ھونا بدترھونا بتدریج ہے اسی طرح بتدریج ٹھیک ھونا بھی ہے ۔ٹائم لگے گا لیکن اس میں بس ثابت قدمی ھے ۔وہ نہیں ختم ھونی چاھیئے ۔
جو کچھ آپ سن اور پڑھ رھے ھیں اسکے مطابق ساتھ ساتھ عمل شروع کریں۔سننے پڑھنے سے بھی اثر ھورھا ھے اور جو عمل کرنے کی کوشش کررھے ھیں اس کا بھی بہت زیادہ اثر ھورھا ھے کہ نفس امارہ مغلوب ھونا شروع ھو گا ۔اور نفس لوامہ قوی ھوگا ھمارے اندر ۔جیسے امیر المومنین ع فرماتے ھیں کہ
“اگر ھم ساتھ ساتھ عمل کریں گے تو قوت بڑھے گی اور جو کوتاھی کرے گا تو وھاں غفلت بڑھے گی”
مدمقابل جو شیطانی قوتیں ھیں وہ بڑھیں گی۔اب ھم نے امام ع شناسی میں تزکیہ اور تربیت لینی ھے ۔تو سب سے پہلے آئمہ ع کی احادیث جو کتابوں میں ھیں۔نہج البلاغہ میں دیگر جو کتابوں میں ھیں انکو پڑھنا شروع کریں ۔اب تو بہت آسان ھے کسی ایک موضوع کو گوگل پر لکھیں بہت کچھ آجاتا ھے۔یوٹیوب پر درس اخلاق دیکھیں اور نہیں تو آپ کے محلے میں کوئی مدرسہ ھے پیش امام ھیں انکے پاس جائیں کہیں کہ مجھے اخلاق پر درس دیں اور ساتھ عمل شروع کریں ۔لیکن ھوگا بتدریج۔ جیسے ایک بچے کو بہت زیادہ غذا دے کر بندہ کہے کہ ایک دم بڑا ھوگا ؟ نہیں اس نے بتدریج بڑا ھونا ھوگا ۔ نفس امارہ بتدریج کمزور ھوگا ۔اور نفس لوامہ بھی قوی ھوگا پھر نفس مطمئنہ بیدار ھوجائے گا لیکن ھوگا بتدریج۔ ثابت قدمی رکھنی ھے کمزور نہیں پڑنا ۔اب یہاں ایک نکتہ اور یہ ھے کہ ثابت قدمی میں دعا کرنی ھے ۔یعنی اللّٰہ سے دعا کرنی ھے اور وقت کے امام سے مدد مانگنی ھے یا علی ع یا مھدی ع ادرکنی ۔یہ جو جنگ شروع ہوگئی ھے اب میں نفس امارہ پر کنٹرول کرنے کے کیے درس اخلاق سن رھا ھوں اور ساتھ میں عمل کررھا ھوں تو اس میں کہیں میں کمزور نہ پڑ جاؤں اس میں اللہ کی بارگاہ میں بھی دعا کرنی ھے وقت کے ولی کو بھی پکارنا ھے اس سے بھی مدد مانگنی ھے کہ وہ آئیں اور میرا ھاتھ پکڑیں ۔یہاں ھمراھی ھے یہاں ولی کا ھادی ھونا بھی سمجھ ائے گا ۔اور انکی ھدایت کی توفیقات ملیں گی۔یہاں اب شیعہ اپنے امام ع کو پکار رھے ھیں اور یہاں امام نظر کرم کریں گے کہ یہ ھدایت کے لیے پکار رھے ھیں یہ توبہ اور تزکیہ نفس کے لیے پکار رھا ھے ۔تو آللہ نے انکو ھادی بنا کر بھیجا یہاں خدا کی طرف سے بھی توفیقات حاصل ھونگی خدا کو بھی توبہ کرتا ھوا نیک ھوتا بندہ بہت پیارا لگتا ھے۔خدا فخر کرتا ھے اور یہی ھادی حق ھیں آئمہ اور بالخصوص امام زمانہ علیہ السلام جنکے دور میں ھم ھیں تو یہ بےپناہ مدد کریں گے یہ آئیں ھی اسی لیے ھیں کہ ھمیں گناھوں اور خطاؤں کی ظلمات سے نکالیں۔پاکیزگی کی اور یہ توبہ اور مغفرت دلائیں۔یہ وہ ھستیاں ھیں جو خود پاکیزگی کے معیار پر قائم ھیں ان کے اوپر آیت تطہیر نازل ھوئی یہ خود پاک ھیں اور پاک شیعوں کو پسند کرتے ھیں ۔اور اپنی محفل میں پاک لوگوں کو پسند کرتے ھیں ۔جتنے پاک لوگ بڑھیں گے ھمارے آئمہ ع قوی ھونگے اور دنیا پر پاک نظام اور احکام دین اسلام نافذ ھوگا۔تو اپنی تربیت یہ نہیں کہ صرف اپنی مدد ھے بلکہ اپنے زمانے کے امام ع کی مدد ھے اور خدا کے دین کو دنیا پر نافذ کرنے میں بھی یہ مددگار ھے ۔
پرودگار سے دعا ھے کہ وہ ھمیں توفیق دے پاکیزہ زندگی گزارنے کی ۔اپنے تزکیہ نفس کی اور اس حوالے سے اللہ توفیق دے کہ ھم اس قابل ھوں کہ اپنے امام ع کو ھادی برحق کو پہچانیں اور ان سے ھدایت لیں ان شاءاللہ ۔اور انکی ھدایت کے زیر اثر نفس کی تربیت کریں اور خدا کے نیک اور پاکیزہ عبد بنیں اور وقت کے امام ع کے پاکیزہ ناصر بنیں ۔